نبی مکرمﷺ کی طرف نسبت دنیا و آخرت میں فائدہ مند ہے، آپﷺ کے ساتھ نسبی تعلق ارباب دانش و بصیرت کے نزدیک اعلیٰ ترین فضائل اور عظیم ترین قابلِ فخر امور میں سے ہے۔ جہاں دین اسلام میں ہر کسی پر دوسروں کے کچھ حقوق لاگو ہوتے ہیں محبوبِ خدا کے اہلِ بیت کے بھی امت پر حقوق لازم ہوتے ہیں چند کا تذکرہ کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہوں:

محبت: اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔

امام احمد، طبرانی اور حاکم روایت کرتے ہیں اس آیت کے نزول پر صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے قریبی رشتہ دار کون ہیں؟ جنکی محبت ہم پر واجب ہے؟ فرمایا: علی مرتضیٰ، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے۔ (معجم کبیر،11/351، حدیث: 12259)

اسی طرح حضورﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو:1) اپنے نبی کی محبت۔2) نبی کے اہلِ بیت کی محبت۔3) قرآن پاک کی تلاوت۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)

حضور ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ گفتگو کرتے ہیں تو جب وہ میرے اہلِ بیت میں سے کسی کو دیکھتے ہیں تو اپنی گفتگو ختم کر دیتے ہیں اللہ کی قسم! کسی آدمی کے دل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ ان سے اللہ کیلئے اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ رکھے۔ (ابن ماجہ، 1/141)

مراتب کا خیال رکھنا: حضور کے اہل بیت کی محبت میں اتنا حد سے نہ بڑھے کہ ان کے مراتب کا لحاظ نہ رکھے، جیسا کہ روافض حضرت علی کو شیخین کریمین سے بھی بلند مرتبہ جانتے ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا: جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہُ عنہما سے افضل کہے تو میں اس کو مفتری کی(یعنی بہتان لگانے والے کو دی جانے والی سزا) دوں گا۔(تاریخِ ابنِ عساکر،30/383)

بغض و عداوت سے باز رہنا:اپنے دین کی فکر رکھنے والے مسلمان کو اہل بیت کے کسی بھی فرد کی دشمنی رکھنے سے بچنا چاہیے کہ یہ اس کی دنیا و آخرت کیلئے نقصان دہ ہو گی۔ حضورﷺ نے حضرت علی حضرت فاطمہ اور حضرت حسن اور حضرت حسین سے فرمایا: میں اس سے صلح کروں گا جس سے تم صلح کرو گے اور اس سے جنگ کروں گا جس سے تم جنگ کرو گے۔ (ابنِ ماجہ، 1/145)

ادب و احترام:حضورﷺکے اہل بیت کی شان میں ہر قسم کی ادنیٰ سے ادنیٰ بے ادبی و گستاخی سے ہمیشہ بچے، اور بے ادبوں کی صحبت سے بھی کوسوں دور رہے۔

ایذاء رسانی سے پرہیز: امام طبرانی اور بیہقی سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے برسرِ منبر فرمایا: لوگوں کا کیا حال ہے جو ہمیں ہمارے نسب اور رشتہ داروں کے بارے میں ایذاء دیتے ہیں، سنو! جس نے میرے نسب اور رشتہ داروں کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔ (عقائد و مسائل)

لہذا مسلمان کو چاہیے صحابہ و اہلِ بیت کے حوالے سے بہت احتیاط سے کام لے اور ان کے حقوق کو پورا کرنے کی کوشش کرے اور تمام سادات کرام کا ادب و احترام ہمیشہ مقدم رکھے اللّٰہ کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے۔