اللہ کریم نے جس طرح اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا رتبہ
بلند فرمایا ہے ایسے ہی پیارے آقا سے نسبت والی ہر چیز کو اور آپ کے اہل کو بھی اعلیٰ
شان عطا فرمائی ہے۔ اللہ کریم نے خود قرآن کریم میں حضور کے گھر والوں کی مدحت
فرمائی اور حضور نے بھی متعدد احادیث مبارکہ میں ان کی شان و عظمت واضح فرمائی ہے۔
اہل بیت سے مراد کون لوگ ہیں؟ اہل بیت سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور ان میں
پیارے آقاﷺ کی تمام ازواج مطہرات اور ان کی آل اولاد شامل ہیں۔ پیارے آقاﷺ کے اہلِ
بیت کے بہت سے حقوق ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:
1-اہل بیت سے محبت کی جائے یہ انکا تمام مسلمانوں پر حق ہے۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے پل صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو
میرے صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔(جمع الجوامع، حدیث: 454)
2-اہلِ بیت کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ حضورﷺ نے ارشاد
فرمایا: جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی سے اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا
بدلہ اسے عطا کروں گا۔ (تاریخ ابن عساکر، 4/ 303)
3-اپنی اولاد کو ان کی محبت سکھائی جائے۔ حضورﷺ نے فرمایا: اپنی
اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن۔ (جامع
صغیر، ص 25، حدیث: 311)
4-حضورﷺ نے فرمایا: اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں
اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کیلئے مجھ سے محبت کرو اور میری
محبت کیلئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)
5- اہلِ بیت کی تعلیمات کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے کہ حضور
ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے اہلِ بیت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوا
نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہا ہلاک(یعنی برباد) ہو گیا۔ (مستدرک، 3/ 81،
حدیث: 3365)
ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ پیارے آقاﷺ کے اہلِ بیت کے
بہت زیادہ حقوق ہیں جن کو پورا کرنا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے اہلِ بیت کی محبت دل
میں رکھنے والوں کا بیڑا پار ہوگا ان شاءاللہ۔ ہمیں بھی چاہیے کہ حضورﷺ کی آل کی
محبت اپنے دل میں رکھیں اور اپنی آنے والی نسلوں میں بھی منتقل کریں اور تمام
سادات کرام کا ادب و احترام ہمیشہ کرتے رہیں اللہ کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
اہل بیت سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور ان
لوگوں میں آپ ﷺ کی تمام ازواج مطہرات اور ان کی آل اولاد شامل ہیں۔
اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی
دیتا ہے، اور اللہ پاک کی محبت حاصل کرنے کے لیے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت
پانے کے لیے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حديث: 53814)
ان کی پاکی
کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شان اہل بیت
(ذوقِ نعت، ص71)
اہلِ بیت اطہار وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہیں ہمارے پیارے نبی
پاک ﷺ سے خاندانی نسبت بھی حاصل ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ اور اہلِ بیت اطہار کی محبت کے
بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا جیساکہ فرمان مصطفىٰ ﷺ ہے: کوئی بندہ اس وقت تک کامل
مؤمن نہیں ہوتا یہاں تک کہ میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں اور
میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہو۔ (شعب الایمان، 2/ 189، حدیث: 1505)
باغ جنت کے
ہیں بہر مدح خوانِ اہلِ بیت تم کو مژدہ نار کا اے
دشمنان اہل بیت
کس زباں سے
ہو بیان عز و شانِ اہل بیت مدح
گوئے مصطفیٰ ہیں مدح خوانِ اہل بیت
شرح: اہل بیت
اطہار کی شان و عظمت کا اظہار قرآن کریم کی آیتِ تطہیر سے بھی ہوتا ہے جس میں اللہ
پاک نے اہل بیت سے گناہوں کی آلودگی دور کر کے انہیں خوب پاک کرنے کو بیان فرمایا
ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ
عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ
22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ
تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔
صدیق اکبر کی اہل بیت سے محبت: ایک موقع پر حضرت صدیق اکبر رضی للہ عنہ کے سامنے اہل بیت
کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! رسول
پاک ﷺ کے قرابت داروں سے حسن سلوک کرنا مجھے میرے قرابت داروں سے صلہ رحمی کرنے سے
زیادہ محبوب و پسندیده ہے۔(بخاری، 2/438، حدیث: 3712)
ایک بار حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول
اکرم ﷺ کے احترام کے پیش نظر اہل بیت کا احترام کرو۔ (بخاری، 2/438، حدیث: 3713)
نبی مکرمﷺ کی طرف نسبت دنیا و آخرت میں فائدہ مند ہے، آپﷺ
کے ساتھ نسبی تعلق ارباب دانش و بصیرت کے نزدیک اعلیٰ ترین فضائل اور عظیم ترین
قابلِ فخر امور میں سے ہے۔ جہاں دین اسلام میں ہر کسی پر دوسروں کے کچھ حقوق لاگو
ہوتے ہیں محبوبِ خدا کے اہلِ بیت کے بھی امت پر حقوق لازم ہوتے ہیں چند کا تذکرہ
کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہوں:
محبت: اللہ کریم
ارشاد فرماتا ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا
اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز
الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔
امام احمد، طبرانی اور حاکم روایت کرتے ہیں اس آیت کے نزول
پر صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے قریبی رشتہ دار کون ہیں؟ جنکی محبت ہم پر
واجب ہے؟ فرمایا: علی مرتضیٰ، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے۔ (معجم کبیر،11/351، حدیث:
12259)
اسی طرح حضورﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی
تعلیم دو:1) اپنے نبی کی محبت۔2) نبی کے اہلِ بیت کی محبت۔3) قرآن پاک کی تلاوت۔ (جامع
صغیر، ص25، حدیث: 311)
حضور ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ گفتگو کرتے
ہیں تو جب وہ میرے اہلِ بیت میں سے کسی کو دیکھتے ہیں تو اپنی گفتگو ختم کر دیتے
ہیں اللہ کی قسم! کسی آدمی کے دل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ ان سے
اللہ کیلئے اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ رکھے۔ (ابن ماجہ، 1/141)
مراتب کا خیال رکھنا: حضور کے اہل
بیت کی محبت میں اتنا حد سے نہ بڑھے کہ ان کے مراتب کا لحاظ نہ رکھے، جیسا کہ
روافض حضرت علی کو شیخین کریمین سے بھی بلند مرتبہ جانتے ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا:
جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہُ عنہما سے افضل کہے تو میں اس کو مفتری کی(یعنی
بہتان لگانے والے کو دی جانے والی سزا) دوں گا۔(تاریخِ ابنِ عساکر،30/383)
بغض و عداوت سے باز رہنا:اپنے دین کی فکر رکھنے والے مسلمان کو اہل بیت کے کسی بھی
فرد کی دشمنی رکھنے سے بچنا چاہیے کہ یہ اس کی دنیا و آخرت کیلئے نقصان دہ ہو گی۔ حضورﷺ
نے حضرت علی حضرت فاطمہ اور حضرت حسن اور حضرت حسین سے فرمایا: میں اس سے صلح کروں
گا جس سے تم صلح کرو گے اور اس سے جنگ کروں گا جس سے تم جنگ کرو گے۔ (ابنِ ماجہ، 1/145)
ادب و احترام:حضورﷺکے اہل
بیت کی شان میں ہر قسم کی ادنیٰ سے ادنیٰ بے ادبی و گستاخی سے ہمیشہ بچے، اور بے
ادبوں کی صحبت سے بھی کوسوں دور رہے۔
ایذاء رسانی سے پرہیز: امام
طبرانی اور بیہقی سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے برسرِ منبر فرمایا: لوگوں کا کیا حال ہے
جو ہمیں ہمارے نسب اور رشتہ داروں کے بارے میں ایذاء دیتے ہیں، سنو! جس نے میرے نسب
اور رشتہ داروں کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔ (عقائد و مسائل)
لہذا مسلمان کو چاہیے صحابہ و اہلِ بیت کے حوالے سے بہت
احتیاط سے کام لے اور ان کے حقوق کو پورا کرنے کی کوشش کرے اور تمام سادات کرام کا
ادب و احترام ہمیشہ مقدم رکھے اللّٰہ کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
اے عاشقانِ صحابہ و اہلِ بیت! یہ حقیقت ہے کہ جب کسی سے
محبت ہو جائے تو اس سے نسبت رکھنے والی ہر شے سے پیار ہو جاتا ہے محبوب کی اولاد
ہو یا اس کے ساتھی سب پیارے لگتے ہیں ایسے ہی جس کو اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری
نبی مکی مدنی محمد عربی ﷺ سے محبت ہوتی ہے وہ ان کی آلِ پاک سے بھی محبت رکھتا ہے
اور ان کے صحابہ سے بھی پیار کرتا ہے اگر کسی کے اندر عشقِ رسول دیکھنا ہو تو یہ
دیکھیے کہ وہ صحابہ و اہلِ بیت سے کس قدر محبت رکھتا ہے۔
اہلِ بیت سے مراد کون؟ اہلِ بیت
میں نبی کریم ﷺ کی ازواجِ مطہرات یعنی پاک بیویاں اور حضرتِ خاتونِ جنت فاطِمہ
زہرا اور علی مرتضیٰ اور حسنینِ کریمین یعنی امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہم
سب داخل ہیں۔(خزائن العرفان، ص780)
ان کی پاکی
کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیہ
تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہل بیت
حقوقِ
اہلِ بیت:
1️۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے
روزی دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے مجھ سے محبت کرو اور میری
محبت پانے کے لیے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔
(ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)
2️۔ آقا ﷺ نے فرمایا: اس وقت تک کوئی کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک
میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد
سے زیادہ پیاری نہ ہو جائے۔(شعب الایمان، 2/189، حدیث: 1505)
صحابہ کا
گدا ہوں اور اہل بیت کا خادم یہ
سب ہے آپ ہی کی تو عنایت یا رسول اللہ
3️۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: میں قیامت کے دن چار طرح کے بندوں کی شفاعت فرماؤں گا:1)
میری آل کی عزّت و تعظیم کرنے والا۔2) میری آل کی ضروریات پورا کرنے والا۔3) میری
آل کی پریشانی میں ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے والا۔4) اپنے دل و زبان سے
میری آل سے مَحَبَّت کرنے والا۔ (جمع الجوامع، 1/380، حدیث: 3809)
4️۔ آقا ﷺ نے فرمایا: اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑ لو کیوں کہ جو اللہ
پاک سے اس حال میں ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے تو اللہ پاک اسے میری شفاعت کے
سبب جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی
بندے کو اس کا عمل اس صورت میں فائدہ دے گا جب کہ وہ ہمارا یعنی میرا اور میرے اہل
بیت کا حق پہچانے۔ (معجم اوسط، 1/606، حدیث: 243)
5️۔ اہل بیت پر ظلم کرنے والوں پر جنت حرام ہے۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: جس
شخص نے میرے اہل بیت پر ظلم کیا اور مجھے میری اولاد کے بارے میں تکلیف دی اس پر
جنت حرام کر دی گئی۔ (الشرف المؤبد، ص99)
اہلِ بیت کے بہت سے حقوق ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب حقوق
کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ہمیں سرکار ﷺ کا سچا عشق عطا فرمائے اور ان کے
نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
الله کا صد کروڑ شکر ہےکہ ہم اس کے آخری نبی ﷺ کی امت میں
سے ہیں۔ الحمد للہ ہم ان سے محبت کرتے ہیں اور آپ سے نسبت رکھنے والی ہر شے سے محبت
رکھتے ہیں۔ ان کے اہل واعیال سے محبت رکھنا ہم پر لازم ہیں۔ ظاہر ہے محبوب کی ہر
شے سے محبت ہوتی ہے۔ ہمارے صحابہ کرام . بزرگان دین بھی بے انتہامحبت کرتے تھے۔
آئمہ کرام کی محبتِ اہلِ بیت: امام اعظم حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اہل بیت سے
اتنی شدید محبت کرتے اور آئمہ اطہار اہل بیت کی اتنی تکریم کرتے کہ لوگوں نے اُن
پر شیعہ ہونے کا طعنہ کیا اور اُن کو شیعہ کہتے۔ اگر محبت اہل بیت کی وجہ سے امام
اعظم ابو حنیفہ شیعہ ہو گئے تو پھر سنی کون بچا ہے؟
ان کے گھر
میں بے اجازت جبرئیل آتے نہیں قدر
والے جانتے ہیں قدر وشان اہل بیت
اہل بیت سے مراد کون؟ اس کا جواب
خزائن العرفان ص 780پر ہے: اہل بیت میں نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات (یعنی پاک
بیویاں)اور حضرت خاتونِ جنت فاطمہ زہرا اور علی المرتضیٰ اور حسنین کریمین (یعنی
امام حسن اور حسین)رضی اللہ عنہم سب داخل ہیں۔(خزائن العرفان، ص780)
اسلام کا
چمن جو ہے پھولا پھلا ہوا ایمان
ہے مرا، یہ ہے تاثیر اہل بیت
حقوق اہل بیت:
1۔ محبت: اہل بیت سے
محبت کرنا ہم پر واجب اس کا اندازہ حدیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے، چنانچہ حضرت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ
تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور مجھ سے
محبت کرو اللہ کی محبت کے سبب اور میرے اہل بیت سے میری محبت کی خاطر محبت کرو۔ (ترمذی،
5 / 664، رقم: 3789)
2۔ درودپاک بھیجا جائے: حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے نماز پڑھی اور مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ
پڑھا اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔ (دارقطنی، 1 / 355، رقم: 1328)
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر میں
نماز پڑھوں اور اس میں حضور نبی اکرم ﷺ پر درود پاک نہ پڑھوں تو میں نہیں سمجھتا
کہ میری نماز کامل ہو گی۔ (دارقطنی، 1 / 475، رقم: 1329)
3۔ان سے بغاوت نہ کی جائے: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بنو ہاشم اور انصار سے بغض رکھنا کفر ہے اوراہل عرب سے بغض
رکھنا منافقت ہے۔(معجم كبير، 11 / 145، رقم: 1131)
4۔ ذکر خیر کیا جائے: اہل بیت
اطہار کا تذکرہ خیر کے ساتھ کرنا چاہیے۔ان کا تذکرہ کرتے ہوئے ادب کا خیال رکھا
جائے۔ یہ ہستیاں رسول اللہ ﷺ سے نسبت والی ہیں۔
دو جہاں
میں خادم آل رسول اللہ کر حضرت
آل رسول مقتدا کے واسطے
5۔ ادب واحترام: چمن رسالت
کے پھول و کلیاں ان سب کا ادب و احترام کیا جائے ان کی تعظیم کرنا گویا رسول اللہ
کی تعظیم کرنا ہے۔ ان کو پیار ومحبت سے پکارا جائے جب ان کا تذکرہ ہو رہا ہو ادب
سے آنکھیں جھکا لیجیے۔
پنجتن کی
غلامی بڑا صلہ دے گی گلاب
کی طرح چہرہ کھلا دے گی
مت چھوڑ نا
کبھی دامنِ اہلِ بیت یہ
بندگی تمہیں مولا سے ملا دے گی
اللہ پاک ہمیں اہل بیت واطہار سے محبت کرنے ان کا تذکرہ خیر
کرنے ان پر درود بھیجنے ان کا ادب و احترام کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین
لفظ حقوق "حقّ" کی جمع ہے بمعنی صِلہ، بدلہ،
اِنعام، مزدوری، واجِب، فرض، جبکہ اِصطلاحی طور پر اِس سے مُراد ہمارے ذِمّہ کسی
دوسرے کے واجِبات ہیں، بات ہو رہی ہے اہلِ بیتِ اَطہار کی، سُبحٰن اللہ اِرشادِ
خُداوندی ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ
عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ
22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ
تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔
آیت کے اِس جُزء کے نُزول میں اِختِلاف ہے، حضرت ابن عباس
رضی اللہ عنہما و سعید ابن جُبیر و عکرمہ و عطا وکلبی و مقتل وغیرہ اکثر عُلَماء
کے نزدیک اہلِ بیت سے ازواجِ نبی مُراد ہیں اور اِنہیں کی شان میں یہ آیت
نازِل ہوئی ہے اور آیت کا سیاق و سباق اسی
پر دلالت کرتا ہے اور ابو سعید خُدری و مُجاہد و قتادہ کہتے ہیں کہ اہلِ بیت سے
مُراد حضرات حسنین و حضرت فاطِمہ و علی رضی اللہ عنہم ہیں۔ انہی کی شان میں یہ آیت
نازِل ہوئی، البتہ شیخ ابنِ کثیر نے لِکھا ہے کہ آیتِ مذکُورہ میں صرف ازواج کو یا
صرف حضراتِ اربَعَہ کو اہلِ بیت ماننا غلط ہے، مختلف احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ
دونوں فریق اہلِ بیت ہیں اور شیخ ابو منصور ماتُریدی سے بھی یہی منقول ہے کہ اہلِ
بیت کا لفظ عام ہے ازواج و اولاد کو شامِل ہے کسی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ (تفسیر
