محمد طلحٰہ خان
عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ خلفائے راشدین ، راولپنڈی پاکستان)
اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی
(علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے
۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔
مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار
خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام)
کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر
معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)
جس طرح اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق مؤمنین پر ادا کرنا فرض ہیں اسی طرح حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی اہلِ بیت کے بھی کچھ حقوق مسلمانوں پر لازم ہیں۔ کیونکہ یہ وہ
کشتی نوح ہیں جن پر سوار ہو کر ہم گمراہیت کے سمندر کو پار کرنے میں کامیابی حاصل
کر سکتے ہیں، انہیں حقوقِ اہلِ بیت اطہار میں سے 5 حقوق مندرجہ ذیل ہیں : (1)محبت کرنا: پیارے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ہم اہلِ بیت کی محبت کو خود پر لازم کرو
کیونکہ جو ( بروز قیامت) اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ ہم سے محبت رکھتا ہو، تو وہ
ہماری شفاعت کے سبب جنت میں داخل ہو گا۔ ( معجم الاوسط،1/606، حدیث:2230)
(2)فرمانبرداری کرنا : فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اے لوگوں! میں نے تم میں وہ
چیز چھوڑی ہے کہ جب تک تم ان کو تھامے رہو گے گمراہ نہ ہوگے، اللہ کی کتاب اور
میری عترت یعنی اہلِ بیت۔(مشکوٰة المصابیح ،ج2، حدیث:6152) مفتی احمد یار خان
نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: قراٰن پکڑنے سے مراد ہے اس پر عمل کرنا ،
عترت کو پکڑنے سے مراد ہے ان کا احترام کرنا ان کی روایات پر اعتماد کرنا ان کے
فرمانوں پر عمل کرنا۔(مراة المناجیح،8/ 397)
(3) اچھا سلوک کرنا: ایک مقام پر ارشاد فرمایا: جس نے میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک
کیا تو میں قیامت کے دن اسے اس کا صلہ دوں گا۔ (الکامل لابن عدی ، 6 / 425) (4)بے ادبی سے بچنا : رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں تم کو اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ
سے ڈراتا ہوں۔(مشکوٰة المصابیح، کتاب المناقب، حدیث:6140) مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: یعنی ان کی نافرمانی اور بے ادبی بھول کر بھی نہ
کرنا ورنہ دین کھو بیٹھو گے۔(مراة المناجیح، 8/389)
(5)درود و سلام بھیجنا: حضرت کعب بن عجرة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا کہ: ہم آپ پر اور آپ کے اہلِ بیت پر کس طرح درود
بھیجا کریں ؟ اللہ پاک نے سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں خود ہی سکھا دیا ہے ۔ حضور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو : اللَّهُمَّ
صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ
وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى
مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ
إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ۔ (صحیح بخاری،
کتاب انبیا ٕ علیھم السلام، حدیث:3370) یعنی جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم پر درود پڑھا جائے تو اہل بیتِ اطہار پر بھی پڑھا جائے کہ یہ صحابہ کرام
علیہم الرضوان کا بھی عمل ہے۔
الغرض اہلِ بیت اطہار میں سب کا خوب خوب دل و جان سے ادب و
احترام، محبت، پیروی، فرمانبرداری، ناموس پر پہرا، ذکرِ خیر، اور ایصالِ ثواب کرتے
رہنا چاہیے تا کہ ہمارا ظاہر و باطن سنور جائے اور ہماری نسلیں بھی اہل بیتِ اطہار
کے عاشق ہوں۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ اہلِ بیت کی آڑ میں صحابہ کرام علیہم
الرضوان کی گستاخیاں نہ کی جائیں۔ کیونکہ دونوں میں سے کسی ایک کو چھوڑ کر ہمارا
گزارہ نہیں کہ اہلِ بیت اطہار کشتی نوح ہے اور صحابہ کرام ستارے ہیں اور ان دونوں
کی مدد سے ہم نے سمندر پار کرنا ہے۔ اسی لئے کوئی کچھ بھی کہے ہم نے بس صحابہ کرام
اور اہلِ بیت عظام کا دامن اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا۔ ایسا نہ ہو کہ کل بروزِ
قیامت دونوں حضرات کی طرف سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے اور اپنا بیڑا دنیا اور
آخرت دونوں میں غرق ہو جائے۔
اہلِ سنّت کا ہے بیڑا پار اَصحابِ حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسولُ
اللہ کی
اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت اطہار اور صحابہ کرام علیہم الرضوان
کا پکّا شچا عاشق بنائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم