صحابۂ کرام پیارے آقاﷺ کے ساتھی ہیں۔اہلِ بیت پیارے آقا کی اولاد ہیں۔آپ کی لاڈلی شہزادی حضرت بی بی فاطمہ کی اولاد ہیں حبیب خدا سے ہمیں سچی محبت کا اظہار کرنے کے لیے ہمیں اپنے دل میں اہلِ بیت کی محبت رکھنی چاہیے۔ پیارے آقا کا فرمان شفاعت نشان ہے: جو وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو جس کےسبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں اسے چاہیے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور انہیں خوش کرے۔(الشرف المؤبد، ص 54)

جس طرح اہلِ بیت سے محبت کرنا رسول اکرم سے محبت کرنا ہےایسے ہی اہلِ بیت سے دشمنی گویا سرکارﷺ سے دشمنی ہے۔

اہلِ بیت میں کون کون شامل: اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ ﷺ کے وہ آل و اولاد مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔ان میں سیدنا علی کی اولاد، سیدنا جعفر کی اولاد، سیدنا عقیل کی اولاد، سیدنا عباس کی اولاد، بنو حارث بن عبد المطلب اور نبی اکرمﷺ کی تمام ازواج مطہرات اور بنات طاہرات شامل ہیں۔

(1)اہلِ بیت اطہار کے پانچ حقوق: پیارے آقاﷺ نے فرمایا: تم میں سے پل صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔ (جمع الجوامع، 1/86،حدیث:454)

حضرت علامہ عبد الرؤف فرماتے ہیں یہ فضیلت اس کے لیے ہے جس کے دل میں صحابہ و اہلِ بیت دونوں کی محبت جمع ہوگی اور وہ اسی حالت میں فوت ہوگیا۔یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے پل صراط سے مراد دین اسلام ہو یعنی تم سب سے زیادہ دین پر ثابت قدم، کامل الایمان وہ ہوگا جو صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ پیار کرنے والا ہوگا۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ صحابہ و اہلِ بیت کی محبت ایمان کے کامل ہونے کی دلیل ہے۔ہمیں اپنا ایمان کامل کرنے کے لیے صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ پیار کرنا ہوگا۔

(2) پیارے آقاﷺ نے فرمایا: میں تم میں 2 عظیم (بڑی) چیزیں چھوڑ رہا ہوں ان میں سے پہلی تو اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے جس میں ہدایت اور نور ہے تم اللہ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو۔ دوسرے میرے اہلِ بیت ہیں اور تین مرتبہ فرمایا: میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔ (مسلم، ص1008، حدیث6225)

امام شرف الدین فرماتے ہیں: معنیٰ یہ کہ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کی شان کے حوالے سے اللہ سے ڈراتا ہوں تم سے کہتا ہوں کہ تم اللہ پاک سے ڈرو انہیں تکلیف نہ دو بلکہ ان کی حفاظت کرو۔(شرح الطیبی، 11/196)

(3) اہلِ بیت یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کی محبت و اطاعت ہدایت اور نجات کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے: آگاہ رہو کہ تم میں میرے اہلِ بیت کی مثال جناب نوح کی کشتی کی طرح ہے۔جو اس میں سوار ہوگیا نجات پا گیا جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہو گیا۔ ( مسند امام احمد، 1/ 785 حدیث: 1402)

اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان فرماتے ہیں: جیسے طوفان نوح کے وقت ذریعہ نجات صرف محبت اہلِ بیت اور ان کی اطاعت کی اتباع ہے۔ بغیر اتباع واطاعت دعویٰ محبت بے کار ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ میرے صحابہ تارے ہیں تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے گویا دنیا سمندر ہے اس سفر میں جہاز کی سواری اور تاروں کی رہبری دونوں کی ضرورت ہے۔الحمد للہ! اہلسنت کا بیڑا پار ہے کہ یہ اہلِ بیت اور صحابہ دونوں کے قدم سے وابستہ ہیں۔(مراٰۃ المناجیح، 8/494)

(4) پیارے آقاﷺ نے فرمایا: ہمارے اہلِ بیت کی محبت لازم پکڑ لو کیونکہ جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے تو اللہ پاک اسے میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! کسی بندے کو اس کا عمل اسی صورت میں فائدہ دے گا جب کہ وہ ہمارا (یعنی میرا اور میرے اہلِ بیت ) کا حق پہچانے۔(معجم اوسط، 1/606، حدیث: 243)

(5) نبی کریمﷺ سے منسوب ہر چیز کا ادب و احترام لازم ہے اہلِ بیت کا بھی ادب لازم ہے اور یہ محبت کا بھی تقاضا ہے، کتب میں اسلاف کرام کے کئی واقعات اس مناسبت سے ملتے ہیں چنانچہ حضورﷺ کے چچازاد حضرت عباس نے ایک مرتبہ حضرت زید بن ثابت کے گھوڑے کی رکاب پکڑ لی تو انہوں نے فرمایا: اے رسول اللہ کے چچا کے بیٹے! یہ کیا ہے؟ (یعنی آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ ) حضرت ابن عباس نےکہا ہمیں ایسی تعلیم دی گئی ہے کہ علماء کا ادب کریں اسی پر حضرت زید بن ثابت نے حضرت ابن عباس کے ہاتھ پر بوسہ دیا اور فرمایا کہ ہمیں بھی حکم ہے کہ ہم اپنے نبی کے اہلِ بیت اطہار کے ساتھ ایسا ہی کریں۔ (تاریخ ابن عساکر19)

اہلِ بیت سے محبت کا درس: حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: آل رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ (الشرف الموبد، ص 92)

دین اسلام کے لیے اہلِ بیت کی قربانیوں سے کون آگاہ نہیں ان کا صبر، ہمت، جذبہ اور ثابت قدمی مثالی ہے یہ وہ ہیں جن کا خاندان دین اسلام کی سربلندی کےلیے شہید ہوا جنہوں نے کتنی بھوک اورپیاس برداشت کی۔ مشقتیں جھیلیں جس طرح ہر موقع پر صبر سے کام لیا اہلِ بیت سے محبت کرنے والوں کو بھی مشکلات پر واویلا کرنے کی بجائے صبر و ہمت سے کام لینا چاہیے۔