رضوی، 3/ 327-326)
مولانا حسن رضا خان "ذوقِ نعت"میں کیاخُوب لکھتے
ہیں:
جِن کی
پاکی کا خُدائے پاک کرتاہے بیاں آیۂ
تطہیر سے ظاہِر ہے شانِ اہلِ بیت
بالجملہ اس آیت سے اہلِ بیت کی ارفع و اعلیٰ شان خوب ظاہر
ہے، پھر دین کے لیے اِن کی خِدمات و قُربانیوں کا جائزہ لیں توہر درد منددِل لرز
اُٹھتا ہے اور کلیجہ مُنہ کو آتا ہے۔ ہم پر اِن کے بہت حقوق لازِم ہیں:
(1)شان میں تنقیص سے بچنا: بالیقین آیاتِ کریمہ و احادیث طیِّبہ ان کی شان پر دالّ
(دلالت کرنے والی) ہیں تو پھر ایک ادنی ناچیز کو یہ جُرأت کیسے ہو کہ وہ اِن کی
شان میں تنقیص کرے۔
(2)تعظیم و ادب: اہلِ بیتِ
اطہار کا تمام اُمّت پر یہ حق ہے کہ وہ اِن کی تعظیم و تکریم بجا لائیں، اِن کی
شان میں بے ادبی کا کوئی کلِمہ زبان پر تو کیا بلکہ اِس ناپاک خیال سے اپنے قُلوب
و اذہان کو بھی محفوظ رکھیں کہ یہ ایک مُؤمِن کے ایمان کے لیے زہرِ قاتِل ہے۔
(3)گُستاخ لوگوں کی صُحبت سے دُوری: یہ ایک اِنتہائی ضروری امر ہے کہ ایک حقیقی مؤمن ہر گز اِس
چیز کو گوارا نہیں کر سکتا کہ وہ ایسے لوگوں کی گلی سے بھی گُزرے کہ جو اُس کے نبی
پاک ﷺ کے مُبارک اہلِ بیت کی شان میں کسی بھی قِسم کی گُستاخی کریں۔
مُعزّز قارئین! اِس
بات کو اِس عام مِثال سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ اگر کوئی آپ کے والدین کو بُرا
بھلا بولے یا خدانخواستہ گالی دے دے تو آپ ایسے شخص کی صُحبت تو کیا، ایسے شخص کی
صُورت ریکھنے سے بھی اِحتراز کریں گے اور یہاں تو بات ہی اُس شمسُ الضُّحٰی،
بدرُالدُّجٰی(ﷺ) کی ہے کہ جِن کی محبتوں کا تمام محبتوں پر فائق ہونا ہی
"ایمان" ہے۔
(4)اِن کے بارے میں دُرُست عقائد رکھنا: ایک مُسلمان کے لیے یہ بات بے حد اہم ہے کہ وہ اہلِ بیت نیز
تمام صحابۂ کِرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں وہی عقائد رکھے جو ہمارے اسلاف نے
ہمیں سِکھائے ہیں کہ یہی نجات کی اصل صُورت ہے ورنہ صِرف تباہی و بربادی ہے۔ معاذ
اللہ اِن میں کسی کے بھی بارے میں غلط یا کمزور بات کہنے والے کی دُنیا و آخرت
دونوں خطرے میں ہیں۔
(5)اِطاعَت و فرمانبرداری: اہلِ بیت کی اِطاعت و پیروی نیز اِن کی تعلیمات پر عمل سے
ہماری دُنیا و آخِرت دونوں سنور جائیں گی کیونکہ اِس بات کی دُعا مانگنے کی تو خود
قُرآن نے ہمیں تعلیم دی ہے جیسا کہ اِرشاد ہوا: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ(۵) (پ1، الفاتحۃ:
5) ترجمہ کنز الایمان: ہم کو سیدھا راستہ چلا۔
پھر اِس کی تفسیر میں آگے اِرشاد ہوتا ہے: صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴰ (پ 1، الفاتحۃ:6) ترجمہ کنز الایمان: راستہ اُن کا جن پر
تُو نے احسان کیا۔
اِن آیات کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ صراط مستقیم
حُضُور کے آل و اصحاب ہیں نیز یہ کہ اِس سے طریقِ مُسلمین اور طریقِ اَہلِسُنَّت
مُراد ہے جو اَصحاب و اہلِ بیت و سَوادِ اَعظم سب کو مانتے ہیں یا پھر اِس سے وہ
اُمُور مُراد ہیں جِن پر بُزرگانِ دین کا عمل رہا۔ (تفسیر خزائن العرفان، ص 1092)
حاصِلِ کلام یہ ہوا کہ بِلاشُبّہ اہلِ بیت کی اِطاعت و
فرمانبرداری "صِراطِ مُستقیم" ہے۔ اعلیٰ حضرت کیا خُوب فرماتے ہیں:
اَہلِ
سُنّت کا ہے بیڑا پار، اَصحابِ حُضُور نجم
ہے اور ناؤ ہے عِترت رسولُ اللہ کی
اللہ کریم سے دُعا ہے کہ ہمیں اَہلِ بیت کے نُقُوشِ قدم کو
چُومتے ہوئے زِندگی گُزارنے نیز اِن کی مَحَبّت میں جینا مرنا نصیب فرمائے۔ آمین
بجاہ خاتم النبیین
رحمۃ للعالمین خاتم النبیین ﷺ کے اہلِ بیت کرام رضی اللہ عنہم کا مقام و مرتبہ
بہت بلند و بالا ہے اور ان عظیم ہستیوں کے فضائل قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ یاد
رہے کہ اہلِ بیت میں نبیِّ کریم ﷺ کی تمام اولاد اور ازواجِ مطہّرات بھی شامل ہیں۔
حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اہلِ بیت کے
معنیٰ ہیں گھر والے، اہلِ بیتِ رَسول چند معنیٰ میں آتا ہے:
(1) جن پر زکوٰۃ لینا حرام ہے یعنی بنی ہاشم عباس، علی، جعفر، عقیل، حارِث کی
اولاد۔
(2) حُضور ﷺ کے گھر میں پیدا ہونے والے یعنی اولاد پاک۔
(3) حُضور کے گھر میں رہنے والے جیسے اَزواج پاک۔ (مراٰۃ المناجیح، 8/450)
اہل بیتِ رسول کے پانچ حقوق درج ذیل ہیں:
1۔ اہل بیت اطہار سے محبت کی جائے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے اس کی ترغیب ارشاد
فرمائی ہے۔ جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے: الله سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی
نعمت سے روزی دیتا ہے اور الله کی محبت کے لیے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے
لیے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)
اس حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ محبت اہلِ بیت اس لیے چاہیے کہ وہ
محبت رسول کا ذریعہ ہے، اس لیے نہیں کہ وہ بغض صحابہ کا ذریعہ بنے جیساکہ آج کل بعض
مدعیان اہلِ بیت کا طریقہ ہے کہ ان کے نزدیک محبت اہل بیت تبرا صحابہ سے مکمل ہوتا
ہے، یہ لوگ محبتِ اہل بیت کو بہانہ بناتے ہیں اور صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں۔
(مراٰۃ المناجیح جلد 8)
