اللہ پاک نے مخلوق کو پیدا کیا ،ان میں بعض کو بعض پر فضلیت ‏بخشی ۔ خاص انسانوں کو عام انسانوں پر ۔اسی طرح بعض خاندانوں ‏کو بعض خاندانوں پر لیکن اگر تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھ لیاجائے ‏تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جو فضلیت خاندانِ اہلِ بیت کو ہوئی ہے وہ ‏آج تک کسی کو بھی نہیں ہوئی ہے ،تاریخ کے کسی بھی پہلو سے ‏دیکھیں تو اہلِ بیت اطہار سب خوبیوں میں نمایاں اور ممتاز ہیں ‏۔آئیے آج شان ِاہلِ بیت پڑھتے ہیں ۔

اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں اہلِ بیت کی شان بیان کرتے ہوئے ‏ارشاد فرماتا ہے :‏ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( پ 22 ، الاحزاب : 33)

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہل بیت

‏( ذوق نعت ص100) ‏

اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔ مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :‏

اہلِ سنّت کا ہے بیڑا پار اصحابِ حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عِترت رسولُ اللہ کی

‏(حدائق بخشش ص153)‏

ایک انسان کے دوسرے انسان پر مختلف حقوق ہوتے ہیں ‏،ہر ایک کے مقام و مرتبے کے اعتبار سے حقوق مختلف ہوتے ہیں ‏جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے ، والدین کے حقوق الگ ہوتے ہیں ‏تو میاں بیوی کے آپس میں حقوق الگ ہوتے ہیں ، حضور جان ِ ‏عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بھی حقوق ہیں ۔اسی طرح اہلِ بیت کے بھی حقوق ‏ہیں جن کا معلوم ہونا ، ان کو ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ حضرت ‏علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ‏فرمایا: جس نے میرے گھر والوں ، انصار اور عرب کے حقوق نہ ‏جانے تو وہ ان تین میں سے ایک ہوگا: ‏(1)منافق(2)زنا کی پیداروار ہوگی (3)یا اس کا غیر ۔ (شعب الایمان باب فی تعظیم النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، فصل فی الصلاۃ علیہ ،2/ ‏‏232)‏

اہلِ بیت کے حقوق :‏‏(1،2،3)احسان، شفقت، رعایت:‏ حضرت زید بن ارقم سے بالاسناد مروی ہے کہ رسولُ اللہ ‏صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں تم کو اپنی اہلِ بیت کے بارے میں اللہ کی ‏قسم دیتا ہوں ۔ یہ تین مرتبہ فرمایا( یعنی اہلِ بیت کی تعظیم و توقیر ‏کرو )‏۔(شفاء شریف، 2/ 47)‏

اس حدیث میں تین حقوق بیان کئے گئے ہیں: میں تم سے اللہ ‏پاک کا اہلِ بیت کے حق کے بارے میں ان پر احسان کرنے کا ‏سوال کرتا ہوں، ان پر شفقت کرنے کا ، یا میں تم سے اللہ پاک ‏کی قسم لیتا ہوں کہ تم میرے اہلِ بیت کی رعایت کرو۔(شرح شفا، ‏2/82)‏

‏ (4)درود اہلِ بیت :‏دیلمی نے ایک حدیث روایت کی کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ‏فرمایا: دعا رکی رہتی ہے جب تک کہ مجھ پر اور میرے اہلِ بیت ‏پر درود نہ پڑھا جائے ۔( سوانح کربلا، ص83)‏‏(5،6) اہلِ بیت سے محبت، ان کو ایذا نہ دینے کا :‏ اللہ پاک قراٰن میں ارشاد فرماتا ہے :ترجَمۂ کنزُالایمان:‏ یہ ہے وہ جس کی خوش خبری دیتا ہے اللہ اپنے بندوں کو جو ‏ایمان لائے اور اچھے کام کیے تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ ‏اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت ۔(پ25،الشوریٰ:23)

‏"مگر قرابت کی محبت " کے تحت مفتی نعیم الدین مراد آبادی ‏علیہ رحمۃ اللہ الہادی خزائن العرفان میں فرماتے ہیں :‏ تم پر لازم ہے کیونکہ مسلمانوں کے درمیان مودّت ، محبّت واجب ‏ہے جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا: وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ ۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ مسلمان مثل ایک عمارت ‏کے ہیں جس کا ہر ایک حِصّہ دوسرے حصّہ کو قوّت اور مدد پہنچاتا ‏ہے ، جب مسلمانوں میں باہم ایک دوسرے کے ساتھ محبّت ‏واجب ہوئی تو سیدِ عالَمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ کس قدر ‏محبّت فرض ہوگی ، معنی یہ ہیں کہ میں ہدایت و ارشاد پر کچھ ‏اجرت نہیں چاہتا لیکن قرابت کے حقوق تو تم پر واجب ہیں ، ان کا ‏لحاظ کرو اور میرے قرابت والے تمہارے بھی قرابتی ہیں ، انہیں ‏ایذا نہ دو ۔ حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ قرابت والوں ‏سے مراد حضور سیدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آلِ پاک ہے ۔ ‏

ہمیں چاہئے کہ اہلِ بیت سے خوب محبت کریں ، ان کے حقوق ادا ‏کریں ، دوسروں تک ان کے حقوق کا علم پہنچائیں ،حقوق کو ادا ‏کرنے کی ترغیب دلائیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان باتوں ‏پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( پ 22 ، الاحزاب : 33)

اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

مذکورہ آیت کریمہ سے اہلِ بیت اطہار کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور چونکہ ان تمام نفوسِ قدسیہ کا تعلّق سرکارِ دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ہے اسی وجہ سے ہم پر بھی ان کے حقوق ہیں جن کو ادا کرنا بہت ضروری ہے۔

(1) اہلِ بیت اطہار سے مَحَبَّت: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی بندہ مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میرے گھر والے اسے اپنے گھر والوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائیں۔(شعب الایمان،حدیث:1505، دار الکتب العلمیہ)(2)اہلِ بیت اطہار سے اچھا سلوک: نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان بَرَکت نشان ہے: جسے پسند ہو کہ اس کی عُمْر میں بَرَکت ہو اور اللہ پاک اسے دی ہوئی نعمتوں سے نَفْعَ دے تو اسے چاہیے کہ میرے اہلِ بیت سے اچھا سلوک کرے.(کنز العمّال، حدیث:34166، مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ)

(3)اہلِ بیت کے ساتھ نیکی کرنا: پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جو شخص اولادِ عبد المطلب میں سے کسی کے ساتھ نیکی کرے، جب وہ بروزِ قیامت مجھ سے ملے گا تو میں اس کا صلہ دوں گا۔ (جامع صغیر، حدیث:8822، مطبوعہ:دار الکتب العلمیہ)(4)اہلِ بیت اطہار پر درود پڑھنا: اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مجھ پر نامکمل درود نہ پڑھا کرو ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا: یَا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! نامکمل درود کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ کہ تم اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ تک پڑھ کر رُک جاؤ۔پھر ارشاد فرمایا: اس کے بجائے یوں پڑھا کرو: اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَ عَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ(یعنی میری اٰلِ پاک پر بھی درود بھیجا کرو) (الصواعق المحرقہ، ص 183،مطبوعہ: مکتبۃ العصریہ)

(5)اہلِ بیت اطہار کی معرِفت: علامہ قاضی عیاض رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: آلِ محمد کی معرفت دوزخ سے نَجات، ان سے مَحَبَّت پُلِ صراط پر آسانی اور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا عذابِ الٰہی سے امان ہے۔(الشفا بتعریف حقوق المصطفی، 2/41،مطبوعہ: دار الغد الجدید)

اُن کے گھر بے اجازت جبرآئیل آتے نہیں قَدْر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہل بیت


اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

جس طرح اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق مؤمنین پر ادا کرنا فرض ہیں اسی طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اہلِ بیت کے بھی کچھ حقوق مسلمانوں پر لازم ہیں۔ کیونکہ یہ وہ کشتی نوح ہیں جن پر سوار ہو کر ہم گمراہیت کے سمندر کو پار کرنے میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، انہیں حقوقِ اہلِ بیت اطہار میں سے 5 حقوق مندرجہ ذیل ہیں : (1)محبت کرنا: پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ہم اہلِ بیت کی محبت کو خود پر لازم کرو کیونکہ جو ( بروز قیامت) اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ ہم سے محبت رکھتا ہو، تو وہ ہماری شفاعت کے سبب جنت میں داخل ہو گا۔ ( معجم الاوسط،1/606، حدیث:2230)

(2)فرمانبرداری کرنا : فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اے لوگوں! میں نے تم میں وہ چیز چھوڑی ہے کہ جب تک تم ان کو تھامے رہو گے گمراہ نہ ہوگے، اللہ کی کتاب اور میری عترت یعنی اہلِ بیت۔(مشکوٰة المصابیح ،ج2، حدیث:6152) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: قراٰن پکڑنے سے مراد ہے اس پر عمل کرنا ، عترت کو پکڑنے سے مراد ہے ان کا احترام کرنا ان کی روایات پر اعتماد کرنا ان کے فرمانوں پر عمل کرنا۔(مراة المناجیح،8/ 397)

(3) اچھا سلوک کرنا: ایک مقام پر ارشاد فرمایا: جس نے میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو میں قیامت کے دن اسے اس کا صلہ دوں گا۔ (الکامل لابن عدی ، 6 / 425) (4)بے ادبی سے بچنا : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں تم کو اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ سے ڈراتا ہوں۔(مشکوٰة المصابیح، کتاب المناقب، حدیث:6140) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: یعنی ان کی نافرمانی اور بے ادبی بھول کر بھی نہ کرنا ورنہ دین کھو بیٹھو گے۔(مراة المناجیح، 8/389)

(5)درود و سلام بھیجنا: حضرت کعب بن عجرة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا کہ: ہم آپ پر اور آپ کے اہلِ بیت پر کس طرح درود بھیجا کریں ؟ اللہ پاک نے سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں خود ہی سکھا دیا ہے ۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ۔ (صحیح بخاری، کتاب انبیا ٕ علیھم السلام، حدیث:3370) یعنی جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود پڑھا جائے تو اہل بیتِ اطہار پر بھی پڑھا جائے کہ یہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا بھی عمل ہے۔

الغرض اہلِ بیت اطہار میں سب کا خوب خوب دل و جان سے ادب و احترام، محبت، پیروی، فرمانبرداری، ناموس پر پہرا، ذکرِ خیر، اور ایصالِ ثواب کرتے رہنا چاہیے تا کہ ہمارا ظاہر و باطن سنور جائے اور ہماری نسلیں بھی اہل بیتِ اطہار کے عاشق ہوں۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ اہلِ بیت کی آڑ میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کی گستاخیاں نہ کی جائیں۔ کیونکہ دونوں میں سے کسی ایک کو چھوڑ کر ہمارا گزارہ نہیں کہ اہلِ بیت اطہار کشتی نوح ہے اور صحابہ کرام ستارے ہیں اور ان دونوں کی مدد سے ہم نے سمندر پار کرنا ہے۔ اسی لئے کوئی کچھ بھی کہے ہم نے بس صحابہ کرام اور اہلِ بیت عظام کا دامن اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا۔ ایسا نہ ہو کہ کل بروزِ قیامت دونوں حضرات کی طرف سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے اور اپنا بیڑا دنیا اور آخرت دونوں میں غرق ہو جائے۔

اہلِ سنّت کا ہے بیڑا پار اَصحابِ حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسولُ اللہ کی

اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت اطہار اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا پکّا شچا عاشق بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دین اسلام میں اہلِ بیت کرام کو بہت اعلی مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔اور کیوں حاصل نا ہو کہ جس مصطفیٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں ایمان ملا جس مصطفی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں کائنات کو وجود ہوا ۔جس مصطفی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں ہمیں اللہ کی وحدانیت کا پتا چلا ۔اس مصطفی کریم کے اہل کو اسی کے دین میں مقام و مرتبہ نا ملے ۔یہ تو نا ممکن بات ہے ۔اہل بیت کرام (علیھم الرضوان) کی محبت کامل ایمان کی نشانی ہے ۔اہلِ بیت کی محبت جنت میں لے جانا اور جہنم سے بچانے کا سبب ہے ۔اہل بیت کی محبت اللہ و رسول کی محبت پانے کا ذریعہ ہے ۔الغرض اہل بیت کی محبت دنیا و آخرت کی بے شمار بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔یہاں تک کہ اہلِ بیت کی محبت شفاعت مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حاصل ہونے کا ذریعہ ہے ۔جیسا کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جو شخص وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو ، جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں، اسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور انہیں خوش کرے ۔(برکاتِ آل رسول ، ص 110)

اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

حقوق: نُور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَروَر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرْشاد فرمایا: جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچّھا سُلوک کرے گا،میں روزِ قِیامت اِس کا صِلہ(بَدْلَہ) اُسے عطا فرماؤں گا۔(جامع صغیر، ص533، حدیث:8821)ایک اور مَقام پر اِرْشاد فرمایا: جو شخص اَوْلادِ عَبْدُ الْمُطَّلِب میں سے کسی کے ساتھ دُنیا میں نیکی(بھلائی)کرے اُس کا صِلہ(بَدْلَہ) دینا مجھ پر لازِم ہے جب وہ روزِ قِیامت مجھ سے مِلے گا۔(تاریخ بغداد،10/ 102،حدیث:5221)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے بنو عبدالمطلب! بے شک میں نے تمہارے لئے اللہ پاک سے دس چیزیں مانگی ہیں، پہلی یہ کہ وہ تمہارے قیام کرنے والے کو ثابت قدم رکھے اور دوسری یہ کہ وہ تمہارے گمراہ کو ہدایت دے اور تیسری یہ کہ وہ تمہارے جاہل کو علم عطاء کرے اور میں نے تمہارے لئے اللہ پاک سے یہ بھی مانگا ہے کہ وہ تمہیں سخی، بہادر اور دوسروں پر رحم کرنے والا بنائے، پس اگر کوئی رکن اور مقام کے درمیان کھڑا ہوجائے اور نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور پھر (موت کے بعد) اللہ سے ملے، اس حال میں کہ وہ اہلِ بیت سے بغض رکھنے والا ہو تو وہ جہنم میں داخل ہو گا۔(المعجم الکبیر،11/176،حدیث:11412، دار إحياء التراث العربی)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! اہلِ بیت کی محبت کے دنیاوی و دینی بے شمار فضائل ہیں کیونکہ انکی دو جہاں کے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت ہے ۔اور اہلِ بیت کرام کے فضائل کون بندہ کیسے کماحقہ بیان کر سکتا ہے کہ جن کے فضائل و اہمیت خود قراٰن نے بیان کی ہے ۔اور بلامبالغہ کثیر احادیث میں اہلِ بیت کرام سے محبت کرنے اور ان سے بغض رکھنے پر وعیدیں بیان کی گئیں ہیں ۔اللہ کریم ہمیں اور ہمارے اہل و عیال کو بھی اہلِ بیت کرام سے محبت کرنے ان کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مسلمانوں کے دلوں میں جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت دینِ اسلام کے لئے ضروری ہے، وہیں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھرانے اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت و عقیدت بھی دین اسلام کا حصہ ہے۔ آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہاں اپنے اصحاب کے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤگے وہیں اپنے آل عیال کے لئے بھی فرمایا: میرے اہل ِ بیت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے ،جو اس میں سوار ہوا ،وہ نجات پا گیا اور جو پیچھے رہا وہ ہلاک ہو گیا ۔

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اہل و عیال تو وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کی فضیلت و تطہیر کی گواہی تو خود ربِّ کعبہ اپنے پاک کلام مجید میں کرتا ہے چنانچہ اللہ پاک ارشا د فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( پ 22 ، الاحزاب : 33)

اولاً اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ اہلِ بیت سے کون سے افراد مراد ہیں ۔

مذکورہ آیت میں اہلِ بیت سے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ازواجِ مُطَہَّرات سب سے پہلے مراد ہیں کیونکہ آگے پیچھے سارا کلام ہی اُن کے متعلق ہو رہا ہے۔ بقیہ نُفوسِ قُدسیہ یعنی خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا، حضرت علی المرتضیٰ اور حسنین کریمَین کا اہلِ بیت میں داخل ہونا بھی دلائل سے ثابت ہے۔

اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

اہلِ بیت اطہار علیھم الرضوان کے 5 حقوق: (1)ازواج مطہرات سے پردے کا حکم : اَزواجِ مُطَہَّرات رضی اللہُ عنہنَّ امت کی مائیں ہیں اور ان کے بارے میں کوئی شخص اپنے دل میں بُرا خیال لانے کا تَصَوُّر تک نہیں کر سکتا، اس کے باوجود مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ ان سے کوئی چیز مانگنی ہے تو پردے کے پیچھے سے مانگو تاکہ کسی کے دل میں کوئی شیطانی خیال پیدا نہ ہو۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْــٴَـلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب تم اُن سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو۔(پ22، الاحزاب : 53)

(2)اہل بیت سے محبت کا حکم: اہلِ بیت اطہار کی محبت کا اہل ایمان کے لئے لازم ہونا کتاب وسنت سے ثابت ہے ۔ عَنِ ابْنٍ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْه قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: { قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ } [الشورى: 23] قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، وَمَنْ قَرَابَتُكَ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: «عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا»

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا:يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَوَلَدَاهَا.یعنی آپ کی قرابت والے وہ کون لوگ ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: علی، فاطمہ، اور اس کے دونوں بیٹے (حسن اور حسین)۔ (المعجم الكبير)

ایک اور حدیث میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: أَحِبُّوا اﷲَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِہ۔ وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اﷲ۔وَأَحِبُّوْا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي یعنی اللہ سے محبت کرو اِس وجہ سے کہ اُس نے تمہیں بے شمار نعمتوں سے مالا مال کیا، اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کی وجہ سے، اور میرے اہلِ بیت سے محبت کرو میری محبت کی وجہ سے۔(جامع ترمذی، ابواب المناقب، 5/ 664، حدیث: 3789)

سیّدوں کی محبتشفاعتِ مُصْطَفٰے حاصل ہونے کا بھی ذریعہ ہےجیساکہ مُصْطَفٰے جانِ رحمت، شمعِ بزمِ ہدایت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ شفاعت نشان ہے : جو شخص وَسِیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو، جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں، اُسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور اُنہیں خُوش کرے۔ ( برکاتِ آل رسول، ص 110)

(3)اہلِ بیت اطہار کا ادب و احترام کرنا: کیونکہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ چنانچہ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے، آپ کے لئے کھڑے ہو جاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے۔(تہذیب الاسماء،1/244، تاریخ ابنِ عساکر،26/372)

ایک موقع پر حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدْرت میں میری جان ہے! رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَرابَت داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا مجھے اپنے قَرابَت داروں سے صِلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔ (بخاری،2/438،حدیث:3712)

(4)اہلِ بیت اطہار کی اطاعت کرنا: عربی کا مقولہ ہے:ان المحب لمن یحب مطیع(بلاشبہ محبت کرنے والا جس سے اسکی محبت ہوتی ہے اسکی اطاعت کرتا ہے)۔ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى أَيُّهَا النَّاسُ اِسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى۔ ترجمہ: میں تمہارے درمیان میں دو امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگےکتاب خدا اور میری عترت جو اہلِ بیت اور میرے خاندان والے ہیں۔ اے لوگو! سنو، میں نے تمہیں یہ پیغام پہنچا دیا کہ تمہیں حوض کے کنارے میرے سامنے لایا جائے گا؛ چنانچہ میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے ان دو امانتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؛ یعنی کتاب خدا اور میرے اہلِ بیت۔( مسند احمد، 5/ 181)

(5)اہلِ بیت اطہار کے خلاف کسی بات کو گوارا نہ کرنا: وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «حُبُّكَ الشَّيْءَ يُعْمِي وَيُصِمُّ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد ترجمہ: ابودرداء رضی اللہ عنہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی چیز سے تیری محبت اندھا اور بہرہ بنا دیتی ہے ۔

اہل بیت اطہار سے محبت کا تقاضہ اور حق یہی ہے کہ ان کے خلا ف بات کرنے والوں کی بات کو نہ سنا جائے۔


اللہ پاک پارہ 22 سورہ احزاب آیت 33 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( پ 22 ، الاحزاب : 33)

اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیات تطہیر سے ظاہر ہے شان اہلِ بیت

(ذوق نعت ص 100)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! جس طرح والدین کے حقوق بیٹے پر استاد کے حقوق شاگرد پر پیر صاحب کے حقوق مرید پر ہیں اسی طرح اہلِ بیت کے حقوق ہر مسلمان پر ہیں۔

آئیے ہم اسی کے متعلق سماعت کرتے ہیں کہ عاشق اکبر یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق کيا فرماتے ہے چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک موقع پر اہلِ بیت اطہار کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قرابت دار (یعنی رشتہ داروں) کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا اپنے قرابت داروں سے صلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔(بخاری، 2/538، حدیث :3712)

ایک بار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اہلِ بیت کے بارے میں لحاظ رکھو۔(بخارى 2/538، حدیث :3713) مراد یہ ہے کہ ان کے حقوق اور مراتب کا لحاظ کرو۔

فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: میں تم میں دو عظیم (یعنی بڑی) چیز چھوڑ رہا ہوں ان میں سے پہلی تو اللہ پاک کی کتاب (یعنی قراٰنِ کریم) ہے جس میں ہدایت اور نور ہے تم اللہ پاک کی کتاب (یعنی قراٰنِ کریم) پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو دوسرے میرے اہلِ بیت ہیں اور تین مرتبہ ارشاد فرمایا میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ پاک کی یاد دلاتا ہوں۔(مسلم ،ص 1008، حدیث: 6225)

امام شرف الدین حسین بن محمد طیبى رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں معنیٰ یہ ہے کہ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کی شان کے احوال سے اللہ پاک سے ڈراتا ہوں اور تم سے کہتا ہوں کہ تم اللہ پاک سے ڈرو انہیں تکلیف نہ دو بلکہ ان کی حفاظت کرو ۔(شرح الطیبى، 11/296، تحت الحدیث: 6140)

فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی محبت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت (حاصل کرنے) کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت (پانے) کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو ۔(ترمذى، 5/434، حدیث: 3814)

تم میں سے پل صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔(جمع الجوامع، 1/86، حدیث: 454)

جو شخص اولادِ عبدالمطلب میں کسی کے ساتھ دنیا میں بھلائی کرے اس کا بدلہ دینا مجھ پر لازم ہے جب وہ روزے قیامت مجھ سے ملے گا۔(تاریخ بغداد، 10/102)

ثابت ہے حدیثوں سے قراٰن کی دلیلوں سے اعلیٰ ہے بہت رتبہ زہرا تیرے بچوں کا

اے عاشق صحابہ و اہل بیت خود سے سوال کیجئے اور کہے کى کیا ہم اہلِ بیت سے محبت کرتے ہیں؟ کیا ان کی حقیقی معنوں میں تعظیم کرتے ہیں؟ کیا ان کے حقوق ادا کرتے ہیں؟ اگر نہیں کرتے تو ہم کیسے عاشق صحابہ و اہل بیت ہیں؟ پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! ہمیں چاہیے کہ ان کی تعظیم و حقوق ادا کرے کیونکہ محبت کے قرینوں میں قرینہ یہ بھی ہے کہ جس سے محبت ہو اس کا ادب و احترام کے ساتھ ساتھ اس کے حقوق بھی ادا کیے جائیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے یا اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں عاشقِ صحابہ و اہل بیت بنائے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اہل بیت اطہار علیہم الرضوان کی محبت تمام مسلمانوں پر فرض ہے آیاتِ قراٰنیہ اور احادیثِ مبارکہ میں ان کی محبت و مودت کی ترغیب اور حکم دیا گیا ہے دورِ صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے لیکر آج تک مسلمان اسی پر عمل پیرا ہیں اور کیوں نہ ہو کہ یہ عظیم ہستیاں نبیِّ آخر الزماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت رکھتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا مقام و مرتبہ بہت ہی بلند و بالا ہے۔

اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

قراٰنِ کریم میں اہل بیت کرام کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔ (پ25،الشوریٰ:23) لہذا اہل بیت اطہار علیہم الرضوان کا ادب و احترام تعظیم و توقیر ہم پر فرض ہے۔ ذیل میں اہل بیت کرام کے چند حقوق لکھے جاتے ہیں پڑھیے اور علم میں اضافہ کیجیے۔

