انسان خطاؤں اور لغزشوں کا پتلا ہے انسان کبھی خطا سے پاک نہیں ہوتا۔ انسانوں سے خطائیں سر زد ہونا عام سی بات ہے کیونکہ فطری طور پر اس میں کمزوری پائی جاتی ہے۔ اس کی فطرت ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف سے مطلوبہ امور کو انجام نہیں دیتا اور اس کی منع کردہ اشیا کو ترک نہیں کرتا۔

نصیحت قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اورناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینا اِصرار باطل کہلاتا ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ، 2/164ملتقطاً)

اصرار باطل کے بارے میں تنبیہ: اِصرار باطل یعنی نصیحت قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اورناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینانہایت ہی مذموم، قبیح یعنی برا اور حرام فعل ہے، اس سے ہر مسلمان کو بچنا لازم ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 159)

قرآن پاک کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ حق بات قبول کرےکہ حق بات معلوم ہونے کے باوجود انانیت کی وجہ سے اسے قبول نہ کرنا فرعونیوں کا طریقہ ہے۔

چنانچہ قرآنِ پاک میں فرعونیوں کے متعلق ہے: فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْۤا اِنَّ هٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِیْنٌ(۷۶) (پ 11،یونس:76) ترجمہ کنز الایمان:تو جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آیا بولے یہ تو ضرور کھلا جادو ہے۔ اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیرصراط الجنان میں ہے:اس آیت سے معلوم ہوا کہ حق بات معلوم ہوجانے کے بعد نفسانیت کی وجہ سے اسے قبول نہ کرنا اور اس کے بارے میں ایسی باتیں کرنا جو دوسروں کے دلوں میں حق بات کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر دیں فرعونیوں کا طریقہ ہے، اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو حق جان لینےکے باوجود صرف اپنی ضد اور اَنا کی وجہ سے اسے قبول نہیں کرتے اور اس کے بارے میں دوسرو ں سے ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے یوں لگتا ہے کہ ان کا عمل درست ہے اور حق بیان کرنے والا اپنی بات میں سچا نہیں ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، 4/363)

اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس سے پہلی آیت میں بیان فرمایاگیا کہ کافر اللہ تعالیٰ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کو ن سی بات پر ایمان لائیں گے، اور جب وہ ایمان نہ لائے تو اس آیت سے ان کے لئے بہت بڑی وعید بیان کی جا رہی ہے،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر بڑے بہتان باندھنے والے، گناہگار کے لئے خرابی ہے اور یہ وہ شخص ہے جس کے سامنے قرآن کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ انہیں سن کر ایمان لانے سے تکبر کرتے ہوئے اپنے کفر پراصرار کرتا ہے اور وہ ایسا بن جاتا ہے گویااس نے ان آیتوں کو سنا ہی نہیں ،تو اے حبیب! ایسے شخص کو قیامت کے دن جہنم کے درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادو۔

مفسّرین نے اس آیتِ مبارکہ کا شان نزول یہ بھی بیان کیاہے کہ نَضْر بن حارِث عجمی لوگوں (جیسے رستم اور اسفندیار) کے قصے کہانیاں سنا کر لوگوں کو قرآنِ پاک سننے سے روکتا تھا،اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

یاد رہے کہ اس آیت کا نزول اگرچہ نَضْر بن حارِث کے لئے ہے لیکن اس وعید میں ہر وہ شخص داخل ہے جو دین کو نقصان پہنچائے اور ایمان لانے اور قرآن سننے سے تکبر کرے۔ (تفسیر طبری، 11/254)

احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہلاکت و بربادی ہے ان کے لئے جو نیکی کی بات سن کراُسے جھٹلا دیتے ہیں اور اُس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت وبربادی ہے اُن کے لئے جو جان بوجھ کرگناہوں پر ڈٹے رہتے ہيں۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: جب تک تم نیک لوگوں سے محبت رکھوگے بھلائی پر رہو گے اور تمہارے بارے میں جب کوئی حق بات بیان کی جائے تواسے مان لیا کرو کہ حق کو پہچاننے والا اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہوتا ہے۔ (شعب الایمان، 6/503، حدیث:9063)

غلطی پر اڑ جانے کے بجائے حق قبول کرنے کا ذہن بنانے اور اس کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے طریقے:

اصرار باطل کے نقصانات میں غور کیجئے جو کہ درج ذیل ہیں:

٭حق بات قبول نہ کرنے والے کو لوگ حق کی تلقین کرنے سے رُک جاتے ہیں۔

٭حق بات قبول نہ کرنے والوں کو لوگ ناپسند کرتے ہیں۔

٭حق بات قبول نہ کرنے والا اصرارِ باطل اور عنادِ حق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

٭حق بات قبول نہ کرنے والا تکبر میں پڑ جاتا ہے۔

٭حق بات نہ ماننے والا جھگڑے سے نہیں بچ پاتا۔

٭حق بات قبول نہ کرنے والا فضول بحث ومباحثہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

٭حق بات نہ ماننے والے کو لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہونا پڑتا ہے۔

غلطی پر اڑ جانے سے بچنا اور حق قبول نہ کرنے کے فوائد پر نظر کیجئے جو کہ درج ذیل ہیں:

٭حق بات قبول کرنے والے کو لوگ پسند کرتے ہیں۔

٭حق بات قبول کرنے والا تکبر سے دور ہوتا ہےکیونکہ کسی کو خود سے حقیر سمجھنا اور حق بات قبول نہ کرنا تکبر ہے۔

٭قبول حق عاجزی کی علامت ہے۔

٭قبول حق صالحین اور نیک لوگوں کا طریقہ ہے۔

٭قبول حق کے سبب آدمی فضول بحث ومباحثہ سے بچ جاتا ہے۔

٭حق بات قبول کرنے والے کی لوگوں میں قدر ومنزلت بڑھ جاتی ہے۔

٭حق بات قبول کرنے والا جھگڑے سے بچا رہتا ہے۔

٭قبول حق کے سبب آدمی عنادِ حق اور اِصرارِ باطل سے بچ جاتا ہے۔

ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھئے: جب بندہ یہ محسوس کرتا ہے کہ حق کی تائید کرنے سے ذاتی مفادات خطرے میں پڑ جائیں گےجبکہ غلط کام پر اڑےرہنے سے میری ذات کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا تو وہ حق بات کو قبول کرنے سے رُک جاتا ہے لہٰذا قبول حق کے لیے ضروری ہے کہ ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھا جائے۔

صالحین اور حق قبول کرنے والوں کی صحبت اختیار کیجئے، صالحین اور حق قبول کرنے والوں کی صحبت کی برکت سے قبول حق کا جذبہ ملے گااور باطل پر اِصرار سے آدمی بچ جائے گا۔

حب جاہ اور طلب شہرت کو ختم کیجئے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بات کا حق ہونا روزِ روشن کی طرح واضح ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود مخالفت میں اپنا باطل اور غلط موقف پیش کیا جارہا ہوتا ہے جس کاسبب حب جاہ اور شہرت کا حصول ہوتا ہے لہٰذا قبولِ حق کے لیے حب جاہ اور طلب شہرت کو ختم کرنا ضروری ہے۔ (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص 265 تا 267)