2۔ اپنی اولاد کو بھی محبتِ اہل بیت کی تعلیم دی جائے۔ جیساکہ حُضورِ اکرم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کو تین اچھی خصلتوں کی تعلیم دو: (1) اپنے نبی کی محبت
(2) ان کے اہلِ بیت کی محبت (3) قرآنِ پاک کی تعلیم۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)
اس کیلئے اہل بیت کرام کے واقعات بچّوں کو بتائے جائیں تاکہ چھوٹی عمر ہی میں
یہ اہلِ بیت سے محبت کرنے والے بَن جائیں۔ جب ان کے اَعْراس (عُرس کی جمع) کے ایام
آئیں تو ان کے لئے گھر، مسجد وغیرہ میں ایصالِ ثواب کا اہتمام کیا جائے، ان کے
فضائل بچّوں کو یاد کروائے جائیں۔
3۔ اہل بیتِ نبی کا ادب و احترام کیا جائے کہ نبیِّ کریم ﷺ سے منسوب ہر شے کا
جب ادب واحترام لازم ہے تو اہلِ بیت کا بھی ادب لازم ہے اور یہ محبت کا تقاضا بھی
ہے۔ ایک بار حضرت سیّدُنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسولِ اکرم ﷺ کے
احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔ (بخاری، 2/ 438، حدیث: 3713)
4۔ ان عظیم ہستیوں کی اتباع و پیروی کی جائے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آگاہ رہو
کہ تم میں میرے اہلِ بیت کی مثال جنابِ نُوح کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار
ہوگیا نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث:
3365)
اس حدیثِ پاک کی شرح میں حکیمُ الاُمّت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: جیسے طوفانِ نوحی کے وقت ذریعۂ نَجات صرف کشتیِ نوح علیہ السَّلام
تھی ایسے ہی تاقیامت ذریعۂ نَجات صرف محبتِ اہلِ بیت اور ان کی اِطاعت ان کی
اِتّباع ہے، بغیر اطاعت و اِتّباع دعویٰ محبت بے کار ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ
میرے صحابہ تارے ہیں تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاجاؤ گے، گویا دنیا سمندر ہے،
اس سفر میں جہاز کی سواری اور تاروں کی رہبری دونوں کی ضرورت ہے۔ اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ! اہلِ سنّت کا بیڑا پار ہے کہ یہ اہلِ بیت اور صحابہ دونوں کے قدم سے
وابستہ ہیں۔(مراٰۃ المناجیح، 8/494)
5۔ اہل بیت کرام کی بے ادبی، گستاخی اور ایذارسانی ہرگز نہ کی جائے کہ حدیث
پاک میں ہے: میں تم کو اپنے اہل بیت کے متعلق الله سے ڈراتا ہوں۔ میں تم کو اپنے
اہل بیت کے متعلق الله سے ڈراتا ہوں۔ (مسلم، ص 1312، حدیث: 2408)
یعنی میں تم کو اپنے اہل بیت کے متعلق الله سے ڈراتا ہوں، ان کی نافرمانی بے
ادبی بھول کر بھی نہ کرنا ورنہ دین کھو بیٹھو گے۔ خیال رہے کہ حضرات صحابہ اور اہل
بیت کی لڑائیاں جھگڑے، عداوت و بغض کے نہ تھے بلکہ اختلاف رائے کے تھے، جیسے یوسف
علیہ السلام کےبھائیوں کا اختلاف رائے یوسف علیہ السلام کے متعلق یا جناب سارہ کا
اختلاف رائے حضرت ہاجرہ سے، لہذا وہ نہ کفر ہیں، نہ الحاد، ورنہ لازم آئے گا کہ
حضرت علی و عائشہ دونوں پر الزام آجاوے کہ دونوں اہل بیت ہیں اور ان دونوں بزرگوں
کی جنگ ہوئی جمل میں۔ (مراٰۃ المناجیح، 8/ 458)
اللہ پاک ہمیں حقوقِ اہل بیت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم
النبیین ﷺ
اہل بیت علیہم السلام کی محبت ایمان کا حصہ ہے یہ شجرِ
ایمان کا ثمر ہے یہ اس گُل کی مہک ہے یہ اس خورشید کی چمک ہیں جہاں ایمان ہو گا
وہاں حُبِ آل مصطفیٰ ﷺ ضرور ہو گی،اہل بیت کے حقوق بیان کرنا ہماری جسارت نہیں
لیکن آئیے پانچ حقوقِ اہل بیت سن کر ایمان تازہ کرتی ہیں:
1۔پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:اپنی اولاد کو تین باتیں
سکھاؤ: (1)اپنے نبی ﷺ کی محبت (2)اہل بیت کی محبت (3)اور تلاوتِ قرآن پاک۔ (جامع
صغیر، ص 25، حدیث: 311)
آل سے
اصحاب سے قائم رہے تا
ابد نسبت اے نانائے حسین
2۔ حضرت علی خواص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بعض اہل علم
نے یہاں تک فرمایا ہے کہ سادات کرام اگرچہ نسب(یعنی نسل)میں رسول الله ﷺ سے کتنے
ہی دور ہوں،ان کا ہم پر حق ہے کہ اپنی خواہشوں پر ان کی رضا کو مقدم کریں اور ان
کی بھر پور تعظیم کریں اور جب یہ حضرات (یعنی سید صاحبان)زمین پر تشریف فرما ہوں
تو اونچی نشست (یعنی کرسی یا صوفے وغیرہ)پر نہ بیٹھیں۔ (نور الابصار، ص 129)
کس زباں سے
ہو بیان عز و شانِ اَہل بیت مَدح
گوئے مصطفی ہے مَدح خوانِ اَہل بیت
3۔ حضرت ابو ذر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے آقا کریمﷺ نے
فرمایا: میرے اہلِ بیت کو اپنے درمیان وہ جگہ دو،جو جسم میں سر کی ہے اور سر میں
آنکھوں کی ہے اور سر آنکھوں سے ہدایت پاتا ہے۔ ( الشرف المؤبد، ص 33)
شکریہ تم
نے آل کا صدقہ میری
جھولی میں ڈال رکھا ہے
4۔ حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ
عنہ سے حدیث موقوفاً روایت کی ہے، اے اہل ایمان!نبی اکرم ﷺ کے اہل کے حوالے سے آپ کے
حقوق کا خیال رکھو۔ (بخاری: 2969)
کیوں جہنم
میں جاؤں سینے میں عشقِ
اَصحاب و آل رکھا ہے
5۔ حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، آقا جان رحمت ﷺ کو حجۃ
الوداع کے موقع پر عرفہ کے دن اپنی اونٹنی قصواء پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا میں نے
سنا آپ نے فرمایا اے لوگو!میں نے تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑی کہ اگر تم اسے پکڑ
رکھو گئے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: الله کی کتاب اور میرے اہل بیت۔ (ترمذی، 5/433،
حدیث: 3811)
