اللہ پاک پارہ 22 سورہ احزاب آیت 33 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( پ 22 ، الاحزاب : 33)

اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیات تطہیر سے ظاہر ہے شان اہلِ بیت

(ذوق نعت ص 100)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! جس طرح والدین کے حقوق بیٹے پر استاد کے حقوق شاگرد پر پیر صاحب کے حقوق مرید پر ہیں اسی طرح اہلِ بیت کے حقوق ہر مسلمان پر ہیں۔

آئیے ہم اسی کے متعلق سماعت کرتے ہیں کہ عاشق اکبر یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق کيا فرماتے ہے چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک موقع پر اہلِ بیت اطہار کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قرابت دار (یعنی رشتہ داروں) کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا اپنے قرابت داروں سے صلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔(بخاری، 2/538، حدیث :3712)

ایک بار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اہلِ بیت کے بارے میں لحاظ رکھو۔(بخارى 2/538، حدیث :3713) مراد یہ ہے کہ ان کے حقوق اور مراتب کا لحاظ کرو۔

فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: میں تم میں دو عظیم (یعنی بڑی) چیز چھوڑ رہا ہوں ان میں سے پہلی تو اللہ پاک کی کتاب (یعنی قراٰنِ کریم) ہے جس میں ہدایت اور نور ہے تم اللہ پاک کی کتاب (یعنی قراٰنِ کریم) پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو دوسرے میرے اہلِ بیت ہیں اور تین مرتبہ ارشاد فرمایا میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ پاک کی یاد دلاتا ہوں۔(مسلم ،ص 1008، حدیث: 6225)

امام شرف الدین حسین بن محمد طیبى رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں معنیٰ یہ ہے کہ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کی شان کے احوال سے اللہ پاک سے ڈراتا ہوں اور تم سے کہتا ہوں کہ تم اللہ پاک سے ڈرو انہیں تکلیف نہ دو بلکہ ان کی حفاظت کرو ۔(شرح الطیبى، 11/296، تحت الحدیث: 6140)

فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی محبت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت (حاصل کرنے) کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت (پانے) کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو ۔(ترمذى، 5/434، حدیث: 3814)

تم میں سے پل صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔(جمع الجوامع، 1/86، حدیث: 454)

جو شخص اولادِ عبدالمطلب میں کسی کے ساتھ دنیا میں بھلائی کرے اس کا بدلہ دینا مجھ پر لازم ہے جب وہ روزے قیامت مجھ سے ملے گا۔(تاریخ بغداد، 10/102)

ثابت ہے حدیثوں سے قراٰن کی دلیلوں سے اعلیٰ ہے بہت رتبہ زہرا تیرے بچوں کا

اے عاشق صحابہ و اہل بیت خود سے سوال کیجئے اور کہے کى کیا ہم اہلِ بیت سے محبت کرتے ہیں؟ کیا ان کی حقیقی معنوں میں تعظیم کرتے ہیں؟ کیا ان کے حقوق ادا کرتے ہیں؟ اگر نہیں کرتے تو ہم کیسے عاشق صحابہ و اہل بیت ہیں؟ پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! ہمیں چاہیے کہ ان کی تعظیم و حقوق ادا کرے کیونکہ محبت کے قرینوں میں قرینہ یہ بھی ہے کہ جس سے محبت ہو اس کا ادب و احترام کے ساتھ ساتھ اس کے حقوق بھی ادا کیے جائیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے یا اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں عاشقِ صحابہ و اہل بیت بنائے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم