حضور تاجدارِ مدینہ کے نسب اور قرابت کے لوگوں کو اہل بیت کہا جاتا ہے۔ اہل بیت میں پیارے آقا کی ازواجِ مطہرات، آپ کے شہزادے اور شہزادیاں، حضرت علی اور امام حسن اور حسین سب داخل ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خاندان یعنی اہل بیت نجابت اور شرافت میں دنیا کے تمام خاندانوں سے اشرف اور اعلی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دشمن بھی نہ کر سکے۔ ابو سفیان نے جب وہ کفر کی حالت میں تھے۔ بادشاہ ہرقل کے بھرے دربار میں اس حقیقت کا اقرار کیا۔ ھو فینا ذو نسب یعنی نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم سب میں سے عالی خاندان ہیں۔ ان سے محبت ہم کو عذاب جہنم سے بچا سکتی ہے۔ تو جس طرح حقوقِ رسول ہیں اس طرح معزز قارئین ! رسول کے گھر والوں کے بھی حقوق ہیں۔

اہل بیت کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان سے محبت کی جائے کیونکہ اس فانی اور زوال پذیر دنیا میں فنا ہونے والی ہماری اس زندگی کی بقا و تحفظ کے لئے جس طرح پانی ضروری ہے اور بغیر اس کے ہماری زندگی باقی نہیں ہو سکتی ۔ بالکل اسی طرح ہمارے ایمان کی بقا اور تحفظ کے لئے بھی حضور فخر کائنات تابدار انبیا، حضرت سیدنا محمد مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ان کے اہل بیت کی محبت اور الفت اس سے بھی کئی گنا زیادہ اہم اور ضروری ہے اہل بیت سے عقیدت اور محبت جزو ایمان اور مدار شفاعت و نجات ہے۔ تاریخ اسلام میں اہل بیت کا احترام ہمیشہ علمائے حق اور صوفیا ، کا شعور رہا ہے ۔

اہل بیت کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کو جہنم کی آگ سے پاک مانا جائے ۔قرطبی نے سید المفسرین حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سے آیت وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵) کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ حضورِ انور سیدِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس بات پر راضی ہوئے کہ ان کے اہل بیت میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا۔ حاکم نے ایک حدیث روایت کی اور اس کو صحیح بتایا۔ اس کا مضمون یہ ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرما یا: مجھ سے میرے رب نے میرے اہل بیت کے حق میں فرمایا ان میں سے جو توحید اور رسالت کا مقر ہوا ان کو عذاب نہ فرمائے گا۔

اہل بیت کے حقوق سے یہ بھی ہے کہ ان کے درمیان ہونے والے اختلاف پر سکوت کیا جائے کیونکہ یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ امت میں سے جس کو کوئی بھی فضلیت یا شرف ملا وہ الله کے پیارے حبیب کے تصدق اور نسبت سے ملا۔ اہل بیت اطہار کی مقدس ہستیاں ہوں یا صحابۂ کرام، سبھی نے جو بھی عزتیں پائیں ہیں وہ حضور کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہونے کے سبب سے ۔ بعض نادان لوگ جو اہل بیت اور صحابۂ کرام کو مد مقابل لاتے ہیں اور فاسد اغراض کیلئے ان کے افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں۔ جب منبع فیض اور جود و کرم ایک ہے تو اختلاف کیسا۔ تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان کے اختلاف میں سکوت اختیار کریں۔

اہل بیت کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ نہ ان کی گستاخی کی جائے اور نہ ہی ان سے بغض رکھا جائے کیونکہ اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہیں جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو اس سے کترایا ہلاک و برباد ہو گیا۔ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: خبردار ! جو شخص اہل بیت کی بغض اور عددات پر مرا ،وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا ہوگا یہ اللہ پاک کی رحمت سے ناامید ہے۔(الشرف المؤبد ص 79) تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ نہ تو اہل بیت کی گستاخی کرے اور نہ ہی ان کے گستاخوں کے ساتھ دوستی رکھے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اہل بیت کے طفیل ہمارے گناہوں کو معاف فرما کر درجات بلند فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم