رحمۃ للعالمین خاتم النبیین ﷺ کے اہلِ بیت کرام رضی اللہ عنہم کا مقام و مرتبہ بہت بلند و بالا ہے اور ان عظیم ہستیوں کے فضائل قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ یاد رہے کہ اہلِ بیت میں نبیِّ کریم ﷺ کی تمام اولاد اور ازواجِ مطہّرات بھی شامل ہیں۔ حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اہلِ بیت کے معنیٰ ہیں گھر والے، اہلِ بیتِ رَسول چند معنیٰ میں آتا ہے:

(1) جن پر زکوٰۃ لینا حرام ہے یعنی بنی ہاشم عباس، علی، جعفر، عقیل، حارِث کی اولاد۔

(2) حُضور ﷺ کے گھر میں پیدا ہونے والے یعنی اولاد پاک۔

(3) حُضور کے گھر میں رہنے والے جیسے اَزواج پاک۔ (مراٰۃ المناجیح، 8/450)

اہل بیتِ رسول کے پانچ حقوق درج ذیل ہیں:

1۔ اہل بیت اطہار سے محبت کی جائے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے اس کی ترغیب ارشاد فرمائی ہے۔ جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے: الله سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور الله کی محبت کے لیے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لیے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)

اس حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ محبت اہلِ بیت اس لیے چاہیے کہ وہ محبت رسول کا ذریعہ ہے، اس لیے نہیں کہ وہ بغض صحابہ کا ذریعہ بنے جیساکہ آج کل بعض مدعیان اہلِ بیت کا طریقہ ہے کہ ان کے نزدیک محبت اہل بیت تبرا صحابہ سے مکمل ہوتا ہے، یہ لوگ محبتِ اہل بیت کو بہانہ بناتے ہیں اور صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 8)

2۔ اپنی اولاد کو بھی محبتِ اہل بیت کی تعلیم دی جائے۔ جیساکہ حُضورِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کو تین اچھی خصلتوں کی تعلیم دو: (1) اپنے نبی کی محبت (2) ان کے اہلِ بیت کی محبت (3) قرآنِ پاک کی تعلیم۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)

اس کیلئے اہل بیت کرام کے واقعات بچّوں کو بتائے جائیں تاکہ چھوٹی عمر ہی میں یہ اہلِ بیت سے محبت کرنے والے بَن جائیں۔ جب ان کے اَعْراس (عُرس کی جمع) کے ایام آئیں تو ان کے لئے گھر، مسجد وغیرہ میں ایصالِ ثواب کا اہتمام کیا جائے، ان کے فضائل بچّوں کو یاد کروائے جائیں۔

3۔ اہل بیتِ نبی کا ادب و احترام کیا جائے کہ نبیِّ کریم ﷺ سے منسوب ہر شے کا جب ادب واحترام لازم ہے تو اہلِ بیت کا بھی ادب لازم ہے اور یہ محبت کا تقاضا بھی ہے۔ ایک بار حضرت سیّدُنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسولِ اکرم ﷺ کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔ (بخاری، 2/ 438، حدیث: 3713)

4۔ ان عظیم ہستیوں کی اتباع و پیروی کی جائے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آگاہ رہو کہ تم میں میرے اہلِ بیت کی مثال جنابِ نُوح کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

اس حدیثِ پاک کی شرح میں حکیمُ الاُمّت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جیسے طوفانِ نوحی کے وقت ذریعۂ نَجات صرف کشتیِ نوح علیہ السَّلام تھی ایسے ہی تاقیامت ذریعۂ نَجات صرف محبتِ اہلِ بیت اور ان کی اِطاعت ان کی اِتّباع ہے، بغیر اطاعت و اِتّباع دعویٰ محبت بے کار ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ میرے صحابہ تارے ہیں تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاجاؤ گے، گویا دنیا سمندر ہے، اس سفر میں جہاز کی سواری اور تاروں کی رہبری دونوں کی ضرورت ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ! اہلِ سنّت کا بیڑا پار ہے کہ یہ اہلِ بیت اور صحابہ دونوں کے قدم سے وابستہ ہیں۔(مراٰۃ المناجیح، 8/494)

5۔ اہل بیت کرام کی بے ادبی، گستاخی اور ایذارسانی ہرگز نہ کی جائے کہ حدیث پاک میں ہے: میں تم کو اپنے اہل بیت کے متعلق الله سے ڈراتا ہوں۔ میں تم کو اپنے اہل بیت کے متعلق الله سے ڈراتا ہوں۔ (مسلم، ص 1312، حدیث: 2408)

یعنی میں تم کو اپنے اہل بیت کے متعلق الله سے ڈراتا ہوں، ان کی نافرمانی بے ادبی بھول کر بھی نہ کرنا ورنہ دین کھو بیٹھو گے۔ خیال رہے کہ حضرات صحابہ اور اہل بیت کی لڑائیاں جھگڑے، عداوت و بغض کے نہ تھے بلکہ اختلاف رائے کے تھے، جیسے یوسف علیہ السلام کےبھائیوں کا اختلاف رائے یوسف علیہ السلام کے متعلق یا جناب سارہ کا اختلاف رائے حضرت ہاجرہ سے، لہذا وہ نہ کفر ہیں، نہ الحاد، ورنہ لازم آئے گا کہ حضرت علی و عائشہ دونوں پر الزام آجاوے کہ دونوں اہل بیت ہیں اور ان دونوں بزرگوں کی جنگ ہوئی جمل میں۔ (مراٰۃ المناجیح، 8/ 458)

اللہ پاک ہمیں حقوقِ اہل بیت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