لفظِ اہل کا معنی ہے والا اور لفظِ بیت کا معنی ہے گھر یعنی
اس سے مراد گھر والا یا گھر والے ہیں۔ ہمارے اردو محاورے میں بھی بیوی بچوں کو
اہلِ خانہ یا اہل و عیال یا گھر والے کہا جاتا ہے۔ اہلِ بیت نبوت خانوادۂ نبوت ہے۔ اہلِ بیت ِ نبوت سیدِ مرسلین
ﷺ کا گھرانہ ہے۔ اہلِ بیت کی محبت باعثِ تکمیلِ ایمان ہے۔ اہلِ بیتِ نبوت وہ مقدس
ہستیاں ہیں کہ جس طرح حضور ﷺ تمام انبیاء ورسل علیہمُ السّلام کے سردار ہیں اسی
طرح رسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیت تمام انبیاء کرام اور رسلِ عظام علیہمُ السّلام کے
اہلِ بیت کے سردار ہیں۔ (عظمت و شانِ اہلِ بیت،ص 23)
انہی نفوسِ قدسیہ کی شان میں اللہ پاک نے قرآن مجید میں
فرمایا: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ
عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ
22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ
تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔
مندرجہ بالا آیتِ کریمہ میں اہلِ بیت سے مراد کون لوگ ہیں،
اس بارے میں مختلف اقوال ہیں، لیکن اکثر مفسرین کا خیال ہے اور خود حضور نبیِ کریم
ﷺ نے اس آیتِ کریمہ کے نازل ہونے کے بعد ارشاد فرمایا: یہ آیتِ تطہیر علی، فاطمہ،
حسن اور حسین (رضی اللہُ
عنہم )کے متعلق نازل ہوئی۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کا تقاضا ہے کہ اہلِ
بیت سے محبت ہو جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ پاک کی محبت کی بناء پر
مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی بناء پر اہلِ بیت سے محبت رکھو۔(مشکاۃ
المصابیح، 2/443، حدیث: 6182)
نسبتِ
اہلِ بیت کا طلبگار ہوگیا کرکے
وفا ان سے جنت کا حقدار ہوگیا
جسے اہلِ بیت کی محبت مل جائے اسے دونوں جہاں کی عزت مل
جائے گی، آخرت میں شفیعِ امت ﷺ کی رفاقت میسر آئے گی، اہلِ بیت کے صدقے اس کی بخشش
و مغفرت ہوجائے گی۔ (کراماتِ شیرِ خدا)
اہلِ بیتِ رسول اللہ ﷺ کی ایک دن کی محبت پورے سال کی عبادت
سے بہتر ہے اور جو اسی محبت پر فوت ہوا تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ (الشرف الموبد،
ص 92)
اگر کوئی شخص حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان مقیم
ہو، پابندِ صوم وصلوۃ ہو اور اس حالت میں فوت ہو کہ وہ محمد مصطفےٰ ﷺ کے اہلِ بیت
سے بغض رکھتا ہو وہ آگ میں داخل ہوگا۔(عقائد
ومسائل،ص82)
راہِ فقر میں تمام مقامات اور منازل اہلِ بیت کے وسیلے سے
عطا ہوتے ہیں، جو اہلِ بیت کا منکر اور بےادب ہے وہ اسلام سے خارج ہے۔
حضر ت زید بن ارقم سے روایت ہے: نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: ہم
تمہارے درمیان وہ شے چھوڑ کر جارہے ہیں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو
ہمارے بعد ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: اللہ پاک کی
کتاب جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور ہماری اولاد اور اہلِ بیت۔ یہ دونوں
جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ دونوں ہمارے پاس حوض ِ کوثر پر آئیں گے۔ تم دیکھو کہ
ان کے ساتھ ہمارے بعد کیسا معاملہ کرتے ہو۔ (عقائد و
مسائل،ص89)
جو شخص امام حسن و حسین اور اہلِ بیت یا صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم میں
سے کسی کی شان میں گستاخی کے کلمات کہتا ہے اس پر حدیث شریف میں لعنت آئی ہے، ایسا
شخص فاسق اور گمراہ ہے۔
دل میں
بغضِ اہلِ بیت اور جنت
جانے کا جنون
انا للہ
وا نا الیہ راجعون
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے محبت کرو کہ اس نے تمہیں
نعمتوں سے نوازا ہے اور اللہ کی محبت کی خاطر مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کی
خاطر میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/443، حدیث: 6182)
خدا نے کتے کی طرح نجس کسی کو نہیں پیدا کیا لیکن وہ شخص
کتے سے زیادہ نجس ہے جس کے دل میں بغضِ آلِ محمد ہو۔
اللہ پاک ہم مسلمانوں کو اس کشتی میں سوار فرمادے کہ جو
ہماری فلاح و بقا کا ذریعہ ہے اور ہمیں ہلاکت سے محفوظ فرمادے اور اہلِ بیت کی
ہمارے دلوں میں صحیح عقیدت و احترام نصیب فرمائے۔ آمین