اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اللہ تعالٰی نے ہمارے درمیان ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ جنہوں نے زندگی کے متعلق ہر شعبے کے حقوق و احکام سے آگاہ فرمایا ۔ فرمان حافظ ملت رحمتہ اللہ علیہ : (دینی) کتاب ہاتھ میں لٹکا کر چلنے کی بجائے جب سینے سے لگائی جائے گی تو سینے میں اترے گی اور جب کتاب کو سینے سے دور رکھا جائے گا تو کتاب بھی سینے سے دور ہوگی ۔ (شان حافظ ملت ، ص: 6)( مکتبہ المدینہ، رسالہ بزرگان دین کے 40 اقوال )

ہمیں کتابوں کا ادب و احترام کرنا چاہیے۔ آئیے کتابوں کے حقوق ملاحظہ فرماتے ہیں۔

(1) وضو کے ساتھ چھونا : امام برھان الدین زرنوجی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : علم کی تعظیم میں سے کتاب کی تعظیم کرنا ہے۔ طالب علم کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ کتاب کو باوضو ہو کر چھوئے ۔ (کتابوں کے عاشق ، ص : 29 )

(2) ادب سے پکارنا : محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد چشتی قادری فرماتے ہیں : قرآن وحدیث اور کتب دینی کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہاں پڑی ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہاں رکھی ہیں ۔ ( بزرگانِ دین کے 40 اقوال ،ص : 35 ، مکتبہ المدینہ)

(3) کتابوں کی طرف پاؤں نہ کرنا : طالب علم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کتابوں کی طرف پاؤں نہ کرے ۔ ( تعلیم المتعلم طريق التعلم مترجم، ص : 33)

(4) زمین پر بکھرا ہوا نہ چھوڑنا : امام بدر دین محمد بن جماعہ فرماتے ہیں ۔ جب کسی کتاب کا مطالعہ کریں یا لکھیں تو اسے زمین پر بکھرا ہوا نہ چھوڑیں بلکہ کسی چیز پر رکھیں ۔ تاکہ ترتیب خراب نہ ہو ۔ زمین پر نہ رکھی جائے کہ کہیں بوسیدہ نہ ہو جائے کتابیں رکھنے میں ادب کا لحاظ رکھیں کہ علوم اور مصنف کے شرف فضیلت کے اعتبار سے ترتیب بنائی جائے۔( کتابوں کے عاشق ، ص : 28)

(5) دوات نہ رکھنا : شیخ الاسلام حضرت سید نا امام برھان الدین علیہ رحمۃ المبین اپنے مشائخ میں کسی بزرگ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے حکایت بیان کرتے تھے کہ ایک فقیہ کی عادت تھی کہ دوات کو کتاب کے اوپر ہی رکھ دیا کرتے تھے۔ شیخ نے انہیں فارسی میں فرمایا : " بر نیابی " : یعنی تم اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ (تعلیم المتعلم طريق التعلم مترجم ، ص : 34 )