قدرتی طور پر انسان جس سے محبت رکھتا ہے اس سے تعلق رکھنے والی تمام چیزیں اس کو محبوب ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ سے محبت رکھنے والے بھی آپ ﷺ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کو جان و دل سے محبوب رکھتے ہیں۔ اہلِ بیتِ اطہار وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہیں ہمارے پیارے آقا ﷺ سے خاندانی نسبت بھی حاصل ہے۔ قرآن کریم میں اہلِ بیت کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔

دورِ صحابہ سے لے کر آج تک امتِ مسلمہ اہلِ بیت سے محبت رکھتی ہے، چھوٹے بڑے سبھی اہلِ بیت سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ حضرت علامہ عبد الروف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصہ اور نمایاں فخر نہ پایا ہو۔ (فیض القدیر، 1/256)

حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جب امت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مومن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے۔ (الشرف الموبد، ص 94)

تفسیر خزائن العرفان میں ہے: حضور سیدِ عالم ﷺ کی محبت اور آپ کے اقارب کی محبت دین کے فرائض میں سے ہے۔ (تفسیر خزائن العرفان، ص 894)

اے عاشقانِ رسول ! صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم جو خود بھی بڑی عظمت و شان کے مالک تھے، وہ عظیم الشان اہلِ بیتِ اطہار سے کیسی محبت رکھتے تھے اور اپنے قول و فعل سے اس کا کس طرح اظہار کیا کرتے تھے۔ آئیے! اس کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں۔

صحابہ کرام کا حضرت عباس کی تعظیم کرنا: صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم حضرت عباس رضی اللہُ عنہ کی تعظیم و توقیر بجالاتے، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مشاورت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے۔ (تہذیب الاسماء، 1/244)

حضرت عباس رضی اللہُ عنہ بارگاہِ رسالت میں آتے توحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ بطورِ احترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ (معجم کبیر، 10/185، حدیث: 10615)

صدیقِ اکبر کی اہلِ بیت سے محبت: ایک موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کاذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروں سے صلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔ (بخاری، 2/438، حدیث: 3712)

ایک بارحضرت صدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: رسولِ اکرم ﷺ کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔ (بخاری، 2/438، حدیث: 3713)

فاروقِ اعظم کی اہلِ بیت سے محبت:ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہُ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا: اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حضورِ اکرم ﷺ کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں۔ (مستدرک، 4/139، حدیث: 4789)

ان کے گھر میں بے اجازت جبرئیل آتے نہیں قدر والے جاتنے ہیں قدر و شانِ اہلِ بیت

دعا: صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کس کس انداز سے اہلِ بیت سےا پنی محبت کا اظہار کرتے، انہیں اپنی آل سے زیادہ محبوب رکھتے، لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ساداتِ کرام اور آلِ رسول کے بےحد ادب و احترام کریں، ان کی ضروریات کا خیال رکھیں، ان کاذکرِ خیر کرتے رہا کریں اور اپنی اولاد کو اہلِ بیت وصحابہ کرام کی محبت و احترام سکھائیں۔ اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہمارے بےحساب مغفرت ہو۔ آمین


بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اہلِ بیت سے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہُ عنہم ہی مراد ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ بیت سے مراد پہلے نبیِ پاک ﷺ کی ازواج ہیں پھر اولاد، پھر داماد۔

قرآن مجید میں اللہ پاک کا فرمان: قرآن کریم میں اہلِ بیت کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ-(پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔

اہلِ بیت کے حقوق:

(1) ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہُ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا: اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حضورِ اکرم ﷺ کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں۔ (مستدرک، 4/139، حدیث: 4789)

(2) ایک موقع پر عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے حضرات صحابہ کرام کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہُ عنہما کی شان کے لائق ہو تو آپ رضی اللہُ عنہ نے ان کے لئے یمن سے خصوصی لباس منگوا کر پہنائے، پھر فرمایا: اب میرا دل خوش ہوا ہے۔ (ریاض النضرۃ، 1/34)

(3) صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم حضرت عباس رضی اللہُ عنہ کی تعظیم و توقیر بجالاتے، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مشاورت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے۔ (تہذیب الاسماء، 1/244)

(4) حضرت عباس رضی اللہُ عنہ بارگاہِ رسالت میں آتے توحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ بطورِ احترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ (معجم کبیر، 10/185، حدیث: 10615)

(5) حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت عمر و عثمان رضی اللہُ عنہما سواری پر آپ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے تشریف لے آتے یہاں تک کہ آپ وہاں سے گزر جاتے۔ (الاستیعاب، 2/360)


قرآن مجید میں جو اہلِ بیت کا ذکر آیا ہے کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو اس کے نسب یا دین یا پیشے یا گھر شہر میں شریک اور شامل ہوں۔ لغت میں کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو کسی کے گھر میں رہتے ہوں۔ پھر مجازاً جو لوگ اس کے نسب میں شریک ہوں ان کو بھی اس کے اہل کہا جاتا ہے۔ اور نبیِ اکرم ﷺ کے خاندان کے لوگوں کو بھی مطلق اہلِ بیت کہا جاتا ہے۔ بیت عربی زبان میں گھر کو کہتے ہیں۔ گھر تین قسم کا ہوتا ہے اسی اعتبار سے گھر والوں کے بھی تین طبقے ہیں، اہلِ بیت نسب، اہلِ بیت سکنیٰ اور اہلِ بیتِ ولادت۔ اہلِ بیت نسب سے مراد انسان کے وہ رشتے دار ہیں جو نسب میں آتے ہیں یعنی وہ رشتے دار جو باپ اور دادا کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اہلِ بیت سکنیٰ سے مراد وہ رشتے دار ہیں جو گھر کے اندر آباد ہوتے ہیں یعنی شوہر کی بیوی۔(عقائد ومسائل،ص86)

قرآن کی روشنی میں: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: راہِ فقر میں تمام مقامات اور منازل اہلِ بیت کے وسیلے سے عطا ہوتے ہیں، جو اہلِ بیت کا منکر اور بےادب ہے وہ اسلام سے خارج ہے۔ (مجتبی آخر زمانی)

(1)حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)

تن سے سر جدا کرنا آسان ہے مگر ناممکن ہے میری روح سے جدا کرنا عشقِ اہلِ بیت

(2)حضرت ابو سعید خدری رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو آدمی ہم اہلِ بیت سے بغض رکھے گا اللہ پاک اسے جہنم میں داخل کرے گا۔ (مستدرک،4/131،حدیث:4771)

(3) حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور سوار نہیں ہوا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

نسبت اہلِ بیت کا طلبگار ہوگیا کرکے وفا ان سے جنت کا حقدار ہوگیا

(4) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اہلِ بیتِ مصطفےٰ ﷺ کی ایک دن کی محبت پورے سال کی عبادت سے بہتر ہے اور جو اسی محبت پر فوت ہوا تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ (الشرف الموبد، ص 92)

باغِ جنت کے ہیں بہر مدح خوان اہلِ بیت تم کو مژدہ نار کا اے دشمنانِ اہلِ بیت

کس زباں سے ہو بیاں عزو شانِ اہل بیت مدح گوئے مصطفےٰ ہے مدح خوانِ اہل بیت

(5) حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں: آپ ﷺ نے فرمایا: لوگو! میں تمہیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میری اہلِ بیت کی محبت، مودت اور ان کے ساتھ معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ سے ڈرنا اور اس کو یاد رکھنا۔ اس کو آپ ﷺ نے دوبار دہرایا۔ (کنز العمال، 13/276، حدیث: 3762)

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت

حضرت امام رضا رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: خدا اس پر رحم کرے جو ہمارے امر کو زندہ کرے۔ راوی نے کہا: آپ کے امور کو کیسے زندہ کرے؟ آپ نے فرمایا: ہمارے علوم کو سیکھ کر لوگوں کو سکھائے۔

مصطفےٰ عزت بڑھانے کے لئے تعظیم دیں ہے بلند اقبال تیرا دودمانِ اہلِ بیت

اپنے نبی کے اہلِ بیت کو دیکھو، ان کی سمت کو اختیار کرو اور ان کے نقشِ قدم پر چلو، کیونکہ وہ تمہیں ہدایت سے باہر نہیں جانے دیں گے اور نہ ہی ہلاکت کی طرف پلٹائیں گے۔


حضرت صدیق اکبر کی اہلِ بیت سے محبت:ایک موقع پر حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے رسول پاکﷺ کے قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروں سے صلہ رحمی کرنےسے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔(بخاری، 2/438، حدیث: 3712)

ایک بار حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے احترام کے پیش نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔(بخاری 2/384، حدیث:3712)

امام حسن کو کندھے پر بٹھایا: حضرت عقبہ بن حارث بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی۔پھر آپ اور حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کھڑے ہو کر چل دیئے۔ راستے میں حضرت حسن کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نےانہیں اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور فرمایا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! حضور اکرم ﷺ کے ہم شکل ہو، حضرت علی کے نہیں۔اس وقت حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم مسکرا رہے تھے۔(السنن الکبریٰ، 5/48، حدیث:8161)

سیدنافاروق اعظم کی اہلِ بیت سے محبت:ایک بارحضرت سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ حضرت سیدتنا فاطمۃ الزھراء کے ہاں گئے تو فرمایا: اے فاطمہ! اللہ پاک کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حضور اکرم ﷺ کا محبوب نہیں دیکھا اورخدا کی قسم! آپ کے والد گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں۔ (مستدرک، 4/139، حدیث: 4789)

خصوصی کپڑے دیئے: ایک موقع پر سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرات صحابہ ٔ کرام کے بیٹوں کو کپڑےعطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی شان کے لائق ہوتو آپ نے ان کے لیے یمن سے خصوصی لباس منگواکر پہنایا۔اور فرمایا: اب میرا دل خوش ہوا ہے۔(ریاض النضرۃ، 1/341)

وظیفہ بڑھا کر دیا: یوں ہی جب حضرت سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضرات حسنین کریمین کے لیے رسول اللہ ﷺ کی قرابت داری کی وجہ سے ان کے والد حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے برابر حصہ مقرر کیا۔ دونوں کے لیے پانچ پانچ ہزار درہم وظیفہ رکھا۔(سیر اعلام النبلاء، 3/259)

حضرت امیر معاویہ کی اہلِ بیت سے محبت: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے چند نقوش بھی اٰل ابو سفیان (یعنی ہم لوگوں)سے بہتر ہیں۔ (الناہیۃ، ص59)آپ نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم اور اہلِ بیت کے زبردست فضائل بیان فرمائے۔(تاریخ ابن عساکر، 42/415) آپ نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے فیصلہ کو نافذ بھی کیا اور علمی مسئلہ میں آپ سے رجوع بھی کیا۔(سنن الکبریٰ للبیھقی، 10/205، مؤطا امام مالک،2/259) ایک مرتبہ آپ نے حضرت ضرّار صدائی سے تقاضا کر کے حضرت علی المرتضیٰ کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دعا کی: اللہ پاک ابوالحسن پر رحم فرمائے۔ (الاستیعاب، 3/209)یوں ہی ایک بار حضرت امیر معاویہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ آباؤ اجداد، چچاو پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں۔(العقد الفرید، 5/344)آپ ہم شکلِ مصطفےٰﷺ ہونے کی وجہ سے حضرت امام حسن کا احترام کرتے تھے۔(مراٰۃ المناجیح، 8/461) ایک بار آپ نے امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اس میں شرکت کی ترغیب دلائی۔

اہل بیت کی خدمت میں نذرانے: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضرات حسنین کریمین کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کیے، یہ بھی محبت کا ایک انداز تھا۔آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار اور کبھی تین لاکھ درہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتّٰی کہ ایک بار چالیس کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا۔(سیر اعلام النبلاء، 4/309)

حضرت عبد اللہ بن مسعود کی اہلِ بیت سے محبت: حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: آل رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ (الشرف المؤبد،ص92)نیز آپ فرمایا کرتے تھے اہل مدینہ میں فیصلوں اور وراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی ہے۔(تاریخ الخلفاء،ص135)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اہلِ بیت سے محبت: حضرت سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں:میں جب بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فرط محبت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔(مسند امام احمد،3/632)