(1) محبت : اہلِ بیت کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے، جب بھی ان کا ذکر ہو تو خیر ہی کے ساتھ کریں۔ امام ترمذی اور حاکم حضرت ابنِ عباس رضی الله عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک سے محبت رکھو کیونکہ وہ تمہیں بطور غذا نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کی بنا پر مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی بنا پر میرے اہلِ بیت سے محبت رکھو۔(العقائد والمسائل ، مکتبہ اہلسنت، ص50)اور ایک روایت میں ہے اپنی اولاد کو تین چیزوں کی تعلیم دو :(1)تمہارے نبی کی محبت(2) میرے اہلِ بیت کی محبت اور (1) تلاوتِ قراٰن کی(العقائد والمسائل ، مکتبہ اہلسنت، ص50)

(2)تذکرۂ اہل بیت : حضرت سیدنا سفیان بن عیینہ رحمۃُ اللہ علیہ کا فرمان ہے: عِنْدَ ذِکْرِالصَّالِحِیْنَ تَنْزِلُ الرَّحْمَۃُ یعنی نیک لوگوں کے ذکر کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے اہلِ بیت کے حقوق میں ایک حق یہ بھی ہے کہ اہل بیت اطہار کے مقام و مرتبہ اور جو آیاتِ قراٰنیہ و احادیثِ مبارکہ ان کے بارے میں وارد ہوئی ہے اس کو لوگوں کے سامنے بیان کیا جائے تاکہ لوگوں کے دلوں میں محبت بیٹھے۔

(3) اطاعت : اہل بیت کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کا ہر حکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کریں جس چیز سے منع کریں اس سے رک جائیں۔ (4) اتباع : یعنی اہل بیت کی سیرتِ مبارکہ کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہے رسولِ اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے کہ آگاہ رہو کہ تم میں میرے اہلِ بیت کی مثال جناب نوح کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا ہلاک ہوگیا۔ اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں یعنی جیسے طوفان نوح کے وقت ذریعہ نجات صرف کشتی نوح علیہ السّلام تھی ایسے ہی تا قیامت ذریعہ نجات صرف محبت اہلِ بیت اور ان کی اطاعت ان کی اتباع ہے، بغیر اطاعت و اتباع دعویٰ محبت بے کار ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ میرے صحابہ تارے ہیں تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاجاؤ گے، گویا دنیا سمندر ہے اس سفر میں جہاز کی سواری اور تاروں کی رہبری دونوں کی ضرورت ہے۔(مرأۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد 8 الفصل الثالث، ص 446)

(5) اَعداءِ اہل بیت سے لاتعلقی : اہل بیت کرام کے بغض و عداوت کے بارے میں بہت وعیدیں وارد ہوئی ہے۔ حدیث میں یہاں تک کہ فرمایا گیا کہ جو شخص اہل بیت کے بغض کی حالت میں فوت ہو گیا وہ آگ میں داخل ہوگا۔ (العقائد والمسائل، ص52) لہذا ہمیں چاہیے کہ ایسی مجلس میں بیٹھنے سے پرہیز کریں جس میں دشمن اہل بیت ہو، نہ ان کے ساتھ کھائے نہ پئے ، کسی طرح کا بھی تعلق ان سے نہ ہو ، بلکہ ہمیشہ ایسے لوگوں سے دور رہکر مُحبِّ اہل بیت سے تعلق قائم کرنا چاہیے۔

باغ جنت کے بہر مدح خوان اہل بیت تم کو مژدہ نار کا اے دشمنان اہلیبیت

اللہ پاک ہمیں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ان کے اہل بیت کرام علیہم الرضوان کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کا ایمان پر خاتمہ با الخیر فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے اس جہاں کو پیدا فرمایا اور ہمارے آقا سیّدِ ابرار و اخیار نورِ اعظم اللہ کے محبوب جنابِ احمد مصطفیٰ محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس جہاں پر رحمت بنا کر بھیجا اور ہم مؤمن مسلمان اپنے آقا سے بے انتہاں محبّت و عشق کرتے ہیں اور ساتھ اہلِ بیت اطہار سے بھی بے انتہاں محبّت کرتے ہیں تو آئیے آج ہم اہلِ بیت اطہار کے چار حقوق احادیثِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور قراٰنِ مجید و فرقانِ حمید کے روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں :

حدیث(1) مسلم شریف میں ہے صحابی رسول حضر بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مکۂ معظمّہ اور مدینہ منورہ کے درمیان(مقام جحفہ )میں غریر خم کے پاس کھڑے ہوکر خطبہ فرمایا تو پہلے اللہ پاک کی حمدو ثنا بیان کی پھر آپ نے ہم لوگوں کو وعظ و نصیحت فرمائی بھائی اس کے بعد ارشاد فرمایا: اے ! لوگوں میں انسان ہوں قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا فرشتہ یعنی ملک الموت میرے پاس آ جائے تو میں خدائے پاک کے حکم کو قبول کروں گا اور فرمایا (وَاَنَا تَارِکٌ ف‍ِیْکُمُ الثَّقَلَیْنَ)اور میں تم میں دو نفسیں اور گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ان میں سے پہلی چیز اللہ پاک کی کتاب یعنی قراٰن مجید ہے جس میں ہدایت اور نور ہے تو خدائے پاک کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو اور دوسری چیز میرے گھر والے ۔

راوی حدیث حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قراٰن کے بارے میں لوگوں کو ابھارا اور رغبت دلائی اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا۔ (وَاہل بَیْتِیْ اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰہ فِیْ اہل بَیْتِیْ اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰہ فِیْ اہل بَیْتِیْ) میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ پاک کو یاد دلاتا ہوں اور اس سے ڈراتا ہوں اور اس جملے کو حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دوبارہ فرمایا۔ مطلب یہ کہ میں تاکید کے ساتھ تم لوگوں کو وصیت کرتا ہوں کہ میرے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرو ان کی حقوق کی ادائیگی میں ہرگز کوتاہی نہ کرو۔

حدیث(2) امام احمد روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں کو پکڑ کر فرمایا :جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے اور ان کے والد سے محبت کی تو وہ قیامت کے دن میرے درجے میں ہوگا۔ یعنی حسنین کریمین سے محبت رکھنے والا بصورت خود مختار حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے درجے میں دکھا ئی دے گا یہ مطلب نہیں کہ وہ بھی وہیں ہوگا جو حضور کا مقام ہے۔

اب آئیے ان کے حقوق کی طرف بڑھتے ہیں:۔ان کا یعنی اہلِ بیت اطہار کا پہلا حق ہے کہ ہم ان سے محبت کرے جیسا کہ قراٰن مجید فرقانِ حمید کی سورہ میں: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔(پ25،الشوریٰ:23)

میرے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اپنے اولاد کو تین چیزیں سکھاؤ۔(1) حضور کی محبت سکھاؤ۔(2) میرے اہلِ بیت کی محبت سکھاؤ اور۔(3) اور قراٰن کی محبت سکھاؤ یہ جامع صغیر کی روایت ہے ۔

اہلِ بیت اطہار کا دوسرا حق یہ ہے کہ اپنے دلوں کو ان کے بغض سے پاک رکھا جائے۔

چنانچہ امام حاکم نے بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور روزے بھی رکھے مگر وہ شخص اللہ پاک سے اس حال میں ملے کہ اس کے دل میں حضور کے اہلِ بیت کے لئے بغض ہو تو وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا بلکہ جہنم میں جائے گا ۔

اہلِ بیت اطہار کا تیسرا حق یہ ہے کہ ہم ان کی اتباع کریں ان کی سیرت اور ان کے کردار کو اپنائیں۔

پیارے اسلامی بھائیو ! آج اس دور میں حسینی کردار کو اپنانے کی سخت ضرورت ہے ۔حضور نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا کہ میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ تم اگر اس کو تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ایک اللہ کی کتاب یعنی قراٰن مجید اور دوسرا میرے اہلِ بیت۔

اہلِ بیت اطہار کا چوتھا حق یہ ہے کہ ہم حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ان کی آل پر درود و سلام پڑھیں جیسا کہ سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 میں اللہ پاک نے فرمایا: اے مؤمنوں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھو۔