قلب میں عشقِ
آل رکھا ہے خوب
اِس کو سنبھال رکھا ہے
6۔ حضرت عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے
فرمایا: الله سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور الله کی
محبت کے لیے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لیے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی،
5/434، حدیث: 3814)
اُن کے
گھرمیں بے اجازت جبرئیل آتے نہیں قدر
والے جانتے ہیں قدر و شانِ اَہل بیت
7۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ہر شخص سے (قیامت کے دن)چار چیزوں
کے بارے پوچھا جائے گا: (1) اپنی زندگی کس کام میں گزاری۔ (2) اپنے جسم کو کس کام
میں استعمال کیا۔ (3)مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ (4)اور ہم یعنی اہلِ بیت کی
محبت کے بارے پوچھا جائے گا۔ ( ترمذی، حدیث: 2417)
حقوقِ اہلِ بیت از بنت محمد احسن، فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ
کلاں لالہ موسیٰ
قرآن کریم میں اہلِ بیت کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا
فرمان ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا
اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز
الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔
اہلِ بیت کے معنی: حکیمُ
الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: اہلِ بیت کے معنیٰ ہیں
گھر والے، اہلِ بیتِ رَسول چند معنیٰ میں
آتا ہے: (1)جن پر زکوٰۃ لینا حرام ہے یعنی بنی ہاشم، عباس، علی، جعفر، عقیل، حارِث
کی اولاد (2)حُضور ﷺ کے گھر میں پیدا ہونے والے یعنی اولاد(3)حُضور کے گھر میں
رہنے والے جیسے اَزواج پاک۔ (مراٰۃ المناجیح، 8/450)
حق کا مفہوم: حقوق جمع
ہے حق کی، جس کے معنیٰ ہیں:فردیا جماعت کا ضروری حصہ۔ (معجم وسیط:ص 188) حق کے لغوی معنی صحیح، مناسب، سچ، انصاف، جائز
مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔
(1) حُضورِ اکرم ﷺ اور اہلِ بیتِ اَطْہار کی محبت کے بغیر
ایمان کامل نہیں ہوتا جیساکہ فرمانِ مصطفٰے ہے: کوئی بندہ اس وقت تک کامل مؤمن
نہیں ہوتا یہاں تک کہ میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں اور میری
اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہو۔ (شعب الایمان،2/189، حدیث:1505)
امام محمد بن احمد قُرْطُبی رحمۃ اللہ علیہ آیت ِ مبارکہ (قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا
الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر
تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔) کی تفسیر
میں فرماتے ہیں: حضرت سعید بن جُبیر رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ قرابت والوں سے
مراد حُضور سیّدِ عالَم ﷺ کی آلِ پاک ہے۔ (تفسیر قرطبی، پ25، الشوریٰ، تحت الآیۃ:23،
8/16)
(2) اہل بیت وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کی اِطاعت و محبت نجات
اور ہدایت کا ذریعہ ہے، جیساکہ فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے:اَلَا
اِنَّ مَثَلَ اَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ، مَنْ رَكِبَهَا
نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هَلَكَ یعنی آگاہ
رہو کہ تم میں میرے اہلِ بیت کی مثال جنابِ نُوح کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار
ہوگیا نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث:
3365)
اس حدیثِ پاک کی شرح میں حکیمُ الاُمّت مفتی احمدیارخان
نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جیسے طوفانِ نوحی کے وقت ذریعۂ نَجات صرف کشتیِ
نوح علیہ السَّلام تھی ایسے ہی تاقیامت ذریعۂ نَجات صرف محبتِ اہلِ بیت اور ان کی
اِطاعت ان کی اِتّباع ہے، بغیر اطاعت و اِتّباع دعویٔ محبت بے کار ہے۔دوسری حدیث
میں ہے کہ میرے صحابہ تارے ہیں تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاجاؤ گے،گویا دنیا
سمندر ہے اس سفر میں جہاز کی سواری اور تاروں کی رہبری دونوں کی ضرورت ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ! اہلِ سنّت کا بیڑا پار ہے کہ یہ اہلِ بیت اور صحابہ دونوں کے
قدم سے وابستہ ہیں۔(مراٰۃ المناجیح، 8/494)
(3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور
ﷺ نے فرمایا: چھ بندوں پر میں لعنت کرتا ہوں اور اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور
ہر نبی مستجاب الدعوات ہے وہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے۔ جو کتاب اللہ میں زیادتی
کرنے والا ہو اور اللہ کی قدر کو جھٹلانے والا ہو اور ظلم و جبر کے ساتھ تسلط حاصل
کرنے والا ہو تا کہ اس کے ذریعے اسے عزت دے سکے جسے اللہ نے ذلیل کیا ہے اور اسے
ذلیل کرسکے جسے اللہ نے عزت دی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال
کرنے والا اور میری عترت یعنی اہل بیت کی حرمت کو حلال کرنے والا اور میری سنت کا
تارک۔ ( خصائص اہلِ بیت، ص41)
(4) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بنو ہاشم اور انصار سے بُغض رکھنا کفر ہے اور اہل عرب
سے بغض رکھنا منافقت ہے۔ (خصائص اہلِ بیت، ص 42) اس سے یہ معلوم ہوا کہ اہل بیت سے
بغض دنیا اور آخرت کی تباہی و بربادی کا ذریعہ ہے۔
(5) حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بیشک میں تم میں دو نائب
چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ایک اللہ کی کتاب جو کہ آسمان و زمین کے درمیان پھیلی ہوئی
رسی کی طرح ہے اور میری عترت یعنی اہل بیت اور یہ کہ یہ دونوں اس وقت تک ہر گز جدا
نہیں ہوں گے جب تک یہ میرے پاس حوضِ کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔ (معجم کبیر، 3/65، حدیث: 2679)
اس سے یہ معلوم ہوا کہ اہلِ بیت کی محبت اور قرآن کریم کی
اطاعت دونوں جہانوں کی بھلائیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور اہلِ بیت کی محبت ہی کی
بدولت بروز محشر پیارے آقا ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے حوضِ کوثر سے جام نوش کریں گے۔ ان
شاءاللہ الکریم
حقوقِ اہلِ بیت از بنت سید مصطفیٰ حیدر، فیضان فاطمۃ الزہرا
مدینہ کلاں لالہ موسیٰ
حقوق حق کی جمع ہے حق انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔
1۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: اپنی
اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: نبیِ کریم ﷺ کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن
کی محبت۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)
2۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح
کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہا ہلاک( یعنی
برباد )ہوگیا۔ (مستدرک، 5/ 81، حدیث: 3365)
3۔نبی پاک ﷺ نے فرمایا: میری شفاعت میری امت کے اس شخص کے
لیے ہے جو میرے گھر انے یعنی اہل بیت سے محبت رکھنے والا ہو(تاریخ بغداد، 2/142)
4۔ اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی
دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت حاصل کرنے کے لیے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت
پانے کے لیے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)
5۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس وقت تک کوئی کامل مومن نہیں ہو
سکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤ اور میری اولاد اس کو اپنی
اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہو جائے۔ (شعب الایمان، 2/189، حدیث: 1505)
صحابہ کا
گدا ہوں اور اہل بیت کا خادم یہ
سب ہے آپ ہی کی تو عنایت یا رسول اللہ
6۔تم میں بہتر آدمی
وہ ہے جو میرے بعد میرے اہل بیت کے لیے بہتر ہوگا۔ (مستدرک، 4/369، حدیث: 5410)
7۔حضور ﷺ نے فرمایا: جو میرے اہل بیت میں سے کسی کے ساتھ
اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ اسے عطا فرماؤں گا۔ (تاریخ ابن عساکر،
45/303)
حضرت علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کی
شرح میں فرماتے ہیں: یہ حدیث پاک اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ پاک کے رسول ﷺ
اللہ پاک کی عطا سے عنایت فرمانے یعنی دینے والے ہیں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں لہٰذا اس شخص کو مبارک ہوجس کی پریشانی وہ دور فرما دیں یا اس کی پکار پر
تشریف لے آئیں اور اس کی حاجت و ضرورت پوری فرما دیں۔ (فیض القدیر، 6/223)
8۔ رسول پاک ﷺ نے
فرمایا: جس شخص نے میرے اہل بیت پر ظلم کیا اور مجھے میری عترت( یعنی اولاد) کے
بارے میں تکلیف دی اس پر جنت حرام کر دی گئی۔ (الشرف المؤبد، ص 99)
9۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: سب سے پہلے میرے حوض کوثر پر آنے
والے میرے اہل بیت ہوں گے۔ (السنۃ لابن ابی عاصم، ص 173، حدیث: 766)
10۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: میرے اہلِ
بیت میری امت کے لئے امان و سلامتی ہیں۔ (نوادر الاصول، 5/130، حدیث: 1133)
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: آل پاک اور ان کے حقوق کی تاکید کے
متعلق حدیثیں حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/433)
اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں اہل بیت سے عشق و محبت عطا
فرمائے۔ آمین
اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی
(علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے
۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔ مفسر شہیر حکیم الامت مفتی
احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ
السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔
(امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)
اللہ پاک قراٰن کریم
میں اہل بیت کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : اِنَّمَا
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ
یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر
ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( پ 22 ، الاحزاب : 33)
حضرت زید بن ارقم
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں تم میں وہ چیز چھوڑتا ہوں کہ اگر تم
اسے تھامے رہو تو میرے بعد گمراہ نہ ہو گے ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے ۱؎ الله کی کتاب جو آسمان
سے زمین تک دراز رسی ہے۲؎ اور
میری عترت یعنی میرے اہل بیت یہ دونوں جدا نہ ہوں گے حتی کہ میرے پاس حوض پر آجاویں۳؎ تو غور کرو تم ان دونوں
سے میرے بعد کیا معاملہ کرتے ہو۔
قراٰن و حدیث کی
روشنی میں ہمیں اہل بیت کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے آئیے اب ہم اہل بیت کے
حقوق سنتے ہیں۔ حق نمبر 1: ہمیں اپنی ذات اہل بیت
اطہار کو مقدم کریں۔ یعنی کہ اگر ایک طرف ہماری عقل میں کوئی بات آرہی ہو اور دوسری
جانب اہل بیت کی بات ہو تو ہمیں ان کو ترجیح دینی چاہیے۔
حق نمبر 2: ان کے حق میں سے یہ بھی
ہے کہ ان کی محبت میں اس حد تک نہ بڑھ جائیں کہ ان کی محبت میں معاذ اللہ صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم سے بغض و عداوت کی بو آنے لگ جائے۔ حق
نمبر3 : ان کے محبت کرنے والوں سے محبت کریں اور ان سے دشمنی رکھنے
والوں سے قطع تعلق کریں۔ حق نمبر4 : ان کے حقوق میں سے سب سے اہم حق یہ ہے کہ ہم ان کی مبارک سیرت
کا ناصرف مطالعہ کریں بلکہ مطالعہ کر کے اُس پر عمل پیرا ہونے کی بھی کوشش کریں۔
ہم اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں اللہ پاک ہمیں اہل بیت کا حق
پہنچاننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عمر
فاروق (درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ عالمی مدنی مرکز،کراچی پاکستان)
حضور تاجدارِ مدینہ کے نسب اور قرابت کے لوگوں کو اہل بیت
کہا جاتا ہے۔ اہل بیت میں پیارے آقا کی ازواجِ مطہرات، آپ کے شہزادے اور شہزادیاں،
حضرت علی اور امام حسن اور حسین سب داخل ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خاندان یعنی اہل بیت
نجابت اور شرافت میں دنیا کے تمام خاندانوں سے اشرف اور اعلی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت
ہے جس کا انکار آپ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دشمن بھی نہ کر سکے۔
ابو سفیان نے جب وہ کفر کی حالت میں تھے۔ بادشاہ ہرقل کے بھرے دربار میں اس حقیقت
کا اقرار کیا۔ ھو فینا ذو نسب یعنی نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم سب میں سے عالی
خاندان ہیں۔ ان سے محبت ہم کو عذاب جہنم سے بچا سکتی ہے۔ تو جس طرح حقوقِ رسول ہیں
اس طرح معزز قارئین ! رسول کے گھر والوں کے بھی حقوق ہیں۔
اہل بیت کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان سے محبت کی جائے کیونکہ
اس فانی اور زوال پذیر دنیا میں فنا ہونے والی ہماری اس زندگی کی بقا و تحفظ کے لئے
جس طرح پانی ضروری ہے اور بغیر اس کے ہماری زندگی باقی نہیں ہو سکتی ۔ بالکل اسی طرح
ہمارے ایمان کی بقا اور تحفظ کے لئے بھی حضور فخر کائنات تابدار انبیا، حضرت سیدنا
محمد مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ان کے اہل بیت کی محبت اور الفت اس سے بھی کئی گنا زیادہ
اہم اور ضروری ہے اہل بیت سے عقیدت اور محبت جزو ایمان اور مدار شفاعت و نجات ہے۔
تاریخ اسلام میں اہل بیت کا احترام ہمیشہ علمائے حق اور صوفیا ، کا شعور رہا ہے ۔
اہل بیت کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کو جہنم کی آگ سے
پاک مانا جائے ۔قرطبی نے سید المفسرین حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سے آیت وَ لَسَوْفَ
یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵) کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ حضورِ انور سیدِ
عالم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس بات پر راضی ہوئے کہ
ان کے اہل بیت میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا۔ حاکم نے ایک حدیث روایت کی اور اس
کو صحیح بتایا۔ اس کا مضمون یہ ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرما یا: مجھ سے میرے رب نے میرے اہل بیت کے حق میں
فرمایا ان میں سے جو توحید اور رسالت کا مقر ہوا ان کو عذاب نہ فرمائے گا۔
اہل بیت کے حقوق سے یہ بھی ہے کہ ان کے درمیان ہونے والے
اختلاف پر سکوت کیا جائے کیونکہ یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ امت میں سے جس کو کوئی
بھی فضلیت یا شرف ملا وہ الله کے پیارے حبیب کے تصدق اور نسبت سے ملا۔ اہل بیت اطہار
کی مقدس ہستیاں ہوں یا صحابۂ کرام، سبھی نے جو بھی عزتیں پائیں ہیں وہ حضور کے
دامنِ رحمت سے وابستہ ہونے کے سبب سے ۔ بعض نادان لوگ جو اہل بیت اور صحابۂ کرام
کو مد مقابل لاتے ہیں اور فاسد اغراض کیلئے ان کے افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں۔
جب منبع فیض اور جود و کرم ایک ہے تو اختلاف کیسا۔ تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان
کے اختلاف میں سکوت اختیار کریں۔
اہل بیت کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ نہ ان کی گستاخی کی
جائے اور نہ ہی ان سے بغض رکھا جائے کیونکہ اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام
کی کشتی کی طرح ہیں جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو اس سے کترایا ہلاک و
برباد ہو گیا۔ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: خبردار ! جو شخص اہل بیت کی بغض اور عددات پر مرا ،وہ قیامت کے دن اس حال
میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا ہوگا یہ اللہ پاک کی رحمت سے
ناامید ہے۔(الشرف المؤبد ص 79) تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ نہ تو اہل بیت کی
گستاخی کرے اور نہ ہی ان کے گستاخوں کے ساتھ دوستی رکھے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اہل بیت کے طفیل ہمارے گناہوں کو
معاف فرما کر درجات بلند فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم