محبت رسول اللہ ﷺجو کہ
اصل ایمان بلکہ ایمان کی بھی جان ہے۔اس کی چند نشانیاں ہیں جن کو دیکھ کر اس بات
کی پہچان ہوتی ہے کہ واقعی اس کے دل میں محبت رسول کا چراغ روشن ہے ان نشانیوں میں
سب سے اہم نشانی یہ ہے کہ حضورﷺ سے نسبت و تعلق رکھنے والی ہر چیز اور تمام لوگوں
کا ادب و احترام اور محبت کی جائے جیسا کہ اہلِ بیت اطہار۔ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں
جن کو حضور اکرمﷺ سے خاندانی نسبت حاصل ہے اہلِ بیت کی شان و عظمت بہت ہی بلند و
بالا ہے ان کے فضائل و کمالات بے شمار ہیں۔ اہلِ بیت کی محبت کے بغیر ایمان کامل
نہیں ہوتا ہے۔ تفسیر خزائن العرفان میں ہے: حضورﷺ کی محبت اور آپ کے اقارب کی محبت
دین کے فرائض میں سے ہے۔( خزائن العرفان، پ25)
اہلِ بیت سے کون لوگ مراد ہیں: پارہ22 سورۃ الاحزاب آیت
33 میں ارشاد ہوتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ
عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)
ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی
کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔
صدر الافاضل مفتی نعیم
الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سوانح کربلا میں اہلِ بیت کے مصداق کے
بارے میں مفسرین کے اقوال اور احادیث نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: خلاصہ یہ ہے کہ
دولت سرائے اقدس کے سکونت رکھنے والے اس آیت میں داخل ہیں یعنی ازواج مطہرات
کیونکہ وہی اس کے مخاطب ہیں اور چونکہ اہلِ بیت نسب کا مراد ہونا مخفی تھا اس لیے
سرور عالمﷺ نے اپنے اس فعل مبارک (جس میں پنجتن پاک کو چادر میں لے کر ان کے لیے
دعا فرمائی ) اسے بیان فرما دیا کہ مراد اہلِ بیت سے عام ہیں۔ خواہ بہت مسکن کے
اہل ہوں جیسے کہ ازواج مطہرات یا بیت نسب کے اہل جیسے کہ بنی ہاشم ومطلب۔( سوانح
کربلا، ص82)
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عین نور تیرا
سب گھرانہ نور کا
جس طرح والدین، اولاد اور
دیگر رشتہ داروں کے ہم پر حقوق ہیں اسی طرح اہلِ بیت کے بھی حقوق ہیں جو دیگر حقوق
سے فوقیت رکھتے ہیں ان کا پورا کرنا لازم ہے جن میں سے یہاں 5 حقوق ذکر کیے گئے
ہیں۔
اہلِ بیت سے محبت: اہلِ بیت کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے قرآن
و حدیث میں اہلِ بیت کی محبت کا حکم موجود ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے: قُلْ لَّاۤ
اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25،
الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا
مگر قرابت کی محبت۔
امام محمد بن قرطبی رحمۃ
اللہ علیہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ
سے مروی ہے کہ قرابت والوں سے مراد حضورسید عالم ﷺ کی آل پاک ہے۔ (قرطبی)
حدیث مبارکہ میں حضورﷺ نے
فرمایا: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور
تلاوت قرآن۔(جامع صغیر، ص25، حدیث:311)
مزید فرمایا: ہمارے اہلِ
بیت کی محبت کو لازم پکڑ لو! کیونکہ جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا کہ وہ ہم سے
محبت کرتا ہے وہ اللہ پاک اسے میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا۔(معجم
اوسط، 1/606، حدیث: 243)
حضرت علامہ عبد الروؤف
مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ
بیت کی محبت سے بڑا حصہ اور نمایاں فخر نہ پایا ہو۔(فیض القدیر، 1/256)
حضرت علامہ یوسف بن
اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب امت کے ان پیشواوؤں کا یہ طریقہ ہے
تو کسی بھی مومن کو لائق نہیں کہ ان کے پیچھے رہے۔(الشرف المؤبد، ص94)
ادب و احترام کیا جائے: اہلِ بیت کا ایک حق یہ ہے کہ ان کا ادب و احترام کیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جس نے ان کی حفاظت کی اللہ پاک اس کی
اس کے دین و دنیا کے معاملے میں حفاظت فرمائے گا:(1)اسلام کی عزت و احترام(2)میری
عزت و احترام(3)میرے رشتے و قرابت داروں کی عزت و احترام۔(معجم کبیر،
3/126حدیث:2881)
اے عاشقان رسول! صحابۂ
کرام جو خود بھی بڑی عظمت و شان کے مالک تھے وہ عظیم الشان اہلِ بیت اطہار سے کیسی
محبت رکھتے تھے اور اپنے قول و عمل سے اس کا کس طرح اظہار کرتے تھے آئیے! اس کے
بارے میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ادب و احترام ملاحظہ کرتے ہیں۔اللہ پاک
کے پیارے نبی ﷺ کے چچا جان حضرت عباس رضی اللہ عنہ (جو کہ اہلِ بیت میں سے تھے اس
لیے وہ) بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بطور
احترام آپ کے لیے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔(معجم کبیر،10/285، حدیث:10675)
تعلیمات پرعمل کیا جائے: اہلِ بیت کا ایک حق یہ
ہے کہ ان کی تعلیمات پر عمل کیا جائے یہ عظیم ہستیاں وہ ہیں جن کی اطاعت نجات کا
ذریعہ ہے۔ جیسا کہ فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے: میرے اہلِ بیت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے
جو اس میں سوار ہو گیا نجات پا گیا اور جو اس کے پیچھے رہا ہلاک (برباد) ہو گیا۔( مسند امام احمد، 1/ 785، حدیث: 1402)
اس حدیث پاک کی شرح میں
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جیسے طوفان نوح کے
وقت ذریعہ نجات صرف کشتی نوح علیہ السلام تھی ایسے ہی تا قیامت ذریعہ نجات صرف
محبت اہلِ بیت اور ان کی اطاعت ان کی اتباع ہے۔بغیر اطاعت و اتباع محبت کا دعویٰ
بے کار ہے۔(مراٰۃ المناجیح،8/894)
کس زبا ں سے ہو بیاں عز وشان اہلِ بیت مدح گوئے مصطفےٰ ہے مدح خوانِ اہلِ
بیت
اپنی خواہشوں پر ان کی رضا کو مقدم کریں: اہلِ بیت کے حقوق میں سے
ایک یہ حق ہے کہ ان کی خوشی کو اپنی خوشی پر ترجیح دیں۔جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
جو شخص وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی
خدمت ہوجس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں اسے چاہیے کہ میرے اہلِ بیت کی
خدمت کرے اور انہیں خوش کرے۔(الشرف المؤبد، ص 54)
صحابہ کا گداہوں اور اہلِ بیت کا خادم یہ
سب ہے آپ ہی کی تو عنایت یارسول اللہ
ان کی ضروریات پوری کی جائیں: اہلِ بیت کا ایک حق یہ
ہے کہ ان کی ضروریات پوری کی جائیں، انہیں کسی بھی چیز کی کمی نہ ہونے دینی چاہیے۔
ہمیں چاہیے کہ اہلِ بیت اطہار کو نذرانہ پیش کرتے رہیں۔ رسول ﷺ نےارشاد فرمایا:میں
تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں ان میں سے پہلی تو اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے جس میں
ہدایت اور نور ہے۔ تم اللہ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو۔ دوسرے اہلِ
بیت ہیں۔ اور تین مرتبہ ارشاد فرمایا: میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ پاک
کی یاد دلاتا ہوں۔(مسلم، ص1008، حدیث6225)
حضرت سیدنا معاویہ رضی
اللہ عنہ حضرت سیدنا امام حسین کو بیش قیمت نذرانے پیش کرنے کے باوجود آپ ان سے
معذرت کرتے اور کہتے: فی الحال آپ کی خدمت صحیح نہیں کر سکا آئندہ مزید نذرانہ پیش
کروں گا۔(کشف المحجوب، ص77ماخوذاً)
دین اسلام کے لیے اہلِ
بیت کی قربانیوں سے کون آگاہ نہیں ان کا صبر، ہمت، جذبہ اور ثابت قدمی مثالی ہےجس
طرح انہوں نے دین اسلام کے لیے قربانیاں پیش کیں ہمیں بھی دین اسلام کے لیے
قربانیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے اور ان کا ادب و احترام کرنا چاہیے اور مرتے دم
تک ان سے محبت کرنا چاہیے اللہ کریم ہمیں حقیقی طور پر اہلِ بیت کے حقوق ادا کرنے
کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ خاتم النبیینﷺ