مہتاب عطّاری (درجہ ثانیہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ حسن خطیب چشتی دھولکہ ہند)
تمام تعریفیں اللہ کے لئے
جس نے اس جہاں کو پیدا فرمایا اور ہمارے آقا سیّدِ ابرار و اخیار نورِ اعظم اللہ کے
محبوب جنابِ احمد مصطفیٰ محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس جہاں پر رحمت
بنا کر بھیجا اور ہم مؤمن مسلمان اپنے آقا سے بے انتہاں محبّت و عشق کرتے ہیں اور
ساتھ اہلِ بیت اطہار سے بھی بے انتہاں محبّت کرتے ہیں تو آئیے آج ہم اہلِ بیت
اطہار کے چار حقوق احادیثِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور قراٰنِ مجید
و فرقانِ حمید کے روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں :
حدیث(1) مسلم شریف میں ہے صحابی رسول حضر بن ارقم رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ ایک روز رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مکۂ معظمّہ
اور مدینہ منورہ کے درمیان(مقام جحفہ )میں غریر خم کے پاس کھڑے ہوکر خطبہ فرمایا تو
پہلے اللہ پاک کی حمدو ثنا بیان کی پھر آپ نے ہم لوگوں کو وعظ و نصیحت فرمائی
بھائی اس کے بعد ارشاد فرمایا: اے ! لوگوں میں انسان ہوں قریب ہے کہ میرے رب کا
بھیجا ہوا فرشتہ یعنی ملک الموت میرے پاس آ جائے تو میں خدائے پاک کے حکم کو قبول
کروں گا اور فرمایا (وَاَنَا
تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنَ)اور میں تم میں دو نفسیں اور گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا
ہوں ان میں سے پہلی چیز اللہ پاک کی کتاب یعنی قراٰن مجید ہے جس میں ہدایت اور نور
ہے تو خدائے پاک کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو اور دوسری چیز میرے
گھر والے ۔
راوی حدیث حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قراٰن کے بارے میں لوگوں کو ابھارا
اور رغبت دلائی اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا۔ (وَاہل بَیْتِیْ اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰہ فِیْ اہل بَیْتِیْ
اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰہ فِیْ اہل بَیْتِیْ) میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ پاک کو
یاد دلاتا ہوں اور اس سے ڈراتا ہوں اور اس جملے کو حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے دوبارہ فرمایا۔ مطلب یہ کہ میں تاکید کے ساتھ تم لوگوں کو وصیت
کرتا ہوں کہ میرے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرو ان کی حقوق کی ادائیگی میں
ہرگز کوتاہی نہ کرو۔
حدیث(2) امام احمد روایت کرتے
ہیں کہ حضور اقدس نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں کو پکڑ کر
فرمایا :جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے اور ان کے والد سے محبت کی تو وہ
قیامت کے دن میرے درجے میں ہوگا۔ یعنی حسنین کریمین سے محبت رکھنے والا بصورت خود
مختار حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے درجے میں دکھا ئی دے گا یہ مطلب نہیں
کہ وہ بھی وہیں ہوگا جو حضور کا مقام ہے۔
اب آئیے ان کے حقوق
کی طرف بڑھتے ہیں:۔ان کا یعنی اہلِ بیت اطہار کا پہلا حق ہے کہ ہم ان سے محبت کرے جیسا کہ قراٰن
مجید فرقانِ حمید کی سورہ میں: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا
الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی
محبت۔(پ25،الشوریٰ:23)
میرے آقا صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اپنے اولاد کو تین چیزیں سکھاؤ۔(1) حضور کی محبت سکھاؤ۔(2)
میرے اہلِ بیت کی محبت سکھاؤ اور۔(3) اور قراٰن کی محبت سکھاؤ یہ جامع صغیر کی
روایت ہے ۔
اہلِ بیت اطہار کا دوسرا
حق یہ ہے کہ اپنے دلوں کو ان کے بغض سے پاک رکھا جائے۔
چنانچہ امام حاکم نے بیان
کیا ہے کہ اگر کوئی شخص حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان کھڑا ہو کر نماز پڑھے
اور روزے بھی رکھے مگر وہ شخص اللہ پاک سے اس حال میں ملے کہ اس کے دل میں حضور کے
اہلِ بیت کے لئے بغض ہو تو وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا بلکہ جہنم میں جائے گا ۔
اہلِ بیت اطہار کا تیسرا
حق یہ ہے کہ ہم ان کی اتباع کریں ان کی سیرت اور ان کے کردار کو اپنائیں۔
پیارے اسلامی بھائیو ! آج
اس دور میں حسینی کردار کو اپنانے کی سخت ضرورت ہے ۔حضور نے خطبہ حجۃ الوداع میں
فرمایا کہ میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ تم اگر اس کو
تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ایک اللہ کی کتاب یعنی قراٰن مجید اور دوسرا
میرے اہلِ بیت۔
اہلِ بیت اطہار کا چوتھا حق
یہ ہے کہ ہم حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ان کی آل پر درود و سلام
پڑھیں جیسا کہ سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 میں اللہ پاک نے فرمایا: اے مؤمنوں اپنے
نبی پر درود و سلام پڑھو۔