محمد ذیشان عطّاری ( درجۂ رابعہ جامعۃُ
المدینہ ٹاؤن شپ لاہور ، پاکستان)
ایمان
اور کفر اسلام کے بنیادی تصورات
ہیں جو انسان کے عقیدہ اور عمل کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایمان اور کفر کی
تفصیلات قرآن و حدیث میں بڑی وضاحت سے آئی ہیں اور یہ دونوں انتہائی اہم موضوعات ہیں جو مسلمان
کی زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ایمان:
ایمان کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی
ہستی، اس کے رسولوں، کتابوں، فرشتوں، یوم آخرت اور تقدیر پر یقین لانا۔ ایمان ایک
داخلی حقیقت ہے جو دل میں جڑ پکڑتی ہے، لیکن اس کے اثرات ظاہری اعمال پر بھی مرتب
ہوتے ہیں۔ ایمان کے ذریعے انسان اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرتا ہے اور اپنی
زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالتا ہے۔
کفر:
کفر کا مطلب ہے اللہ کی ہدایت
سے انکار کرنا اور اس کے دین کو رد کرنا۔
کفر ایک ایسی حالت ہے جس میں انسان اللہ کی ہدایت
کو قبول نہیں کرتا اور اس کے راستے کو چھوڑ دیتا ہے۔ کفر کے مختلف درجات ہیں، اور
قرآن میں کفر کی مختلف علامات اور اس کے انجام کا ذکر آیا ہے۔
آئیے ایمان
اور کفر کے حوالے سے کچھ قرآنی مثالیں اور ان کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں:
اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا
لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ
لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَاؕ-كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ(۱۲۲)
ترجمہ
کنزالایمان: اور کیا وہ کہ مُردہ تھا تو ہم نے اُسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایک
نور کردیا جس سے لوگوں میں چلتا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو اندھیریوں میں ہے ان
سے نکلنے والا نہیں یونہی کافروں کی آنکھ میں ان کے اعمال بھلے کردئیے گئے ہیں۔
(الانعام: 122)
اس آیت میں
مردہ سے کافر اور زندہ سے مومن مراد ہے کیونکہ کفر دلوں کے لئے موت جبکہ ایمان
زندگی ہے اور نور سے ایمان مراد ہے جس کی بدولت آدمی کفر کی تاریکیوں سے نجات پاتا
ہے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نور سے کتابُ اللہ یعنی
قرآن مراد ہے۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۱۰۵)
ایک اور
مقام پر رب العالمین فرماتا ہے: وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُۙ(۱۹) وَ
لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوْرُۙ (۲۰) وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الْحَرُوْرُۚ(۲۱) ترجمہ کنزالایمان: اور برابر نہیں اندھا اور
انکھیارا اور نہ اندھیریاں اور اُجالا اور نہ سایہ اور نہ تیز دھوپ ۔ (فاطر: 19تا
21)
تفسیر صراط
الجنان: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافر اور مومن کی ذات میں فرق بتایا کہ کافر ایسا
ہے جیسے اندھا اور مومن ایسا ہے جیسے دیکھنے والا اوریہ دونوں برابر نہیں ۔ بعض
مفسرین نے اس آیت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جاہل اور عالم برابر نہیں ۔ (جلالین
مع صاوی، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۵ / ۱۶۹۴، مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۹۷۶،
ملتقطاً)
وَ لَا الظُّلُمٰتُ:
اور نہ اندھیرے:اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافر اور مومن کے اوصاف میں فرق بیان
فرمایا کہ کفر ایسے ہیں جیسے اندھیرے اور ایمان ایسا ہے جیسے اجالا،اور یہ دونوں برابر
نہیں ۔( جلالین مع صاوی، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۱۶۹۴،
ملخصاً)
اور رب
تعالیٰ کفر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہے: اَفَمَنْ یَّمْشِیْ
مُكِبًّا عَلٰى وَجْهِهٖۤ اَهْدٰۤى اَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰى صِرَاطٍ
مُّسْتَقِیْمٍ ترجمۂ کنز الایمان:
تو کیا وہ جو اپنے منہ کے بل اوندھا چلے زیادہ راہ پر ہے یا وہ جو سیدھا چلے سیدھی
راہ پر۔ (الملک: 22)
تفسیر صراط الجنان: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے
مؤمن اور کافر کا حال واضح کرنے کے لئے ایک مثال بیان فرمائی ہے،چنانچہ ارشاد
فرمایا کہ اے لوگو! کیا وہ شخص جو اپنے منہ کے بل اوندھا چلے اور نہ آگے دیکھے نہ
پیچھے ،نہ دائیں دیکھے نہ بائیں ،وہ زیادہ راہ پر ہے یا وہ شخص جو راستے کو دیکھتے
ہوئے سیدھی راہ پرسیدھا چلے جو منزلِ مقصود تک پہنچانے والی ہے۔( صاوی، الملک، تحت
الآیۃ: ۲۲، ۱۰ / ۲۲۰۶، تفسیر طبری، الملک، تحت الآیۃ: ۲۲،
۱۲ / ۱۷۱، ملتقطاً)
کافر
اور مؤمن کی دُنْیَوی مثال اوران کا اُخروی حال: اس مثال کا مقصود یہ ہے کہ کافر گمراہی کے میدان میں اس
طرح حیران و سرگرداں جاتا ہے کہ نہ اسے منزل معلوم اور نہ وہ راستہ پہچانے اور
مؤمن آنکھیں کھولے راہِ حق دیکھتا اورپہچانتا چلتا ہے۔یہ تو کافر اور مؤمن کی
دُنْیَوی مثال ہے جبکہ آخرت میں کفار کو واقعی منہ کے بل اٹھایا اور چہروں کے بل
جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔
ایمان اور
کفر دونوں انسان کے دل اور اعمال کی حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایمان اللہ کی رضا
اور ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے، جبکہ کفر اللہ کے راستے سے منحرف کرتا ہے۔ ہم
سب کو ایمان کی حالت میں اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے اور کفر سے بچنا
چاہیے تاکہ ہم اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی حاصل کر سکیں۔
اللہ تعالیٰ
سے ہم ہمیشہ ایمان کی مضبوطی اور کفر سے بچنے کی دعا کرتے ہیں، کیونکہ ایمان کی
حالت انسان کی دنیا اور آخرت کی فلاح کے لیے ضروری ہے۔
اللّهُمَّ ثَبِّتْ
قَلْبِي عَلَىٰ دِينِكَ وَإِيمَانِكَ
ترجمہ: اے اللہ! میرے دل کو اپنے دین اور ایمان
پر ثابت قدم رکھ۔