مسلمانوں کے دلوں میں جہاں صحابۂ کرام کی محبت دین اسلام کے لیے ضروری ہے وہیں حضورﷺ کے گھرانے اہلِ بیت اطہار سے عقیدت و محبت میں دینِ اسلام کا حصہ ہے۔آقاﷺ نے جہاں اپنے اصحاب کے لیے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اقتدا کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018) وہیں اپنی آل کے لیے بھی فرمایا: میرے اہلِ بیت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے۔جو اس میں سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا۔اور جو پیچھے رہا وہ ہلاک ہو گیا۔(مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

اہلِ بیت میں کون کون شامل: اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ ﷺ کے وہ آل و اولاد مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔ان میں سیدنا علی کی اولاد، سیدنا جعفر کی اولاد، سیدنا عقیل کی اولاد، سیدنا عباس کی اولاد، بنو حارث بن عبد المطلب اور نبی اکرمﷺ کی تمام ازواج مطھرات اور بنات طاہرات رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔

حقوق اہلِ بیت(1): اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤاپنے نبیﷺ کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوت قرآن۔(فیضان اہلِ بیت، ص20)

(2) میری شفاعت میری امت کے اس شخص کے لیے ہے جو میرے گھرانے (یعنی اہلِ بیت)سے محبت رکھنے والا ہو۔(فیضان اہلِ بیت، ص20)

(3) تم میں بہتر آدمی وہ ہے جو میرے بعد میرے اہلِ بیت کے لیے بہتر ہوگا۔(مستدرک، 4/369، حدیث: 5410)

(4) جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ اسے عطا کروں گا۔(فیضان اہلِ بیت، ص24)

(5) سب سے پہلے میرے حوض (یعنی حوض کوثر)پر آنے والے میرے اہلِ بیت ہوں گے۔(السنۃ لابن ابی عاصم، ص 173، حدیث: 766)

اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی رحمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت (حاصل کرنے ) کے لیے مجھ سے محبت کرو، اور میری محبت (پانے) کے لیے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔(ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)

ہمارے اہلِ بیت کی محبت کو لازم پکڑ لو کیونکہ جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اللہ پاک اسے میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا۔ (معجم اوسط، 1/606، حدیث: 243)

حبِ اہلِ بیت دے آل محمد کے لیے کر شہید عشق حمزہ پیشوا کے واسطے

کس زباں سے ہو بیان عز و شان اہلِ بیت مدح گوئے مصطفےٰ ہے مدح خوان اہلِ بیت


صحابۂ کرام پیارے آقاﷺ کے ساتھی ہیں۔اہلِ بیت پیارے آقا کی اولاد ہیں۔آپ کی لاڈلی شہزادی حضرت بی بی فاطمہ کی اولاد ہیں حبیب خدا سے ہمیں سچی محبت کا اظہار کرنے کے لیے ہمیں اپنے دل میں اہلِ بیت کی محبت رکھنی چاہیے۔ پیارے آقا کا فرمان شفاعت نشان ہے: جو وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو جس کےسبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں اسے چاہیے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور انہیں خوش کرے۔(الشرف المؤبد، ص 54)

جس طرح اہلِ بیت سے محبت کرنا رسول اکرم سے محبت کرنا ہےایسے ہی اہلِ بیت سے دشمنی گویا سرکارﷺ سے دشمنی ہے۔

اہلِ بیت میں کون کون شامل: اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ ﷺ کے وہ آل و اولاد مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔ان میں سیدنا علی کی اولاد، سیدنا جعفر کی اولاد، سیدنا عقیل کی اولاد، سیدنا عباس کی اولاد، بنو حارث بن عبد المطلب اور نبی اکرمﷺ کی تمام ازواج مطہرات اور بنات طاہرات شامل ہیں۔

(1)اہلِ بیت اطہار کے پانچ حقوق: پیارے آقاﷺ نے فرمایا: تم میں سے پل صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔ (جمع الجوامع، 1/86،حدیث:454)

حضرت علامہ عبد الرؤف فرماتے ہیں یہ فضیلت اس کے لیے ہے جس کے دل میں صحابہ و اہلِ بیت دونوں کی محبت جمع ہوگی اور وہ اسی حالت میں فوت ہوگیا۔یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے پل صراط سے مراد دین اسلام ہو یعنی تم سب سے زیادہ دین پر ثابت قدم، کامل الایمان وہ ہوگا جو صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ پیار کرنے والا ہوگا۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ صحابہ و اہلِ بیت کی محبت ایمان کے کامل ہونے کی دلیل ہے۔ہمیں اپنا ایمان کامل کرنے کے لیے صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ پیار کرنا ہوگا۔

(2) پیارے آقاﷺ نے فرمایا: میں تم میں 2 عظیم (بڑی) چیزیں چھوڑ رہا ہوں ان میں سے پہلی تو اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے جس میں ہدایت اور نور ہے تم اللہ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو۔ دوسرے میرے اہلِ بیت ہیں اور تین مرتبہ فرمایا: میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔ (مسلم، ص1008، حدیث6225)

امام شرف الدین فرماتے ہیں: معنیٰ یہ کہ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کی شان کے حوالے سے اللہ سے ڈراتا ہوں تم سے کہتا ہوں کہ تم اللہ پاک سے ڈرو انہیں تکلیف نہ دو بلکہ ان کی حفاظت کرو۔(شرح الطیبی، 11/196)

(3) اہلِ بیت یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کی محبت و اطاعت ہدایت اور نجات کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے: آگاہ رہو کہ تم میں میرے اہلِ بیت کی مثال جناب نوح کی کشتی کی طرح ہے۔جو اس میں سوار ہوگیا نجات پا گیا جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہو گیا۔ ( مسند امام احمد، 1/ 785 حدیث: 1402)

اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان فرماتے ہیں: جیسے طوفان نوح کے وقت ذریعہ نجات صرف محبت اہلِ بیت اور ان کی اطاعت کی اتباع ہے۔ بغیر اتباع واطاعت دعویٰ محبت بے کار ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ میرے صحابہ تارے ہیں تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے گویا دنیا سمندر ہے اس سفر میں جہاز کی سواری اور تاروں کی رہبری دونوں کی ضرورت ہے۔الحمد للہ! اہلسنت کا بیڑا پار ہے کہ یہ اہلِ بیت اور صحابہ دونوں کے قدم سے وابستہ ہیں۔(مراٰۃ المناجیح، 8/494)

(4) پیارے آقاﷺ نے فرمایا: ہمارے اہلِ بیت کی محبت لازم پکڑ لو کیونکہ جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے تو اللہ پاک اسے میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! کسی بندے کو اس کا عمل اسی صورت میں فائدہ دے گا جب کہ وہ ہمارا (یعنی میرا اور میرے اہلِ بیت ) کا حق پہچانے۔(معجم اوسط، 1/606، حدیث: 243)

(5) نبی کریمﷺ سے منسوب ہر چیز کا ادب و احترام لازم ہے اہلِ بیت کا بھی ادب لازم ہے اور یہ محبت کا بھی تقاضا ہے، کتب میں اسلاف کرام کے کئی واقعات اس مناسبت سے ملتے ہیں چنانچہ حضورﷺ کے چچازاد حضرت عباس نے ایک مرتبہ حضرت زید بن ثابت کے گھوڑے کی رکاب پکڑ لی تو انہوں نے فرمایا: اے رسول اللہ کے چچا کے بیٹے! یہ کیا ہے؟ (یعنی آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ ) حضرت ابن عباس نےکہا ہمیں ایسی تعلیم دی گئی ہے کہ علماء کا ادب کریں اسی پر حضرت زید بن ثابت نے حضرت ابن عباس کے ہاتھ پر بوسہ دیا اور فرمایا کہ ہمیں بھی حکم ہے کہ ہم اپنے نبی کے اہلِ بیت اطہار کے ساتھ ایسا ہی کریں۔ (تاریخ ابن عساکر19)

اہلِ بیت سے محبت کا درس: حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: آل رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ (الشرف الموبد، ص 92)

دین اسلام کے لیے اہلِ بیت کی قربانیوں سے کون آگاہ نہیں ان کا صبر، ہمت، جذبہ اور ثابت قدمی مثالی ہے یہ وہ ہیں جن کا خاندان دین اسلام کی سربلندی کےلیے شہید ہوا جنہوں نے کتنی بھوک اورپیاس برداشت کی۔ مشقتیں جھیلیں جس طرح ہر موقع پر صبر سے کام لیا اہلِ بیت سے محبت کرنے والوں کو بھی مشکلات پر واویلا کرنے کی بجائے صبر و ہمت سے کام لینا چاہیے۔


اہلِ بیت اطہار وہ عظیم ہستیاں ہیں جو ہمارے پیارے آقا ﷺ کے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اعلیٰ حضرت حدائق بخشش میں پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا

اہلِ بیت اطہار کی عظمت وشان کے کیا کہنےکہ خود قرآن پاک ان کی عظمت وشان بیان فرمارہا ہے، چنانچہ سورۃ الاحزاب، آیت نمبر:33 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

اور خود حضورِ انور ﷺ نے اپنی زبانِ حق ترجمان سے اہلِ بیت کے فضائل بیان فرمائے، چنانچہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن تمام نسب منقطع ہوجائیں گے سوائے میرے نسب اور میرے سبب کے۔ (مجمع الزوائد، 8/398، حدیث: 3837)

یاد رہے! اہل بیت کے معنیٰ ہیں گھر والے۔ بیت کی تین قسمیں ہیں: بیتِ نسب، بیت سکن، بیت ولادت، اس لیے اہلِ بیت بھی تین قسم کے ہیں: اہلِ بیت نسب: حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی اولاد اہلِ بیت نسب ہیں۔(بنی ہاشم) اہلِ بیت سکن: گھر میں رہنے والے یعنی ازواج مطہرات۔ اہلِ بیت ولادت: رسول اللہ ﷺ کی اولاد، ان میں خاص کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت علی، حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کہ یہ حضرات فضل وکرامت محبت کے لحاظ سے زیادہ ممتاز ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، 8/383)

امتِ مسلمہ پر اہلِ بیت کے بہت سے حقوق ہیں۔ ان میں چند حقوق کا مختصر ذکر اگلی سطور میں کرنے کی سعادت حاصل کروں گی اور حق تو یہ ہے کہ ہم ان نفوسِ قدسیہ کا ایک حق بھی ادا نہیں کر سکتے۔

1) ان سے محبت رکھنا: اہلِ بیت سے محبت کرنے کا حکم خود رب تعالیٰ نے ہمیں ارشاد فرمایا ہے چنانچہ حکم ہوا: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔ اس آیت مبارکہ کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اہلِ بیت کی محبت ہم پر واجب ہے۔ ہمیں چاہیے اس حکم ربی پر عمل کرتے ہوئے خود بھی اہلِ بیت کے محبت کےجام پئیں اور اپنی نسلوں کو بھی اس سے سیراب کریں۔ (عقائد ومسائل،ص82)

2) ان کی عزت کرنا: حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تم کو اپنے اہل بیت کے متعلق الله سے ڈراتا ہوں۔ اس کی شرح میں مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: یعنی میں تم کو اپنے اہل بیت کے متعلق الله سے ڈراتا ہوں،ان کی نافرمانی بے ادبی بھول کر بھی نہ کرنا ورنہ دین کھو بیٹھو گے۔(مراٰۃ المناجیح، 8/388- 389)

3) ان پر درود بھیجنا: ان پر درود بھیجنا یہ ایک ایسا حق ہے کہ اللہ پاک نے نماز کے اندر درود ابراہیم کی صورت میں اسے رکھ دیا۔ اسی کے متعلق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنے اشعار میں لکھتے ہیں۔

یَا اَہلَ بَیت ِرَسُول ِاللہِ حُبُّکُمْ فُرِضَ مِنَ اللہِ فِی الْقُرآنِ اَنْزلَہُ

کَفَاُکمْ مِن عَظیم ِالْقدرِ اَنَّکُمْ مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلیکُمْ لَا صَلٰوۃَ لَہُ

یعنی اے رسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیت! تمہاری محبت اللہ پاک کی طرف سے فرض ہے۔ اس نے قرآن کریم میں یہ حکم نازل فرمایا ہے۔عظمت مقام سے تمہارے لیے یہ کافی ہےکہ جو تم پر درود نہ بھیجے اُس کی نماز نہیں ہے(یعنی ناقص ہے)۔ (عقائد ومسائل،ص90)

امام دیلمی روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ دعا روک دی جاتی ہے یہاں تک محمد ﷺ اور آپ کے اہلِ بیت پر درود بھیجا جائے۔(معجم صغیر،2/303،حدیث:812، عقائد ومسائل،ص90)

4) ان کو حسب نسب میں افضل جاننا: اہلِ بیت حسب نسب میں سب انسانوں سے افضل ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: مجھ سے جبریل علیہ السلام نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ! میں نے زمین کے مشرق ومغرب کو الٹ پلٹ کر دیکھا، میں نے بنی ہاشم سے بڑھ کر کسی باپ کے بیٹوں کو نہ پایا۔(فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل،2/628)

5) اطاعت وفرمانبرداری: ان کی اطاعت وفرمانبرداری کرنا، ان کی سیرت پر عمل کرنا یہ بھی اہلِ بیت کے حقوق سے ہے چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے درمیان ہمارے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پا گیا اور جو سوار نہیں ہوا غرق ہوگیا۔(مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

ہم نے اہلِ بیت کی عظمت وحقوق ملاحظہ فرمائے ہمیں چاہیے کہ ان حقوق کو ادا کریں، ان نفوسِ قدسیہ کی محبت اپنے دلوں میں راسخ کریں، ان کی سیرت پر عمل کریں کہ اسی میں دنیاوآخرت کی کامیابی ہے۔

اہل سنت کاہے بیڑا پار اصحابِ حضور نجم ہے اور ناؤ ہے عترت رسول الله کی

اللہ پاک ہمیں صحابہ واہلِ بیت کا سچا عاشق بنائے اور ان کے صدقے ہماری، ہمارے والدین کی بےحساب مغفرت فرمائے۔


مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺکی محبت ہر مسلمان پر اس کے اعزہ و اقربا اور جان و مال سے بڑھ کر لازم و ملزوم منجانب شریعت مطہرہ ہےاور یہ فطری بات ہے کہ انسان جب کسی سے محبت رکھتا ہے تو اس سے متعلقہ (یعنی نسبت رکھنےوالی) ہر شے سے محبت رکھتا ہے نیز وہ اس کے اقوال و افعال وعادات و اخلاق، اس کے وطن، اس کے مکان، اس کی آل واصحاب سے الفت و وارفتگی رکھتا ہے اور محبوب سے قریب تر چیز کو خود کے لیے متبرک جانتا ہے اور اس کا ادب و احترام بجا لاتا ہے۔ چنانچہ اہل بیتِ کرام تو وہ نفوس ِ قدسیہ ہیں کہ جن کے صبح و شام دو جہا ں کےسلطان ﷺ کی معیت میں بسر ہوتے تھے۔ ان کا لمحہ لمحہ جانِ عالم کی ذاتِ والا تبار سے فیض حاصل کرتے گزرتا تھا۔ ان کی تربیت، ان کی حیات سے لے کر وفات کے کہ جملہ امور میں حضور کا دستِ شفقت ان کے سروں پر اور آپ کی نظرِ عنایت ان کے احوال و افعال کو ملاحظہ فرماتی تھیں۔ تو وہ حضرات کس درجہ محبت کے حق دار ہوں گے جن کے لیل و نہار حضور ﷺکی زیارت کرتے بسر ہوتے تھے اور ان کی شان کا تو کیا کہنا کہ جن کے بارے میں اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: یعنی اے میرے حبیب ﷺکے گھر والو! اللہ پاک تو یہی چاہتا ہے کہ گناہوں کی نجاست سے تم آلودہ نہ ہو۔(مدارک،ص94ملخصاً)

آئیے جانتے ہیں کہ اہل قرابت یعنی (اہل بیت)سے کون کون مراد ہیں؟ اس میں کئی اقوال ہیں: ایک تو یہ کہ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ وحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا و حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ آلِ علی وآل عقیل وآلِ جعفر و آل عباس مراد ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ کے وہ اقارب مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور وہ مخلصین بنی ہاشم و بنی مطلب ہیں اور حضور ﷺ کی ازواجِ مطہرات حضور ﷺ کے اہلِ بیت میں داخل ہیں۔(خزائن العرفان،الشوریٰ:23)

اب جب کہ ہم نے یہ جان لیا کہ اہل بیت عظام میں کون شامل ہیں تو اب شریعت کی رو سے اس کا حکم دیکھتے ہیں۔

اہلِ بیت سے محبت کا حکم: حضرت امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اللہ پاک نے حضور ﷺ کے تمام اَہل بیتِ عظام اور ان کی ذُرِّیت (یعنی اولاد) کی محبت فرض فرمادی ہے۔ (المواہب اللدنیہ، 2/527)

چنانچہ حضور ﷺ کے فرامین سے اہل بیت و اطہار کے حقوق واضح طور پر ثابت ہیں:

اہل بیت و اطہار کے پانچ حقوق:

(1)ان سےمحبت رکھنا: حضور ﷺ نے فرمایا: میری شفاعت میرے اس امتی کے لیے ہوگی جس نے میرے اہل بیت سے محبت کی۔( ماہنامہ ضیائے طیبہ کراچی تحفظِ ناموسِ رسالت،ص12)

(2)ا ن کی تعظیم و توقیر کرنا: چنانچہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تم کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ پاک کی قسم دیتا ہوں۔ یہ تین مرتبہ فرمایا(یعنی اہل بیت کی تعظیم و توقیر کرو)۔ (مسلم،ص1008، حدیث:6220)

(3)ان کی لغزشوں سے در گزر کرنا: حضور ﷺنے ارشا دفرمایا: میرے اہل بیت و انصار میرا ظاہر و باطن اور میرے اصحاب میری خوشی کا باعث ہیں اور مجھے ان پر اعتماد ہے۔ پس ان کے مُحسن سے قبول کرو اور ان کے لغزش کرنے والے کو درگزر کرو۔(الطبقات الکبریٰ،2/252)

(4، 5) ان کے دوستوں کو دوست اور دشمنوں کو دشمن رکھنا: نبی آخر الزمان ﷺنے ارشاد فرمایا: جس نے علی ( رضی اللہ عنہ) کو دوست رکھا تو علی بھی اس کے دوست ہیں۔ اے خدا !جس نے ان سے دوستی رکھی تو بھی ان سے دوستی رکھ، جس نے ان سے دشمنی رکھی تو بھی اسے مبغوض رکھے۔(مسند احمد،1/118- 119)

معزز قارئین! محبت اہل بیت میں آخرت کی کامیابی کا رازہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: آلِ نبی کی معرفت دوزخ سے نجات اورآلِ نبی سے محبت صراط پر گزرنے میں آسانی اور آلِ نبی کی ولایت کا اقرار عذابِ الٰہی سے حفاظت ہے۔(الشفاء،ص425)

ہمارے اسلاف کی گھٹی میں اہل بیت سے محبت کرنا، ان کی تعظیم میں پیش پیش رہنا، ان کا ذکر ادب و احترام کے ساتھ کرنا، ا ن کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنا شامل رہا ہے۔ ان صفات سے عاری قلوب کے لیے خسارہ و محرومی کے سوا کچھ نہیں کہ جو دونوں جہاں میں امت کے حق میں عافیت، شفقت،عنایت اور اکرام کی بارش فرمانے والےپیارے محبوب کے جگر گوشوں سے محبت نہ کریں اور ان کا ادب بجا نہ لائیں یقیناً یہ بد نصیبی ہے اور بروزِ محشر امت کے غمخوار ﷺکے سامنے شرمساری و ندامت مقدر کرنے والا افسوس ناک امر ہے۔

ہم اللہ پاک سے ایسی آفت سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ اللہ پاک ہم کو پیارےا ٓقا ﷺ کی پاک نسبتوں کا لحاظ رکھنے والااور حقوق اہل بیت کو کما حقہ ادا کرنے والا بنادے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین ﷺ


امت مسلمہ اپنی ایمانی زندگی میں اہلِ بیت اطہار کی محتاج ہےاور صحابہ کےبھی حاجت مند ہیں امت کے لیے صحابۂ کرام کی پیروی میں ہی ہدایت ہے۔ جو شخص اللہ پاک کے پیارے نبی ﷺ سے محبت کرتا ہے تو وہ ان کی آل سے بھی محبت کرتا ہوگا اور ان کے صحابہ سے بھی محبت کرتا ہوگا اسی لیے کہا گیا ہے کہ اگر کسی کے اندر عشق رسول دیکھنا ہے تو یہ دیکھ کہ اہلِ بیت سے کتنی محبت کرتا ہے۔

(1) جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اسے عطا فرماؤں گا۔(فیضان اہلِ بیت، 24تا 25)

(2) تم میں سے پل صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے اہلِ بیت و صحابۂ کرام سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔ (جمع الجوامع، 1/86،حدیث:454)

(3) میرے اہلِ بیت میری خاص جماعت اورمیرے ہم راز ہیں۔ (فیضان اہلِ بیت،ص 33)

(4) اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کسی کے دل میں ایمان داخل نہ ہوگا حتّٰی کہ اللہ و رسولﷺ کے لیے تم سے محبت کرے۔ (ترمذی، 5/422، حدیث: 3783)

(5) اس وقت تک کوئی( کامل )مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں۔ اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہو جائے۔(شعب الایمان، 2/189، حدیث: 1505)


اہلِ بیت میں نبی کریم ﷺ کے گھرانے والے شامل ہیں۔ اہلِ بیت نبوت سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔جو ان سے بغض رکھے پیارے آقا ﷺ نے ان سے ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ ایک بار حضرت امیر معاویہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ آباؤ اجداد، چچاو پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں۔(العقد الفرید، 5/344)

رسول اللہ ﷺ کے احترام کے پیش نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔(بخاری 2/384، حدیث:3712)

حضرت عبد اللہ بن مسعود کی اہلِ بیت سے محبت: حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: آل رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ (الشرف الموبد، ص 92)

نیز آپ فرمایا کرتے تھے اہل مدینہ میں فیصلوں اور وراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی ہے۔(تاریخ الخلفاء،ص135)

حضرت ابو ہریرہ کی اہلِ بیت سے محبت: حضرت سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں:میں جب بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فرط محبت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔(مسند امام احمد،3/632)

خصوصی کپڑے دیئے: ایک موقع پر سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرات صحابہ ٔ کرام کے بیٹوں کو کپڑےعطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی شان کے لائق ہوتو آپ نے ان کے لیے یمن سے خصوصی لباس منگواکر پہنایا۔اور فرمایا: اب میرا دل خوش ہوا ہے۔ (ریاض النضرۃ، 1/341)

حضرت سیدناعمر نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضرات حسنین کریمین کے لیے رسول اللہ ﷺ کی قرابت داری کی وجہ سے ان کے والد حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے برابر حصہ مقرر کیا۔ دونوں کے لیے پانچ پانچ ہزار درہم وظیفہ رکھا۔(سیر اعلام النبلاء، 3/259)


محبت رسول اللہ ﷺجو کہ اصل ایمان بلکہ ایمان کی بھی جان ہے۔اس کی چند نشانیاں ہیں جن کو دیکھ کر اس بات کی پہچان ہوتی ہے کہ واقعی اس کے دل میں محبت رسول کا چراغ روشن ہے ان نشانیوں میں سب سے اہم نشانی یہ ہے کہ حضورﷺ سے نسبت و تعلق رکھنے والی ہر چیز اور تمام لوگوں کا ادب و احترام اور محبت کی جائے جیسا کہ اہلِ بیت اطہار۔ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کو حضور اکرمﷺ سے خاندانی نسبت حاصل ہے اہلِ بیت کی شان و عظمت بہت ہی بلند و بالا ہے ان کے فضائل و کمالات بے شمار ہیں۔ اہلِ بیت کی محبت کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا ہے۔ تفسیر خزائن العرفان میں ہے: حضورﷺ کی محبت اور آپ کے اقارب کی محبت دین کے فرائض میں سے ہے۔( خزائن العرفان، پ25)

اہلِ بیت سے کون لوگ مراد ہیں: پارہ22 سورۃ الاحزاب آیت 33 میں ارشاد ہوتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سوانح کربلا میں اہلِ بیت کے مصداق کے بارے میں مفسرین کے اقوال اور احادیث نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: خلاصہ یہ ہے کہ دولت سرائے اقدس کے سکونت رکھنے والے اس آیت میں داخل ہیں یعنی ازواج مطہرات کیونکہ وہی اس کے مخاطب ہیں اور چونکہ اہلِ بیت نسب کا مراد ہونا مخفی تھا اس لیے سرور عالمﷺ نے اپنے اس فعل مبارک (جس میں پنجتن پاک کو چادر میں لے کر ان کے لیے دعا فرمائی ) اسے بیان فرما دیا کہ مراد اہلِ بیت سے عام ہیں۔ خواہ بہت مسکن کے اہل ہوں جیسے کہ ازواج مطہرات یا بیت نسب کے اہل جیسے کہ بنی ہاشم ومطلب۔( سوانح کربلا، ص82)

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

جس طرح والدین، اولاد اور دیگر رشتہ داروں کے ہم پر حقوق ہیں اسی طرح اہلِ بیت کے بھی حقوق ہیں جو دیگر حقوق سے فوقیت رکھتے ہیں ان کا پورا کرنا لازم ہے جن میں سے یہاں 5 حقوق ذکر کیے گئے ہیں۔

اہلِ بیت سے محبت: اہلِ بیت کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے قرآن و حدیث میں اہلِ بیت کی محبت کا حکم موجود ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔

امام محمد بن قرطبی رحمۃ اللہ علیہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ قرابت والوں سے مراد حضورسید عالم ﷺ کی آل پاک ہے۔ (قرطبی)

حدیث مبارکہ میں حضورﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوت قرآن۔(جامع صغیر، ص25، حدیث:311)

مزید فرمایا: ہمارے اہلِ بیت کی محبت کو لازم پکڑ لو! کیونکہ جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے وہ اللہ پاک اسے میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا۔(معجم اوسط، 1/606، حدیث: 243)

حضرت علامہ عبد الروؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصہ اور نمایاں فخر نہ پایا ہو۔(فیض القدیر، 1/256)

حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب امت کے ان پیشواوؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مومن کو لائق نہیں کہ ان کے پیچھے رہے۔(الشرف المؤبد، ص94)

ادب و احترام کیا جائے: اہلِ بیت کا ایک حق یہ ہے کہ ان کا ادب و احترام کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جس نے ان کی حفاظت کی اللہ پاک اس کی اس کے دین و دنیا کے معاملے میں حفاظت فرمائے گا:(1)اسلام کی عزت و احترام(2)میری عزت و احترام(3)میرے رشتے و قرابت داروں کی عزت و احترام۔(معجم کبیر، 3/126حدیث:2881)

اے عاشقان رسول! صحابۂ کرام جو خود بھی بڑی عظمت و شان کے مالک تھے وہ عظیم الشان اہلِ بیت اطہار سے کیسی محبت رکھتے تھے اور اپنے قول و عمل سے اس کا کس طرح اظہار کرتے تھے آئیے! اس کے بارے میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ادب و احترام ملاحظہ کرتے ہیں۔اللہ پاک کے پیارے نبی ﷺ کے چچا جان حضرت عباس رضی اللہ عنہ (جو کہ اہلِ بیت میں سے تھے اس لیے وہ) بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بطور احترام آپ کے لیے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔(معجم کبیر،10/285، حدیث:10675)

تعلیمات پرعمل کیا جائے: اہلِ بیت کا ایک حق یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پر عمل کیا جائے یہ عظیم ہستیاں وہ ہیں جن کی اطاعت نجات کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے: میرے اہلِ بیت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے جو اس میں سوار ہو گیا نجات پا گیا اور جو اس کے پیچھے رہا ہلاک (برباد) ہو گیا۔( مسند امام احمد، 1/ 785، حدیث: 1402)

اس حدیث پاک کی شرح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جیسے طوفان نوح کے وقت ذریعہ نجات صرف کشتی نوح علیہ السلام تھی ایسے ہی تا قیامت ذریعہ نجات صرف محبت اہلِ بیت اور ان کی اطاعت ان کی اتباع ہے۔بغیر اطاعت و اتباع محبت کا دعویٰ بے کار ہے۔(مراٰۃ المناجیح،8/894)

کس زبا ں سے ہو بیاں عز وشان اہلِ بیت مدح گوئے مصطفےٰ ہے مدح خوانِ اہلِ بیت

اپنی خواہشوں پر ان کی رضا کو مقدم کریں: اہلِ بیت کے حقوق میں سے ایک یہ حق ہے کہ ان کی خوشی کو اپنی خوشی پر ترجیح دیں۔جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایا: جو شخص وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہوجس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں اسے چاہیے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور انہیں خوش کرے۔(الشرف المؤبد، ص 54)

صحابہ کا گداہوں اور اہلِ بیت کا خادم یہ سب ہے آپ ہی کی تو عنایت یارسول اللہ

ان کی ضروریات پوری کی جائیں: اہلِ بیت کا ایک حق یہ ہے کہ ان کی ضروریات پوری کی جائیں، انہیں کسی بھی چیز کی کمی نہ ہونے دینی چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ اہلِ بیت اطہار کو نذرانہ پیش کرتے رہیں۔ رسول ﷺ نےارشاد فرمایا:میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں ان میں سے پہلی تو اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ تم اللہ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو۔ دوسرے اہلِ بیت ہیں۔ اور تین مرتبہ ارشاد فرمایا: میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ پاک کی یاد دلاتا ہوں۔(مسلم، ص1008، حدیث6225)

حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا امام حسین کو بیش قیمت نذرانے پیش کرنے کے باوجود آپ ان سے معذرت کرتے اور کہتے: فی الحال آپ کی خدمت صحیح نہیں کر سکا آئندہ مزید نذرانہ پیش کروں گا۔(کشف المحجوب، ص77ماخوذاً)

دین اسلام کے لیے اہلِ بیت کی قربانیوں سے کون آگاہ نہیں ان کا صبر، ہمت، جذبہ اور ثابت قدمی مثالی ہےجس طرح انہوں نے دین اسلام کے لیے قربانیاں پیش کیں ہمیں بھی دین اسلام کے لیے قربانیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے اور ان کا ادب و احترام کرنا چاہیے اور مرتے دم تک ان سے محبت کرنا چاہیے اللہ کریم ہمیں حقیقی طور پر اہلِ بیت کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ خاتم النبیینﷺ


عوام و خواص میں مشہور ہے کہ نبی کریم ﷺ کے چند حقوق ہم مسلمانوں پر فرض ہیں جن کو ادا کیےبغیر کوئی بھی کامل مومن نہیں بن سکتا اسی طرح نبی کریم ﷺ کے اہلِ بیت اور اولادکے بھی مسلمانوں پر حقوق ہیں جن کو ادا کرنا مسلمانوں پر فرض ہے آیات قرآنیہ اور احادیث مبارکہ میں ان حقوق کی صراحت فرمائی گئی ہے اکابر صحابۂ کرام، تابعین اور ائمہ سلف صالحین ان ہی حقوق پر عمل پیرا رہے۔

(1) اہلِ بیت کے حقوق میں سے ایک حق اہلِ بیت سے محبت کرنا ہے اس پر دلالت کرنے والی وہ آیت جس میں اللہ پاک نے اپنے نبی ﷺ سے ارشاد فرمایا: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ (پ25، الشوریٰ: 23) ترجمہ: اے حبیب آپ فرما دیجیے کہ اس (تبلیغ دین) پر میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں کرتا سوائے قرابت کی محبت کے۔حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ اللہ پاک کے اس فرمان اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: مگر رسول اللہ ﷺ کے قریبی رشتہ داروں کی محبت۔ اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اہلِ بیت اطہار کے حقوق میں سے ایک حق اہلِ بیت سے محبت کرنا ہے جو مسلمانوں پر فرض ہے۔

(2) آخری حج میں عرفہ کے دن اپنی (مبارک) اونٹنی قصواء پر خطبہ دیتے ہوئے پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! میں نے تم میں وہ چیز چھوڑی ہے کہ جب تک تم ان کو تھامے رہو گے گمراہ نہ ہو گے۔ اللہ پاک کی کتاب(یعنی قرآن کریم) اور میری عترت یعنی اہلِ بیت۔ (ترمذی، 5/423، حدیث:3811)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر اہلِ بیت کرام کی اطاعت و پیروی کرنا فرض و لازم ہے۔کہ جس طرح قرآن کریم کے احکامات پر عمل پیرا نہ ہو کر مسلمان گمراہی کے کنویں میں گرتے ہیں اسی طرح اہلِ بیت کے حقوق یعنی ان کی پیروی کیے بغیر مسلمان کبھی بھی فلاح و کامرانی نہیں پا سکتے۔ بلکہ ایسی صورت میں گمراہی ہی گمراہی ہے۔

(3) پیارے آقا ﷺ نے ارشادفرمایا: میرے اہلِ بیت میری امت کے لئے امان و سلامتی ہیں۔ (نوادر الاصول، 5/130، حدیث: 1133)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ پیارے آقا ﷺ کی امت کو نبی پاکﷺ کے اہلِ بیت کی محبت، ان کا عشق اور ان کی پیروی لازم و مستلزم ہیں جن کے بغیر کوئی بھی امتی اہلِ بیت کے حقوق ادا نہیں کر پائے گا یہی نبی پاکﷺ کی امت کے لیے دنیا و آخرت میں امان و حفاظت اور سلامتی کا ذریعہ ہے اہلِ بیت کرام کی محبت کے بغیر نبی پاکﷺ کا امتی سلامتی کو نہیں پہنچ سکتا ہے۔

(4) پیارے آقا ﷺ نے ارشادفرمایا:جسے پسند ہو کہ اس کی عمر میں برکت ہو اور اسے اللہ پاک اپنی دی ہوئی نعمت سے فائدہ دے تو اسے لازم ہے کہ میرے بعد میرے اہلِ بیت سے اچھا سلوک کرے جو ایسا نہ کرے اس کی عمر کی برکت اڑ جائے اور قیامت میں میرے سامنے کالا منہ لے کر آئے۔(کنز العمال، 6/46، حدیث:34166)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا اہلِ بیت اطہار سے اچھا سلوک کرنا ان کے ساتھ دل و جان سے اچھا برتاؤ کرنا اور دل میں ان کے احترام کا جذبہ رکھنا مسلمانوں پر نبی پاک ﷺ کے اہلِ بیت کا حق ہے اہلِ بیت سے اچھا سلوک کر کے ہی اللہ پاک مسلمانوں کی عمر میں برکت ڈالتا اور اپنی نعمتوں سے مستفید کرواتا ہے۔

(5)نبی پاک ﷺ نے ارشادفرمایا:تین چیزیں ایسی ہیں جس نے ان کی حفاظت کی اللہ پاک اس کی اس کے دین و دنیا کے معاملے میں حفاظت فرمائے گا اور جس نے ان کو ضائع کیا اللہ پاک اس کی کسی بھی معاملے میں حفاظت نہیں فرمائے گا۔ (1) اسلام کی عزت و احترام (2) میری عزت و احترام(3)میرے رشتہ و قرابت داروں کی عزت و احترام۔ (معجم کبیر، 3/126،حدیث:2881)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اہلِ بیت کرام کی عزت او راحترام کی حفاظت کرنا یعنی ان کی دشمنی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچے رہنا اور ان سے عقیدت و محبت رکھنا اور دوسروں کو اسی بات کا پیغام دینا اور ہمیشہ ان کے متعلق بھلائی سے سوچنا مسلمانوں پر اہلِ بیت کا حق ہے جس کو ادا کیے بغیر کوئی مسلمان دین و دنیا میں حفاظت نہیں پا سکتا۔