لفظ حقوق "حقّ" کی جمع ہے بمعنی صِلہ، بدلہ،
اِنعام، مزدوری، واجِب، فرض، جبکہ اِصطلاحی طور پر اِس سے مُراد ہمارے ذِمّہ کسی
دوسرے کے واجِبات ہیں، بات ہو رہی ہے اہلِ بیتِ اَطہار کی، سُبحٰن اللہ اِرشادِ
خُداوندی ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ
عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ
22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ
تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔
آیت کے اِس جُزء کے نُزول میں اِختِلاف ہے، حضرت ابن عباس
رضی اللہ عنہما و سعید ابن جُبیر و عکرمہ و عطا وکلبی و مقتل وغیرہ اکثر عُلَماء
کے نزدیک اہلِ بیت سے ازواجِ نبی مُراد ہیں اور اِنہیں کی شان میں یہ آیت
نازِل ہوئی ہے اور آیت کا سیاق و سباق اسی
پر دلالت کرتا ہے اور ابو سعید خُدری و مُجاہد و قتادہ کہتے ہیں کہ اہلِ بیت سے
مُراد حضرات حسنین و حضرت فاطِمہ و علی رضی اللہ عنہم ہیں۔ انہی کی شان میں یہ آیت
نازِل ہوئی، البتہ شیخ ابنِ کثیر نے لِکھا ہے کہ آیتِ مذکُورہ میں صرف ازواج کو یا
صرف حضراتِ اربَعَہ کو اہلِ بیت ماننا غلط ہے، مختلف احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ
دونوں فریق اہلِ بیت ہیں اور شیخ ابو منصور ماتُریدی سے بھی یہی منقول ہے کہ اہلِ
بیت کا لفظ عام ہے ازواج و اولاد کو شامِل ہے کسی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ (تفسیر
رضوی، 3/ 327-326)
مولانا حسن رضا خان "ذوقِ نعت"میں کیاخُوب لکھتے
ہیں:
جِن کی
پاکی کا خُدائے پاک کرتاہے بیاں آیۂ
تطہیر سے ظاہِر ہے شانِ اہلِ بیت
بالجملہ اس آیت سے اہلِ بیت کی ارفع و اعلیٰ شان خوب ظاہر
ہے، پھر دین کے لیے اِن کی خِدمات و قُربانیوں کا جائزہ لیں توہر درد منددِل لرز
اُٹھتا ہے اور کلیجہ مُنہ کو آتا ہے۔ ہم پر اِن کے بہت حقوق لازِم ہیں:
(1)شان میں تنقیص سے بچنا: بالیقین آیاتِ کریمہ و احادیث طیِّبہ ان کی شان پر دالّ
(دلالت کرنے والی) ہیں تو پھر ایک ادنی ناچیز کو یہ جُرأت کیسے ہو کہ وہ اِن کی
شان میں تنقیص کرے۔
(2)تعظیم و ادب: اہلِ بیتِ
اطہار کا تمام اُمّت پر یہ حق ہے کہ وہ اِن کی تعظیم و تکریم بجا لائیں، اِن کی
شان میں بے ادبی کا کوئی کلِمہ زبان پر تو کیا بلکہ اِس ناپاک خیال سے اپنے قُلوب
و اذہان کو بھی محفوظ رکھیں کہ یہ ایک مُؤمِن کے ایمان کے لیے زہرِ قاتِل ہے۔
(3)گُستاخ لوگوں کی صُحبت سے دُوری: یہ ایک اِنتہائی ضروری امر ہے کہ ایک حقیقی مؤمن ہر گز اِس
چیز کو گوارا نہیں کر سکتا کہ وہ ایسے لوگوں کی گلی سے بھی گُزرے کہ جو اُس کے نبی
پاک ﷺ کے مُبارک اہلِ بیت کی شان میں کسی بھی قِسم کی گُستاخی کریں۔
مُعزّز قارئین! اِس
بات کو اِس عام مِثال سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ اگر کوئی آپ کے والدین کو بُرا
بھلا بولے یا خدانخواستہ گالی دے دے تو آپ ایسے شخص کی صُحبت تو کیا، ایسے شخص کی
صُورت ریکھنے سے بھی اِحتراز کریں گے اور یہاں تو بات ہی اُس شمسُ الضُّحٰی،
بدرُالدُّجٰی(ﷺ) کی ہے کہ جِن کی محبتوں کا تمام محبتوں پر فائق ہونا ہی
"ایمان" ہے۔
(4)اِن کے بارے میں دُرُست عقائد رکھنا: ایک مُسلمان کے لیے یہ بات بے حد اہم ہے کہ وہ اہلِ بیت نیز
تمام صحابۂ کِرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں وہی عقائد رکھے جو ہمارے اسلاف نے
ہمیں سِکھائے ہیں کہ یہی نجات کی اصل صُورت ہے ورنہ صِرف تباہی و بربادی ہے۔ معاذ
اللہ اِن میں کسی کے بھی بارے میں غلط یا کمزور بات کہنے والے کی دُنیا و آخرت
دونوں خطرے میں ہیں۔
(5)اِطاعَت و فرمانبرداری: اہلِ بیت کی اِطاعت و پیروی نیز اِن کی تعلیمات پر عمل سے
ہماری دُنیا و آخِرت دونوں سنور جائیں گی کیونکہ اِس بات کی دُعا مانگنے کی تو خود
قُرآن نے ہمیں تعلیم دی ہے جیسا کہ اِرشاد ہوا: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ(۵) (پ1، الفاتحۃ:
5) ترجمہ کنز الایمان: ہم کو سیدھا راستہ چلا۔
پھر اِس کی تفسیر میں آگے اِرشاد ہوتا ہے: صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴰ (پ 1، الفاتحۃ:6) ترجمہ کنز الایمان: راستہ اُن کا جن پر
تُو نے احسان کیا۔
اِن آیات کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ صراط مستقیم
حُضُور کے آل و اصحاب ہیں نیز یہ کہ اِس سے طریقِ مُسلمین اور طریقِ اَہلِسُنَّت
مُراد ہے جو اَصحاب و اہلِ بیت و سَوادِ اَعظم سب کو مانتے ہیں یا پھر اِس سے وہ
اُمُور مُراد ہیں جِن پر بُزرگانِ دین کا عمل رہا۔ (تفسیر خزائن العرفان، ص 1092)
حاصِلِ کلام یہ ہوا کہ بِلاشُبّہ اہلِ بیت کی اِطاعت و
فرمانبرداری "صِراطِ مُستقیم" ہے۔ اعلیٰ حضرت کیا خُوب فرماتے ہیں:
اَہلِ
سُنّت کا ہے بیڑا پار، اَصحابِ حُضُور نجم
ہے اور ناؤ ہے عِترت رسولُ اللہ کی
اللہ کریم سے دُعا ہے کہ ہمیں اَہلِ بیت کے نُقُوشِ قدم کو
چُومتے ہوئے زِندگی گُزارنے نیز اِن کی مَحَبّت میں جینا مرنا نصیب فرمائے۔ آمین
بجاہ خاتم النبیین