ایمان اسے
کہتے ہیں کہ سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریاتِ دین ہیں اور کسی ایک
ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں ، اگرچہ باقی تمام ضروریات کی تصدیق کرتا ہو
قرآن پاک میں مختلف مقامات پر ایمان و کفر کو بیان کیا گیا ہے اور امت کی رہنمائی
کے لیے مختلف امثلہ بھی ذکر کی گئی ہیں
تاکہ عقل والے اس میں غوروفکر کرکے نصیحت حاصل کریں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1) کفر
وجہالت کی مثال: اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا
لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ
لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَاؕ-كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ(۱۲۲)
ترجمہ
کنزالایمان: اور کیا وہ کہ مُردہ تھا تو ہم نے اُسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایک
نور کردیا جس سے لوگوں میں چلتا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو اندھیریوں میں ہے ان
سے نکلنے والا نہیں یونہی کافروں کی آنکھ میں ان کے اعمال بھلے کردئیے گئے ہیں۔
(الانعام: 122)
وضاحت:
اس آیتِ
کریمہ میں کفر اور جہالت کی مثال بیان فرمائی گئی ہے کہ مومن اور کافر کا حال یہ
ہے کہ ہدایت پانے والا مومن اُس مردہ کی طرح ہے جس نے زندگی پائی اور اس کو نور
ملا جس سے وہ مقصود کی طرف راہ پاتا ہے اور کافر اس کی مثل ہے جو طرح طرح کی اندھیریوں
میں گرفتار ہوا اور اُن سے نکل نہ سکے، ہمیشہ حیرت میں ہی مبتلا رہے۔ یہ دونوں
مثالیں ہر مومن و کافر کے لئے عام ہیں ۔(تفسیر صراط الجنان)
(2)
کافر اور مؤمن کی دُنْیَوی مثال اوران کا اُخروی حال: اَفَمَنْ یَّمْشِیْ
مُكِبًّا عَلٰى وَجْهِهٖۤ اَهْدٰۤى اَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰى صِرَاطٍ
مُّسْتَقِیْمٍ ترجمہ کنز الایمان:تو
کیا وہ جو اپنے منہ کے بل اوندھا چلے زیادہ راہ پر ہے یا وہ جو سیدھا چلے سیدھی
راہ پر۔(سورۃ الملک آیت 22)
وضاحت: اس
مثال کا مقصود یہ ہے کہ کافر گمراہی کے میدان میں اس طرح حیران و
سرگرداں جاتا ہے کہ نہ اسے منزل معلوم اور نہ وہ راستہ پہچانے اور مؤمن
آنکھیں کھولے راہِ حق دیکھتا اورپہچانتا چلتا ہے۔یہ تو کافر اور مؤمن کی
دُنْیَوی مثال ہے جبکہ آخرت میں کفار کو واقعی منہ کے بل اٹھایا اور چہروں
کے بل جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔(تفسیر صراط الجنان)
(3)
کافر و مومن برابر نہیں: مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ كَالْاَعْمٰى
وَ الْاَصَمِّ وَ الْبَصِیْرِ وَ السَّمِیْعِؕ-هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًاؕ-اَفَلَا
تَذَكَّرُوْنَ ترجمہ کنزالایمان:
دونوں فریق کا حال ایسا ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا اور دوسرا دیکھتا اور سنتا کیا
ان دونوں کا حال ایک سا ہے تو کیا تم دھیان نہیں کرتے۔(سورۃ الھود آیت 24)
وضاحت: اس
آیت میں دونوں فریقوں یعنی کافر اور مومن کا حال بیان کیا جارہا ہے کہ ان کا حال
ایسا ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا ہو اور دوسرا دیکھنے والا اور سننے والا۔ کافر اس
کی مثل ہے جو نہ دیکھے نہ سنے اور یہ ناقص ہے، جبکہ مومن اس کی مثل ہے جو دیکھتا
بھی ہے اور سنتا بھی ہے اوروہ کامل ہے اور حق و باطل میں امتیاز رکھتا ہے، اس لئے
ہر گز ان دونوں کی حالت برابر نہیں۔(تفسیر صراط الجنان)