مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺکی محبت ہر مسلمان پر اس کے اعزہ و اقربا
اور جان و مال سے بڑھ کر لازم و ملزوم منجانب شریعت مطہرہ ہےاور یہ فطری بات ہے کہ
انسان جب کسی سے محبت رکھتا ہے تو اس سے متعلقہ (یعنی نسبت رکھنےوالی) ہر شے سے
محبت رکھتا ہے نیز وہ اس کے اقوال و افعال وعادات و اخلاق، اس کے وطن، اس کے مکان،
اس کی آل واصحاب سے الفت و وارفتگی رکھتا ہے اور محبوب سے قریب تر چیز کو خود کے
لیے متبرک جانتا ہے اور اس کا ادب و احترام بجا لاتا ہے۔ چنانچہ اہل بیتِ کرام تو
وہ نفوس ِ قدسیہ ہیں کہ جن کے صبح و شام دو جہا ں کےسلطان ﷺ کی معیت میں بسر ہوتے
تھے۔ ان کا لمحہ لمحہ جانِ عالم کی ذاتِ والا تبار سے فیض حاصل کرتے گزرتا تھا۔ ان
کی تربیت، ان کی حیات سے لے کر وفات کے کہ جملہ امور میں حضور کا دستِ شفقت ان کے
سروں پر اور آپ کی نظرِ عنایت ان کے احوال و افعال کو ملاحظہ فرماتی تھیں۔ تو وہ
حضرات کس درجہ محبت کے حق دار ہوں گے جن کے لیل و نہار حضور ﷺکی زیارت کرتے بسر
ہوتے تھے اور ان کی شان کا تو کیا کہنا کہ جن کے بارے میں اللہ پاک نے قرآن مجید
میں فرمایا: اِنَّمَا
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ
یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا
ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب
ستھرا کردے۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے: یعنی اے میرے حبیب ﷺکے گھر والو!
اللہ پاک تو یہی چاہتا ہے کہ گناہوں کی نجاست سے تم آلودہ نہ ہو۔(مدارک،ص94ملخصاً)
آئیے جانتے ہیں کہ اہل قرابت یعنی (اہل بیت)سے کون کون مراد
ہیں؟ اس میں کئی اقوال ہیں: ایک تو یہ کہ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ وحضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا و حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ آلِ
علی وآل عقیل وآلِ جعفر و آل عباس مراد ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ کے وہ
اقارب مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور وہ مخلصین بنی ہاشم و بنی مطلب ہیں اور
حضور ﷺ کی ازواجِ مطہرات حضور ﷺ کے اہلِ بیت میں داخل ہیں۔(خزائن
العرفان،الشوریٰ:23)
اب جب کہ ہم نے یہ جان لیا کہ اہل بیت عظام میں کون شامل
ہیں تو اب شریعت کی رو سے اس کا حکم دیکھتے ہیں۔
اہلِ بیت سے محبت کا حکم: حضرت امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اللہ پاک نے حضور
ﷺ کے تمام اَہل بیتِ عظام اور ان کی ذُرِّیت (یعنی اولاد) کی محبت فرض فرمادی ہے۔ (المواہب اللدنیہ، 2/527)
چنانچہ حضور ﷺ کے فرامین سے اہل بیت و اطہار کے حقوق واضح
طور پر ثابت ہیں:
اہل بیت و اطہار کے پانچ حقوق:
(1)ان سےمحبت رکھنا: حضور ﷺ نے
فرمایا: میری شفاعت میرے اس امتی کے لیے ہوگی جس نے میرے اہل بیت سے محبت کی۔(
ماہنامہ ضیائے طیبہ کراچی تحفظِ ناموسِ رسالت،ص12)
(2)ا ن کی تعظیم و توقیر کرنا: چنانچہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تم کو اپنے اہل بیت کے
بارے میں اللہ پاک کی قسم دیتا ہوں۔ یہ تین مرتبہ فرمایا(یعنی اہل بیت کی تعظیم و
توقیر کرو)۔ (مسلم،ص1008، حدیث:6220)
(3)ان کی لغزشوں سے در گزر کرنا: حضور ﷺنے ارشا دفرمایا: میرے اہل بیت و انصار میرا ظاہر و
باطن اور میرے اصحاب میری خوشی کا باعث ہیں اور مجھے ان پر اعتماد ہے۔ پس ان کے
مُحسن سے قبول کرو اور ان کے لغزش کرنے والے کو درگزر کرو۔(الطبقات الکبریٰ،2/252)
(4، 5) ان کے دوستوں کو
دوست اور دشمنوں کو دشمن رکھنا: نبی آخر الزمان ﷺنے ارشاد فرمایا: جس
نے علی ( رضی اللہ عنہ) کو دوست رکھا تو علی بھی اس کے دوست ہیں۔ اے خدا !جس نے ان
سے دوستی رکھی تو بھی ان سے دوستی رکھ، جس نے ان سے دشمنی رکھی تو بھی اسے مبغوض
رکھے۔(مسند احمد،1/118- 119)
معزز قارئین! محبت اہل بیت میں آخرت کی کامیابی کا رازہے۔ چنانچہ
رسول اللہ ﷺنے فرمایا: آلِ نبی کی معرفت دوزخ سے نجات اورآلِ نبی سے محبت صراط پر
گزرنے میں آسانی اور آلِ نبی کی ولایت کا اقرار عذابِ الٰہی سے حفاظت
ہے۔(الشفاء،ص425)
ہمارے اسلاف کی گھٹی میں اہل بیت سے محبت کرنا، ان کی تعظیم
میں پیش پیش رہنا، ان کا ذکر ادب و احترام کے ساتھ کرنا، ا ن کی خاطر اپنا سب کچھ قربان
کرنا شامل رہا ہے۔ ان صفات سے عاری قلوب کے لیے خسارہ و محرومی کے سوا کچھ نہیں کہ
جو دونوں جہاں میں امت کے حق میں عافیت، شفقت،عنایت اور اکرام کی بارش فرمانے
والےپیارے محبوب کے جگر گوشوں سے محبت نہ کریں اور ان کا ادب بجا نہ لائیں یقیناً
یہ بد نصیبی ہے اور بروزِ محشر امت کے غمخوار ﷺکے سامنے شرمساری و ندامت مقدر کرنے
والا افسوس ناک امر ہے۔
ہم اللہ پاک سے ایسی آفت سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ اللہ
پاک ہم کو پیارےا ٓقا ﷺ کی پاک نسبتوں کا لحاظ رکھنے والااور حقوق اہل بیت کو کما
حقہ ادا کرنے والا بنادے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین ﷺ