عبد اللہ ہاشم عطاری
مدنی (فارغ التحصیل مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ کراچی )
مسلمانوں
کے دلوں میں جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت دینِ اسلام
کے لئے ضروری ہے، وہیں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھرانے اہلِ
بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت و عقیدت بھی دین اسلام کا حصہ ہے۔ آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہاں اپنے اصحاب کے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان
میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤگے وہیں اپنے آل عیال کے
لئے بھی فرمایا: میرے
اہل ِ بیت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے ،جو اس میں سوار ہوا ،وہ نجات پا گیا
اور جو پیچھے رہا وہ ہلاک ہو گیا ۔
نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اہل و عیال تو وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کی
فضیلت و تطہیر کی گواہی تو خود ربِّ کعبہ اپنے پاک کلام مجید میں کرتا ہے چنانچہ
اللہ پاک ارشا د فرماتا ہے: اِنَّمَا
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ
یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر
ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( پ 22 ، الاحزاب : 33)
اولاً
اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ اہلِ بیت سے کون سے افراد مراد ہیں ۔
مذکورہ
آیت میں اہلِ بیت سے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ازواجِ
مُطَہَّرات سب سے پہلے مراد ہیں کیونکہ آگے پیچھے سارا کلام ہی اُن کے متعلق ہو رہا
ہے۔ بقیہ نُفوسِ قُدسیہ یعنی خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا، حضرت علی المرتضیٰ اور
حسنین کریمَین کا اہلِ بیت میں داخل ہونا بھی دلائل سے ثابت ہے۔
اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی
(علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے
۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔
مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار
خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام)
کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر
معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)
اہلِ
بیت اطہار علیھم الرضوان کے 5 حقوق: (1)ازواج مطہرات سے پردے کا حکم : اَزواجِ مُطَہَّرات رضی
اللہُ عنہنَّ امت کی مائیں ہیں اور ان کے بارے میں کوئی شخص اپنے دل میں بُرا
خیال لانے کا تَصَوُّر تک نہیں کر سکتا، اس کے باوجود مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا
کہ ان سے کوئی چیز مانگنی ہے تو پردے کے پیچھے سے مانگو تاکہ کسی کے دل میں کوئی
شیطانی خیال پیدا نہ ہو۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذَا
سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْــٴَـلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب
تم اُن سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو۔(پ22، الاحزاب : 53)
(2)اہل
بیت سے محبت کا حکم: اہلِ بیت اطہار کی محبت کا اہل ایمان کے لئے لازم ہونا کتاب وسنت سے ثابت ہے ۔ عَنِ ابْنٍ عَبَّاسٍ رَضِيَ
اللهُ عَنْه قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: { قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا
الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ } [الشورى: 23] قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، وَمَنْ قَرَابَتُكَ هَؤُلَاءِ
الَّذِينَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: «عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا»
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ
روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے پوچھا گیا:يَا
رَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَوَلَدَاهَا.یعنی آپ کی قرابت والے وہ کون
لوگ ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
علی، فاطمہ، اور اس کے دونوں بیٹے (حسن اور حسین)۔ (المعجم الكبير)
ایک اور حدیث میں رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: أَحِبُّوا اﷲَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِہ۔
وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اﷲ۔وَأَحِبُّوْا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي یعنی اللہ سے محبت کرو اِس
وجہ سے کہ اُس نے تمہیں بے شمار نعمتوں سے مالا مال کیا، اور مجھ سے محبت کرو اللہ
کی محبت کی وجہ سے، اور میرے اہلِ بیت سے محبت کرو میری محبت کی وجہ سے۔(جامع ترمذی، ابواب المناقب، 5/ 664، حدیث: 3789)
سیّدوں کی محبت“شفاعتِ مُصْطَفٰے حاصل
ہونے کا بھی ذریعہ ہےجیساکہ مُصْطَفٰے جانِ رحمت، شمعِ بزمِ ہدایت صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ شفاعت نشان ہے : جو شخص وَسِیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے
اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو، جس کے سبب میں قیامت کے
دن اس کی شفاعت کروں، اُسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور اُنہیں خُوش
کرے۔ ( برکاتِ آل رسول، ص 110)
(3)اہلِ
بیت اطہار کا ادب و احترام کرنا: کیونکہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ چنانچہ
صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ
عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے، آپ کے لئے کھڑے ہو جاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا
بوسہ لیتے، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے۔(تہذیب الاسماء،1/244،
تاریخ ابنِ عساکر،26/372)
ایک موقع پر حضرت سیّدُنا
ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ
نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدْرت میں میری جان ہے! رسولِ
پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَرابَت داروں کے ساتھ حُسنِ
سُلوک کرنا مجھے اپنے قَرابَت داروں سے صِلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ
ہے۔ (بخاری،2/438،حدیث:3712)
(4)اہلِ
بیت اطہار کی اطاعت کرنا: عربی کا مقولہ ہے:ان المحب لمن یحب مطیع(بلاشبہ محبت کرنے والا جس سے اسکی محبت
ہوتی ہے اسکی اطاعت کرتا ہے)۔ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا
لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى
أَيُّهَا النَّاسُ اِسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ
الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ
كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى۔ ترجمہ: میں
تمہارے درمیان میں دو امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھوگے تو
ہرگز گمراہ نہ ہوگے: کتاب خدا اور میری عترت جو اہلِ بیت
اور میرے خاندان والے ہیں۔ اے لوگو! سنو، میں نے تمہیں یہ پیغام پہنچا دیا کہ
تمہیں حوض کے کنارے میرے سامنے لایا جائے گا؛ چنانچہ میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے
ان دو امانتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؛ یعنی کتاب خدا اور میرے اہلِ بیت۔( مسند
احمد، 5/ 181)
(5)اہلِ
بیت اطہار کے خلاف کسی بات کو گوارا نہ کرنا: وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءَ عَنِ
النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «حُبُّكَ الشَّيْءَ يُعْمِي وَيُصِمُّ» . رَوَاهُ
أَبُو دَاوُد ترجمہ: ابودرداء رضی اللہ عنہ
نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا : کسی چیز سے تیری محبت اندھا اور بہرہ بنا دیتی ہے ۔
اہل بیت اطہار سے محبت کا
تقاضہ اور حق یہی ہے کہ ان کے خلا ف بات کرنے والوں کی بات کو نہ سنا جائے۔