اللہ پاک نے مخلوق کو پیدا کیا ،ان میں بعض کو بعض پر فضلیت ‏بخشی ۔ خاص انسانوں کو عام انسانوں پر ۔اسی طرح بعض خاندانوں ‏کو بعض خاندانوں پر لیکن اگر تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھ لیاجائے ‏تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جو فضلیت خاندانِ اہلِ بیت کو ہوئی ہے وہ ‏آج تک کسی کو بھی نہیں ہوئی ہے ،تاریخ کے کسی بھی پہلو سے ‏دیکھیں تو اہلِ بیت اطہار سب خوبیوں میں نمایاں اور ممتاز ہیں ‏۔آئیے آج شان ِاہلِ بیت پڑھتے ہیں ۔

اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں اہلِ بیت کی شان بیان کرتے ہوئے ‏ارشاد فرماتا ہے :‏ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( پ 22 ، الاحزاب : 33)

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہل بیت

‏( ذوق نعت ص100) ‏

اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔ مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :‏

اہلِ سنّت کا ہے بیڑا پار اصحابِ حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عِترت رسولُ اللہ کی

‏(حدائق بخشش ص153)‏

ایک انسان کے دوسرے انسان پر مختلف حقوق ہوتے ہیں ‏،ہر ایک کے مقام و مرتبے کے اعتبار سے حقوق مختلف ہوتے ہیں ‏جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے ، والدین کے حقوق الگ ہوتے ہیں ‏تو میاں بیوی کے آپس میں حقوق الگ ہوتے ہیں ، حضور جان ِ ‏عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بھی حقوق ہیں ۔اسی طرح اہلِ بیت کے بھی حقوق ‏ہیں جن کا معلوم ہونا ، ان کو ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ حضرت ‏علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ‏فرمایا: جس نے میرے گھر والوں ، انصار اور عرب کے حقوق نہ ‏جانے تو وہ ان تین میں سے ایک ہوگا: ‏(1)منافق(2)زنا کی پیداروار ہوگی (3)یا اس کا غیر ۔ (شعب الایمان باب فی تعظیم النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، فصل فی الصلاۃ علیہ ،2/ ‏‏232)‏

اہلِ بیت کے حقوق :‏‏(1،2،3)احسان، شفقت، رعایت:‏ حضرت زید بن ارقم سے بالاسناد مروی ہے کہ رسولُ اللہ ‏صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں تم کو اپنی اہلِ بیت کے بارے میں اللہ کی ‏قسم دیتا ہوں ۔ یہ تین مرتبہ فرمایا( یعنی اہلِ بیت کی تعظیم و توقیر ‏کرو )‏۔(شفاء شریف، 2/ 47)‏

اس حدیث میں تین حقوق بیان کئے گئے ہیں: میں تم سے اللہ ‏پاک کا اہلِ بیت کے حق کے بارے میں ان پر احسان کرنے کا ‏سوال کرتا ہوں، ان پر شفقت کرنے کا ، یا میں تم سے اللہ پاک ‏کی قسم لیتا ہوں کہ تم میرے اہلِ بیت کی رعایت کرو۔(شرح شفا، ‏2/82)‏

‏ (4)درود اہلِ بیت :‏دیلمی نے ایک حدیث روایت کی کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ‏فرمایا: دعا رکی رہتی ہے جب تک کہ مجھ پر اور میرے اہلِ بیت ‏پر درود نہ پڑھا جائے ۔( سوانح کربلا، ص83)‏‏(5،6) اہلِ بیت سے محبت، ان کو ایذا نہ دینے کا :‏ اللہ پاک قراٰن میں ارشاد فرماتا ہے :ترجَمۂ کنزُالایمان:‏ یہ ہے وہ جس کی خوش خبری دیتا ہے اللہ اپنے بندوں کو جو ‏ایمان لائے اور اچھے کام کیے تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ ‏اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت ۔(پ25،الشوریٰ:23)

‏"مگر قرابت کی محبت " کے تحت مفتی نعیم الدین مراد آبادی ‏علیہ رحمۃ اللہ الہادی خزائن العرفان میں فرماتے ہیں :‏ تم پر لازم ہے کیونکہ مسلمانوں کے درمیان مودّت ، محبّت واجب ‏ہے جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا: وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ ۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ مسلمان مثل ایک عمارت ‏کے ہیں جس کا ہر ایک حِصّہ دوسرے حصّہ کو قوّت اور مدد پہنچاتا ‏ہے ، جب مسلمانوں میں باہم ایک دوسرے کے ساتھ محبّت ‏واجب ہوئی تو سیدِ عالَمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ کس قدر ‏محبّت فرض ہوگی ، معنی یہ ہیں کہ میں ہدایت و ارشاد پر کچھ ‏اجرت نہیں چاہتا لیکن قرابت کے حقوق تو تم پر واجب ہیں ، ان کا ‏لحاظ کرو اور میرے قرابت والے تمہارے بھی قرابتی ہیں ، انہیں ‏ایذا نہ دو ۔ حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ قرابت والوں ‏سے مراد حضور سیدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آلِ پاک ہے ۔ ‏

ہمیں چاہئے کہ اہلِ بیت سے خوب محبت کریں ، ان کے حقوق ادا ‏کریں ، دوسروں تک ان کے حقوق کا علم پہنچائیں ،حقوق کو ادا ‏کرنے کی ترغیب دلائیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان باتوں ‏پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم