اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کتابیں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں اور اپنے  رسولوں کے پاس وحی کے ذریعے بھیجیں، وہ بے شک و شبہ سب حق اور سچ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ آخری کتاب ہے جو حضرت جبریل علیہ السلام لے کر آئے اور ہمارے پیارے نبی حضرت ﷺ کے مبارک دل پر نازل ہوئی۔ وہ ہمارے لیے ہدایت اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔ ہمارے لیے قرآن حکیم ایک فیصلہ کن کلام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌۙ(۱۳) (پ 30، الطارق: 13) ترجمہ: بے شک یہ قرآن ایک فیصلہ کن کلام ہے۔

آخرت میں بھی کامیابی کا دار و مدار قرآن حکیم کے احکام پر عمل کرنے اور رسول ﷺ کی کامل اتباع کے ساتھ وابستہ ہے۔ جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایا: قرآن تمہارے حق میں دلیل ہوگا یا تمہارے خلاف۔ (مسلم، ص 140، حدیث: 223)

اس کے علاوہ یہ ایک حقیقت ہے کہ حضور اکرم کا سب سے اہم پیغمبرانہ وظیفہ وحی کے ذریعے قران کو اللہ تعالیٰ سے لینا، اس کی حکمت کو سمجھنا، اس کو سیکھنا اور دوسروں تک پہنچانا اور سکھانا تھا ۔ لہٰذا جو قیامت تک قرآن پڑھنے، سیکھنے اور سکھانے کا مشن بنائے گا۔ وہ رسول ﷺ کا علمبردار اور خادم ہو گا اور اس کو رسول ﷺ سے خاص نسبت حاصل ہوگی۔ حدیث مبارکہ ہے: تم میں بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ (بخاری،3 /410، حدیث: 5027)

نبی ﷺ کی قرآن سے محبت کا عالم یہ تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے لیکن جب بڑی عمر ہوگئی اور وزن مبارک میں اضافہ ہوا تو نفل نماز بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ جب 30 سے 40 آیات پڑھ لیتے تو کھڑے ہو جاتے۔ ہم اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص یا سورہ کوثر پڑھنے پر اکتفا کرتے، جب کہ وہ بڑی عمر میں اتنی آیات پڑھا کرتے۔ ان کے صدقے میں اللہ سبحان تعالیٰ ہمیں بھی توفیق عطا فرمائیں آمین۔

حضور اکرم ﷺ کی قرآن سے محبت ایسی تھی کہ وہ قرآن پڑھتے بھی اور سنتے بھی تھے۔ آپ کے ذوق کا عالم یہ تھا کہ پڑھنے اور سننے کا انداز لطف والا ہوتا تھا۔ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: جب سورہ مرسلات نازل ہوئی اور نبی اکرم ﷺ تلاوت فرما رہے تھے اور آپ کا چہرہ مبارک تر تھا یعنی انداز یوں تھا جب انسان ذوق اور خشوع کے ساتھ پڑھتا۔ ماشاءاللہ

اسی طرح حضور اکرم اور صحابہ کرام جب آپس میں ملتے تو قرآن سننے کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔ یعنی جب ملاقات فرماتے تو کہتے کچھ قرآن سناؤ۔ یہ انداز ہوا کرتا تھا۔ بخاری شریف میں موجود ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میرے سامنے قرآن پڑھو انہوں نے فرمایا کہ یا رسول اللہ میں آپ کے سامنے قرآن کیسے پڑھوں۔ آپ پر تو قرآن نازل ہوا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: پڑھو میں تم سے قرآن سننا چاہتا ہوں۔ انہوں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی اور نگاہیں جھکائے حضرت عبداللہ بن مسعود پڑھ رہے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب میں اس حصے پر پہنچا۔ ترجمہ: ہم اُس دن آپ کو ان تمام لوگوں پر یعنی ہر اُمت میں سے ایک گروہ کو لے کر آئیں گے یعنی نبی کریم ﷺ کو لے کر آئیں گے اور ان تمام کے اوپر آپ کو گواہ لے کر آئیں گے۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کافی ہے! کافی ہے! حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ جب میں نے آنکھیں اٹھا کے دیکھا تو نبی کریم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اس کے علاوہ آپ نے فرمایا کہ قرآن حزن کے ساتھ نازل ہوا ۔ حزن کے ساتھ پڑھا کرو۔(مجمع الزوائد، 7/351، حدیث: 11694)

رب العالمین ہمیں بھی ایسا ذوق و شوق عطا فرمائے اور ہمارے پیارے نبی کے صدقے ہمارا خاتمہ بالخیر ہو۔ آمین