حقوقِ اہلِ بیت از بنت محمد احسن، فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ
کلاں لالہ موسیٰ
قرآن کریم میں اہلِ بیت کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا
فرمان ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا
اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز
الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔
اہلِ بیت کے معنی: حکیمُ
الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: اہلِ بیت کے معنیٰ ہیں
گھر والے، اہلِ بیتِ رَسول چند معنیٰ میں
آتا ہے: (1)جن پر زکوٰۃ لینا حرام ہے یعنی بنی ہاشم، عباس، علی، جعفر، عقیل، حارِث
کی اولاد (2)حُضور ﷺ کے گھر میں پیدا ہونے والے یعنی اولاد(3)حُضور کے گھر میں
رہنے والے جیسے اَزواج پاک۔ (مراٰۃ المناجیح، 8/450)
حق کا مفہوم: حقوق جمع
ہے حق کی، جس کے معنیٰ ہیں:فردیا جماعت کا ضروری حصہ۔ (معجم وسیط:ص 188) حق کے لغوی معنی صحیح، مناسب، سچ، انصاف، جائز
مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔
(1) حُضورِ اکرم ﷺ اور اہلِ بیتِ اَطْہار کی محبت کے بغیر
ایمان کامل نہیں ہوتا جیساکہ فرمانِ مصطفٰے ہے: کوئی بندہ اس وقت تک کامل مؤمن
نہیں ہوتا یہاں تک کہ میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں اور میری
اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہو۔ (شعب الایمان،2/189، حدیث:1505)
امام محمد بن احمد قُرْطُبی رحمۃ اللہ علیہ آیت ِ مبارکہ (قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا
الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر
تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔) کی تفسیر
میں فرماتے ہیں: حضرت سعید بن جُبیر رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ قرابت والوں سے
مراد حُضور سیّدِ عالَم ﷺ کی آلِ پاک ہے۔ (تفسیر قرطبی، پ25، الشوریٰ، تحت الآیۃ:23،
8/16)
(2) اہل بیت وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کی اِطاعت و محبت نجات
اور ہدایت کا ذریعہ ہے، جیساکہ فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے:اَلَا
اِنَّ مَثَلَ اَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ، مَنْ رَكِبَهَا
نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هَلَكَ یعنی آگاہ
رہو کہ تم میں میرے اہلِ بیت کی مثال جنابِ نُوح کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار
ہوگیا نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث:
3365)
اس حدیثِ پاک کی شرح میں حکیمُ الاُمّت مفتی احمدیارخان
نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جیسے طوفانِ نوحی کے وقت ذریعۂ نَجات صرف کشتیِ
نوح علیہ السَّلام تھی ایسے ہی تاقیامت ذریعۂ نَجات صرف محبتِ اہلِ بیت اور ان کی
اِطاعت ان کی اِتّباع ہے، بغیر اطاعت و اِتّباع دعویٔ محبت بے کار ہے۔دوسری حدیث
میں ہے کہ میرے صحابہ تارے ہیں تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاجاؤ گے،گویا دنیا
سمندر ہے اس سفر میں جہاز کی سواری اور تاروں کی رہبری دونوں کی ضرورت ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ! اہلِ سنّت کا بیڑا پار ہے کہ یہ اہلِ بیت اور صحابہ دونوں کے
قدم سے وابستہ ہیں۔(مراٰۃ المناجیح، 8/494)
(3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور
ﷺ نے فرمایا: چھ بندوں پر میں لعنت کرتا ہوں اور اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور
ہر نبی مستجاب الدعوات ہے وہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے۔ جو کتاب اللہ میں زیادتی
کرنے والا ہو اور اللہ کی قدر کو جھٹلانے والا ہو اور ظلم و جبر کے ساتھ تسلط حاصل
کرنے والا ہو تا کہ اس کے ذریعے اسے عزت دے سکے جسے اللہ نے ذلیل کیا ہے اور اسے
ذلیل کرسکے جسے اللہ نے عزت دی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال
کرنے والا اور میری عترت یعنی اہل بیت کی حرمت کو حلال کرنے والا اور میری سنت کا
تارک۔ ( خصائص اہلِ بیت، ص41)
(4) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بنو ہاشم اور انصار سے بُغض رکھنا کفر ہے اور اہل عرب
سے بغض رکھنا منافقت ہے۔ (خصائص اہلِ بیت، ص 42) اس سے یہ معلوم ہوا کہ اہل بیت سے
بغض دنیا اور آخرت کی تباہی و بربادی کا ذریعہ ہے۔
(5) حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بیشک میں تم میں دو نائب
چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ایک اللہ کی کتاب جو کہ آسمان و زمین کے درمیان پھیلی ہوئی
رسی کی طرح ہے اور میری عترت یعنی اہل بیت اور یہ کہ یہ دونوں اس وقت تک ہر گز جدا
نہیں ہوں گے جب تک یہ میرے پاس حوضِ کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔ (معجم کبیر، 3/65، حدیث: 2679)
اس سے یہ معلوم ہوا کہ اہلِ بیت کی محبت اور قرآن کریم کی
اطاعت دونوں جہانوں کی بھلائیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور اہلِ بیت کی محبت ہی کی
بدولت بروز محشر پیارے آقا ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے حوضِ کوثر سے جام نوش کریں گے۔ ان
شاءاللہ الکریم