بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اہلِ بیت سے حضرت علی، حضرت
فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہُ
عنہم ہی مراد ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ بیت سے مراد پہلے نبیِ پاک ﷺ کی
ازواج ہیں پھر اولاد، پھر داماد۔
قرآن مجید میں اللہ پاک کا فرمان: قرآن
کریم میں اہلِ بیت کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا
الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ-(پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر
تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔
اہلِ بیت کے حقوق:
(1) ایک بار حضرت عمر فاروق رضی
اللہُ عنہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہُ عنہا کے
ہاں گئے تو فرمایا: اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حضورِ اکرم
ﷺ کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے
کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں۔ (مستدرک، 4/139، حدیث: 4789)
(2) ایک موقع پر عمر فاروق رضی
اللہُ عنہ نے حضرات صحابہ کرام کے بیٹوں
کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام
حسین رضی اللہُ
عنہما کی شان کے لائق ہو تو آپ رضی اللہُ عنہ نے ان کے لئے یمن سے خصوصی لباس منگوا کر
پہنائے، پھر فرمایا: اب میرا دل خوش ہوا ہے۔ (ریاض النضرۃ، 1/34)
(3) صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم حضرت عباس رضی
اللہُ عنہ کی تعظیم و توقیر بجالاتے، آپ
کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مشاورت کرتے اور آپ کی رائے کو
ترجیح دیتے تھے۔ (تہذیب الاسماء، 1/244)
(4) حضرت عباس رضی اللہُ عنہ بارگاہِ رسالت میں آتے توحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ بطورِ
احترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ (معجم کبیر، 10/185، حدیث:
10615)
(5) حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت
عمر و عثمان رضی اللہُ
عنہما سواری پر آپ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے تشریف لے
آتے یہاں تک کہ آپ وہاں سے گزر جاتے۔ (الاستیعاب، 2/360)