اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایمان اور کفر کے درمیان واضح فرق بیان کیا ہے اور ان دونوں کی مثالیں دے کر انسان کو حق و باطل کے انجام سے آگاہ کیا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ایمان اور کفر کی بعض نمایاں مثالیں درج ذیل ہیں:

ایمان کی قرآنی مثالیں

(1) روشنی اور اندھیرے کی مثال : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۙ-یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۬ؕ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِیٰٓـٴُـھُمُ الطَّاغُوْتُۙ- یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِؕ

ترجمہ کنزالایمان: اللہ والی ہے مسلمانوں کا انہیں اندھیریوں سے نور کی طرف نکالتا ہے اور کافروں کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں نور سے اندھیریوں کی طرف نکالتے ہیں۔(البقرة: 257)

یہ آیت ایمان کو روشنی اور کفر کو اندھیروں سے تشبیہ دیتی ہے۔ ایمان والا شخص ہدایت کے نور میں زندگی بسر کرتا ہے، جبکہ کافر گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکتا ہے۔

(2) پاکیزہ درخت کی مثال: ایمان کی ایک اور مثال اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کی: اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ(۲۴) ترجمہ کنزالایمان: کیا تم نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں۔ (ابراھیم: 24)

ایمان مضبوط درخت کی طرح ہوتا ہے جو نفع بخش ہوتا ہے، اس کی جڑیں دل میں پیوست ہوتی ہیں، اور اعمال کی شاخیں بلند ہوتی ہیں۔

(3) بارش اور زمین کی مثال: ایمان کو بارش اور اس کے اثرات سے بھی تشبیہ دی گئی ہے: اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِیَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًا ترجمہ کنزالایمان: اس نے آسمان سے پانی اتارا تو نالے اپنے اپنے لائق بہہ نکلے تو پانی کی رَوْ(دھار) اس پر ابھرے ہوئے جھاگ اٹھا لائی۔ (الرعد: 13)

بارش ایمان کی علامت ہے، جو دلوں کو سیراب کرتی ہے، لیکن جس دل میں کفر ہو، وہ اس پانی کو قبول نہیں کرتا۔

کفر کی قرآنی مثالیں

(1) سراب کی مثال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْــٴًـا ترجمہ کنزالایمان: اور جو کافر ہوئے اُن کے کام ایسے ہیں جیسے دھوپ میں چمکتا ریتا کسی جنگل میں کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک جب اُس کے پاس آیا تو اُسے کچھ نہ پایا ۔(النور: 39)

یہ مثال بتاتی ہے کہ کافر دنیا میں جو بھی اعمال کرتا ہے، وہ آخرت میں بے فائدہ ہوں گے۔

(2) چٹان پر مٹی کی مثال: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً اور کافروں کی کہاوت اس کی سی ہے جو پکارے ایسے کو کہ خالی چیخ و پکار کے سوا کچھ نہ سنے۔ (البقرة: 171)

کافر ہدایت کو سنتے ہیں، مگر ان کے دل اسے قبول نہیں کرتے۔

(3) اندھیروں میں شخص کی مثال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌؕ-ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍؕ-اِذَاۤ اَخْرَ جَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَاؕ ترجمہ کنزالایمان: یا جیسے اندھیریاں کسی کُنڈے کے دریا میں اس کے اوپر موج مو ج کے اوپر اَور موج اس کے اوپر بادل اندھیرے ہیں ایک پر ایک جب اپنا ہاتھ نکالے تو سوجھائی دیتا معلوم نہ ہو۔ (النور: 40)

یہ مثال بیان کرتی ہے کہ کافر گمراہی میں اس قدر ڈوبے ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی روشنی دکھائی نہیں دیتی۔