اے عاشقان اہل بیت !جوشخص اللہ پاک اس کے رسول ﷺسے محبت کرتا ہے تو وہ یقینا ان کی آل سے بھی محبت رکھتا ہے۔اس لیے اگر کسی کا عشق رسول دیکھنا ہو تو اس کے اندر یہ دیکھے کہ وہ صحابہ و اہل بیت سے کتنا عشق رکھنے والا ہے۔

کیوں جہنم میں جاؤں سینے میں عشق اصحاب و آل رکھا ہے

(1)بہت سی احادیث اور روایات میں اہل بیت کی محبت اور شان ظاہر ہوتی ہے جن سے ہم پر ان کے حقوق آتے ہیں جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے:اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ۔اپنے نبی ﷺکی محبت،اہل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن۔(الجامع الصغیر،ص25،حدیث:311)

(2)ایک اور حدیثِ پاک میں ارشادہوتا ہے:اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت (حاصل کرنے)کے لیے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت (پانے) کے لیے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔(ترمذی،5/434،حدیث:3814)

حبِ اہل بیت دے آل محمد کے لیے کر شہید عشق حمزہ پیشوا کے واسطے

(3)مزید ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشا د ہے: (آخری)حج میں عرفہ کے دن اپنی (مبارک) اونٹنی قصواء پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے لوگو!میں نے تم وہ چیز چھوڑی ہے کہ جب تک تم ان کو تھامے رکھو گے گمراہ نہ ہوگے۔اللہ پاک کی کتاب یعنی قرآن مجید اور میری عترت یعنی اہل بیت۔(ترمذی، 5/433، حدیث: 3811)

(4)جو میرے اہل بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا قیامت کے دن اس کا بدلہ عطا فرماؤں گا۔ (تاریخ ابن عساکر، 45/303، رقم: 5254)

(5)جس شخص نے میرے اہل بیت پر ظلم کیا اور مجھے میرے اہل بیت کے بارے میں تکلیف دی،اس پر جنت حرام کر دی گئی۔(الشرف المؤبد،ص99)


حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:سمندر کا مسافر کشتی کا بھی حاجت مند ہوتا ہے اور تاروں کی رہبری کا بھی کہ جہاز ستاروں کی رہنمائی پر ہی سمندر میں چلتے ہیں،اسی طرح امتِ مسلمہ اپنی ایمانی زندگی میں اہلِ بیت اطہار کے بھی محتاج ہیں اورصحابہ کبار کی بھی حاجت مند۔امت کے لیے صحابہ کی اقتداء میں ہی اہتداء یعنی ہدایت ہے۔ الحمد للہ اہل سنت کا بیڑا پار ہے کہ یہ اہل بیت اور صحابہ دونوں کے قدم سے وابسطہ ہیں۔

اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

احادیث مبارکہ:

(1)فرما ن آخری نبی ﷺ: جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچّھا سلوک کر ےگا میں روزِ قیامت اس کا صِلہ اسے عطا فرماؤں گا۔

حضرت علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: یہ حدیثِ پاک اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آقا ﷺعنایت فرمانے والے ہیں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے لہذا مبارک ہو اس شخص کو جس کی پریشانی کو وہ دور فرمائیں گے اور اس کی پکار پر وہ تشریف لائیں گے اور اس کی حاجت پوری فرمائیں گے۔(فیضان اہل بیت،ص24، 25)

واللہ وہ سن لیں گے فریاد کو پہنچیں گے اتنا بھی تو ہو کوئی جو آہ کرے دل سے

(2)فرمان خاتم النبیین ﷺ:تم میں سے پل صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے صحابہ و اہل بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔(جمع الجوامع، 1/86،حدیث:454)

اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ وہ صحابہ و اہل بیت کی محبت ایمان کے کامل ہو نے کی دلیل ہے اور اس محبت سے مراد ایسی محبت ہے جو کسی شرعی ممانعت کی طرف لے کر نہ جاتی ہو۔یعنی ایسا نہ ہو کہ صحابہ کی محبت میں معاذ اللہ اہل بیت کے بارے میں بدگمانی ہو یا پھر اہل بیت کی محبت میں معاذاللہ صحابہ کرام کے بارے میں بدگمانی ہواس کی ہر گز ہر گز اجازت نہیں ہے۔(فیضان اہل بیت، ص31، 32)

آل و اصحاب سے محبت ہے اور سب اولیاء سے الفت ہے

یہ سب اللہ پاک کی عنایت ہے مل گئی مصطفیٰ کی امت ہے

(3)فرمان مصطفیٰ ﷺ:میرے اہل بیت میری خاص جماعت اور میرے ہم راز ہیں۔ (فیضان اہل بیت، ص33)

(4)فرمان آخری نبی ﷺ: میرے اہلِ بیت میری امت کے لئے امان و سلامتی ہیں۔ (نوادر الاصول، 5/130، حدیث: 1133)

(5)رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی کے دل میں ایمان داخل نہ ہوگا حتی کہ اللہ و رسول کے لیے تم لوگوں سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/422، حدیث: 3783)

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے حصےتم لوگوں سے محبت کروکے تحت فرماتے ہیں: اس سے مراد حضور کے سارے اہل بیت اولاد ازواج اور حضورﷺ کے سارے قرابت دار ہیں جن میں حضرت عباس داخل ہیں۔ان سب سے محبت اس لیے کرے کہ ان میں رسول الله تشریف لائے یہ حضرات حضور کا کنبہ ہیں جب حضور پیارے تو حضور کا سارا کنبہ(یعنی خاندان) بھی پیارا۔

کس زباں سے ہو بیان عز و شان اہل بیت مدح گوئے مصطفےٰ ہے مدح خوان اہل بیت 


اہل بیت سے مراد پیارے آقا ﷺکے گھرانے والے فراد ہیں۔ ہر صحیح العقیدہ مسلمان کے دل میں اہل بیت کی محبت ضرور ہونی چاہیے۔ اہل بیت کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔ جو اہل بیت سے محبت کرتا ہے آقا ﷺ اس سے محبت کرتے ہیں اور جو اہل بیت سے بغض رکھے حضور ﷺ اس سے بیزاری فرماتے ہیں۔

اہل بیت کے حقوق میں سے ان کے ساتھ محبت رکھنا ان کی تعظیم کرنا اور ان کے خلاف اگر معاذ اللہ کوئی کلام کرتا ہے تو ان کی عزت و ناموس کا دفاع کرنا اور نماز کے اندر ان پر درود پڑھنا یعنی یہ ایسا حق ہے جو اللہ پاک نے نماز کے اندر ڈال دیا ہے۔

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہےبیان آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شان اہل بیت

حدیثِ مبارکہ:حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں میرےبعد جب تک تم انہیں پکڑے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے اور ان میں سے ایک دوسری سے عظیم تر ہے۔ وہ ایک تو اللہ پاک کی کتاب اور اللہ پاک کی آسمان سے زمین کی طرف پھیلی ہوئی ایسی ہے اور دوسری میری اولاد اور میرے گھر والے ہیں اور وہ الگ الگ نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آپہنچیں گے۔پس تم لوگ سوچ لو تم میرے بعد ان سے کیا معاملہ کرتے ہو اور کیسےبیش آتے ہو۔(ترمذی)

کس زباں سے ہو بیان عز و شان اہل بیت مدح گوئے مصطفےٰ ہے مدح خوان اہل بیت

جو کوئی اہل بیت سے محبت رکھتا ہے اللہ پاک اس کو جنت میں داخل کرے گااور جو کوئی اہل بیت اطہار سے بغض رکھتا ہے اللہ پاک اس پر جنت کو حرام فرما دے گا۔


اے عاشقانِ صحابہ واہل بیت جو شخص اللہ پاک کے محبوب ﷺسے محبت کرتا ہے تو وہ یقیناً ان کی آلِ پاک سے محبت رکھتا ہے اور ان کے صحابہ سے بھی محبت کرتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اگر کسی کےاندر عشق رسول دیکھنا ہے تو یہ دیکھے کہ وہ صحابہ کرام واہل بیت عظام سے کس قدر محبت کرتا ہے۔

کیوں جہنم میں جاؤں سینے میں عشق اصحاب وآل رکھا ہے

بہت سی احادیث مبارکہ میں اہل بیت کی شان اور ان کی عظمت اور رفعت ظاہر ہوتی ہےجن سے ہم پر ان کے حقوق آتے ہیں جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ میری شفاعت میری امت کے اس شخص کے لیے جو میرے گھرانے سے محبت رکھنےوالا ہو۔(تاریخِ بغداد، 2/144)

(1)حضرت امام ترمذی اور حضرت امام حاکم رحمۃ اللہ علیہما حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: اللہ پاک سے محبت رکھو کیونکہ وہ تمہیں بطور غذا نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کی بنا پر مجھ سےمحبت رکھو اور میری محبت کی بنا پر اہل بیت سے محبت رکھو۔(مشکاۃ المصابیح، 2/443، حدیث: 6182)

(2)حضرت امام دیلمی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: اپنی اولاد کو تین چیزوں کی تعلیم دو: (1)اپنے نبی ﷺکی محبت،(2)نبی اکرم ﷺکے اہل بیت کی محبت،(3)قرآن پاک کی تلاوت۔ (کتاب عقائد و مسائل،ص83)

صحابہ کا گدا ہوں اور اہل بیت کا خادم یہ سب ہے آپ ہی کی تو عنایت یا رسول اللہ

(3)حضرت امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: نبی اکرم ﷺکاآخری کلام یہ تھا: ہمارے اہل بیت کے بارے میں ہمارے اچھے خلیفہ بننا۔(عقائد و مسائل،ص 86)

(4)حضرت علامہ قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ شفا شریف میں روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: آلِ محمد ﷺکی پہچان آگ سے نجات ہے آلِ محمد ﷺکی محبت اہل صراط سے گزرنے کا اجازت نامہ ہے اور آلِ محمد ﷺکی دوستی عذاب سے امان کا پروانہ ہے۔(کتاب عقائد و مسائل،ص84)

(5)حضرت امام بیہقی اور دیلمی رحمۃ اللہ علیہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنےفرمایا: کوئی بندہ اسی وقت مومن ہوگا جب ہم اسے اس کی جان سے زیادہ محبوب ہو جائیں، ہماری اولاد سے اپنی اولاد سے زیادہ محبوب ہو جائے اور ہمارے اہل اسے اپنے اہل سےزیادہ محبوب ہو جائیں۔(عقائد ومسائل،ص84)

کس زباں سے ہو بیاں عز وشان اہل بیت

مدح گوئے مصطفیٰ ہے مدح خوانِ اہل بیت(ذوق نعت)

اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں رسول اللہ ﷺکے اہل بیت سے حقیقی محبت عطا فرمائے۔ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام نے ہمیں حق کی ادائیگی پر بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ چاہے وہ حقوق کسی کے بھی ہوں۔انہی میں سے اہلِ بیت کے حقوق بھی ہیں۔ آقا ﷺکے خاندان کو اہل بیت کہتے ہیں اور اہل میں مرتبے میں ازواج مطہرات سب سےزیادہ ہیں۔ ان کا اجر وثواب سب سے بڑھ کر ہے۔ اگر دوسروں کو ایک نیکی پر دس گنا ثواب ملے گا تو انہیں بیس گنا۔ اہل بیت تمام لوگوں سے بہتر ہیں۔

حق کی تعریف: حق کی جمع حقوق ہے اور حقوق ان قواعد اور اصول کو کہا جاتا ہے جن کی رعایت ایک معاشرہ یا ایک خاندان کے افراد ایک دوسرے سے روابط کے دوران کرتے ہیں اور انہی قواعد کے مطابق ہر ایک کے اختیارات اور آزادی کو متعین کیا جاتا ہے۔چنانچہ اہل بیت کے چند حقوق یہ ہیں:

(1)ہم پر حق ہے کہ ہم اہل بیت کے دامن سے ہمیشہ وابستہ رہیں تاکہ گمراہی سے بچ سکیں۔حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ہم تمہارے درمیان وہ شے چھوڑ کر جارہے ہیں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو ہمارے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے،ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے۔اللہ پاک کی کتاب جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور ہماری اولاداور اہل بیت۔ یہ دنوں جد انہیں ہوں گے۔یہاں تک کہ دنوں ہمارےپاس حوض کوثر پر آئیں گے،تم دیکھو کہ ان دنوں کے ساتھ ہمارے بعد کیسا معاملہ کرتے ہو۔(عقائد و مسائل،ص89)

(2)اہل بیت کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اہل بیت پر درود بھیجا جائےکیونکہ دعا قبول ہونےکے لیے یہ سب ضروری ہے۔حضرت امام دیلمی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: دعا روک دی جاتی ہے یہاں تک کہ محمدمصطفیٰ اور آپ کےاہلِ بیت پر درود بھیجا جائے۔ (طبرانی،2/303، حدیث: 812)

(3)اہل بیت کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم اہل بیت کے بارے میں غلط باتیں کر کے اپنے نبی اکرمﷺ کو اذیت دینے سے بچیں، کیونکہ اہل بیت سے بغض رکھنے، انہیں اذیت دینے والے پر شدید غضب ہے۔

نبی کریم ﷺنے فرمایا: اللہ پاک کا اس شخص پر شدید غضب ہے جس نے ہمیں ہمارے اہل بیت کے سلسلے میں اذیت دی۔(مستدرک،3/149)

(4)اسی طرح اہل بیت کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان سے محبت رکھی جائے۔ اہل بیت ہمارے سروں کے تاج ہیں۔ ان کے بارے میں گستاخی و بے ادبی جہنم میں لے جانےوالا کام ہے۔ اہلِ بیت سے حقیقی محبت یہ ہے کہ انہیں سب سے زیادہ محبوب جانا اور مانا جائے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا:میری شفاعت امت کے اس شخص کے لیے ہے جو میرے گھرانے (اہل بیت) سے محبت رکھنے والا ہو۔(فیضان اہل بیت،ص22)

(5)اہل بیت کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اہل بیت کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے کہ اس کے متعلق حدیثِ مبارکہ میں آتا ہےکہ پیارے آقاﷺنے ارشاد فرمایا: جو میرے اہل بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ اسے عطا فرماؤں گا۔(تاریخ ابن عساکر، 45/303، رقم: 5254)

حقوق اہل بیت کے دینی فوائد کے ساتھ ساتھ اخروی بھی بہت سے فوائد ہیں کہ حقوق اہل بیت کی ادائیگی اللہ کی رحمت اور پیارے آقا ﷺکی شفاعت اور کامل مومن بننے کا باعث ہے۔


اہلِ بیت اللہ پاک کی بہت خاص ہستیاں ہیں۔ ان حضرات کو اللہ پاک کی بارگاہ میں بہت قرب و منزلت حاصل ہے۔ اہلِ بیت ایسی خاص ہستیاں ہیں کہ ان حضرات سے خیانت کرنے والا حضور ﷺ کی شفاعت سے محروم ہوجاتا ہے۔ جن برگزیدہ اور خوش نصیبوں کو اس بارگاہِ عالی میں قرب و نزدیکی اور اختصاص حاصل ہے۔ ان کے مراتب و درجات کیسے ہوں گے۔ اسی سے آپ اہلِ بیت کے فضائل کا اندازہ کیجئے۔ ان حضرات کی شان میں گستاخی انسان کے تمام اعمال برباد کردیتی ہے۔

حدیث شریف میں وارد ہوا: جس نے اہلِ مدینہ کو ظلماً ڈریا اللہ پاک اس پر خوف ڈالے گا اور اس پر اللہ کی اور ملائکہ کی اور سب لوگوں کی لعنت۔ (سوانح کربلا، ص 78)

اسی طرح اللہ پاک پارہ22 سورہ احزاب آیت 33 میں فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

حدیثِ مبارکہ1:دیلمی نے روایت کیا ہے، حضور ﷺ نے فرمایا: جو اللہ سے محبت رکھتا ہے وہ قرآن سے محبت رکھتا ہے اور جو قرآن سے محبت رکھتا ہے وہ میری محبت رکھتا ہے اور جو میری محبت رکھتا ہے میرے اصحاب اور قرابت داروں سے محبت رکھتا ہے۔ (سوانح کربلا، 78)

حدیثِ مبارکہ2: حضرت عثمان رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے عربوں سے بغض رکھا، میری شفاعت میں داخل نہ ہوگا اور اس کو میری مودت میسر نہ آئے گی۔ (سوانح کربلا، ص 48)

حدیثِ مبارکہ 3: حضرت معاویہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ یہ امر قریش میں ہے، ان سے جو عداوت کرے گا اس کو اللہ پاک منہ کے بل جہنم میں ڈالے گا۔ (بخاری، 2/474)

حدیثِ مبارکہ4: حضرت سلمان فارسی رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں: حضورِ اکرم رسولِ مکرم ﷺ نے مجھے فرمایا: مجھ سے بغض نہ کرنا کہ دین سے جدا ہوجائے گا۔ میں نے عرض کیا: حضور سے کیسے بغض کرسکتا ہوں۔حضور ہی کی بدولت اللہ پاک نے ہمیں ہدایت دی۔ فرمایا: جو عربوں سے بغض کرتا ہے تو وہ ہم سے بغض کرتا ہے۔ (ترمذی، 5/487)

حدیثِ مبارکہ5: حضرت جابر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ہم منافقین کو حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کے بغض سے پہچانتے تھے۔ یعنی ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہلِ بیت کی محبت فرائضِ دین سے ہے۔ (سوانح کربلا، ص 87)

حضرت امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:

یَا اَہلَ بَیت ِرَسُول ِاللہِ حُبُّکُمْ فُرِضَ مِنَ اللہِ فِی الْقُرآنِ اَنْزلَہُ

اے رسول اللہ کے اہلِ بیت! تمہاری محبت اللہ نے قرآن میں فرض کی۔(شعب الایمان، 2/419)

دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت کے حقوق پورے کرنے اور ان کی قدر و منزلت کرنے کی توفیق عطا کرے اور اہلِ بیت سے عداوت و دشمنی رکھنے والوں سے دور فرمائے اور اہلِ بیت کے صدقے ہماری آخرت سنوارے اور ہماری تمام مشکلات آسان فرمائے۔ اہلِ بیت کے صدقے ہمارے علم و عمل میں برکتیں عطا فرمائے اور ہمیں باحیا باپردہ بنائے۔ آمین


اہلِ بیتِ اطہار نبیِ کریم ﷺ کی آل و اولاد ہیں۔ ان نفوسِ قدسیہ کا ادب و احترام نہ صرف ہر مسلمان پر لازم ہے بلکہ تکمیلِ ایمان کے لئے بہت ضروری ہے۔ آپ ﷺ کے اہلِ بیت کی تعظیم و توقیر آپ سے محبت کی دلیل ہے، کیونکہ کسی سے محبت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے محبت کی جائے۔ ان پاک ہستیوں کی قدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود آپ ﷺ ان حضرات کی تعظیم و تکریم کرتے اور ان سے محبت رکھنے کی ترغیب دلائی ہے۔ خود اللہ پاک نے قرآن کریم میں ان کی تعریف و توصیف بیان فرمائی ہے۔

اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔اس آیتِ مبارکہ میں حضور ﷺ کے اہلِ بیت کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ انہیں گناہوں سے دور رہنے اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی گئی ہے۔

ایک اور جگہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ(۳۲) (پ17، الحج: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔

مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک کے نشانوں کی تعظیم و تکریم کرنے کی رغبت دلائی گئی ہے کہ جو لوگ شعائر اللہ کا ادب و احترام کرتے ہیں وہ حقیقی تقویٰ و پرہیزگاری والے ہیں۔

اللہ پاک کی نشانیوں کی اپنے قول و عمل بلکہ ہر طریقے سے تعظیم کرنا نہ صرف خوش نصیبی ہے بلکہ یہ تعظیم دلوں میں تقویٰ پیدا کرتی ہے۔

ہر وہ چیز جس کی تعظیم و توقیر کرنا اللہ پاک کی عبادت بن جائے وہ شعائر اللہ ہے۔ شعائر شعر کی جمع ہے، جس کا لغوی معنیٰ معرفت و پہچان کے ہیں۔

اصطلاح میں محبوب و پسندیدہ ضروری اشیاء یا شخصیات کو شعار کہا جاتا ہے۔ یوں وہ تمام اشیاء یا شخصیات جنہیں دیکھ کر خدا کی ذات و صفات اور قدرت ِ کاملہ کی پہچان حاصل ہو، شعائر اللہ ہے۔ قرآن و احادیث میں کئی چیزوں کو شعائر اللہ کہا گیا ہے، جن میں اہلِ بیتِ کرام کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔

اہلِ بیت کی تعظیم کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی سیرتِ طیبہ پر عمل کیا جائے، ان کا ادب و احترام کیا جائے، ان سے محبت کی جائے۔

حدیثِ پاک میں آقا ﷺ نے کتاب اللہ کی عظمت بیان فرمانے کے بعد حضور ﷺ نے دوسری چیز بیان فرمائی کہ وہ میرے اہلِ بیت ہیں اور میں تمہیں ان کے بارے میں اللہ پاک سے ڈراتا ہوں۔

امام شرفُ الدین حسین بن محمد طیبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: معنیٰ یہ ہے کہ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کی شان کے حوالے سے اللہ پاک سے ڈراتا ہوں اور تم سے کہتا ہوں کہ تم اللہ پاک سے ڈرو، انہیں ایذا نہ دو، بلکہ ان کی حفاظت کرو۔ (شرح الطیبی،11/196)

قرآن مجید میں حضور ﷺ کے اہلِ بیت کی فضیلت اور ان کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔

اہلِ بیت کے حقوق:

(1) اہلِ بیت کی تعظیم، ادب واحترام اور ان سے محبت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔

(2) اہلِ بیت کی تعظیم میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی سیرت پر عمل کیا جائے اور ان کی اتباع کی جائے۔

(3) اہلِ بیت کے بغض سے اپنے دلوں کو پاک رکھنا۔اور کسی ایک کے بارے میں بھی ہمارے دل میں بغض ہوگا تو قیامت والے دن ہماری کسی صورت نجات نہیں ہوسکے گی

(4) ان حضرات کے مقامات کو سمجھنا۔

(5) ان کو اپنے لئے مشعلِ راہ بناکر اپنی زندگی کو گزارنے کے اصول بنائے جائیں۔

(6) ان پر درود و سلام پڑھنا۔

اللہ پاک ہم سب کو اہلِ بیت کا ادب و احترام اور ان کی سیرتِ طیبہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


(1) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤ! میرا جامہ دان جس سے میں آرام پاتا ہوں میرے اہلِ بیت ہیں اور میری جماعت انصار ہیں۔ ان کے بروں کو معاف کردو اور ان کے نیکو کاروں سے (اچھائی کو) قبول کرو۔ (ترمذی، 5/714، حدیث: 3904)

(2) حضور نبیِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بےشک میں تم میں دو نائب چھوڑ کر جارہا ہوں، ایک اللہ پاک کی کتاب جو آسمان اور زمین کے درمیان پھیلی ہوئی رسی (کی طرح) ہے۔ اور میری عترت یعنی اہلِ بیت، اور یہ کہ یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہ ہوں گے جب تک یہ میرے پاس حوضِ کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔ (معجم کبیر، 3/65، حدیث: 2679)

(3) حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبیِ کریم ﷺ نے مکہ فتح کیا، پھر طائف کا رخ کیا اور اس کا آٹھ یا سات دن محاصرہ کئے رکھا، پھر صبح یا شام کے وقت اس میں داخل ہوگئے، پھر پڑاؤ کیا، پھر ہجرت فرمائی اور فرمایا: اے لوگو! بےشک میں تمہارے لئے تم سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا اور بےشک میں تمہیں اپنی عترت کے ساتھ نیکی کی وصیت کرتا ہوں اور بےشک تمہارا ٹھکانہ حوض ہوگا۔ (مستدرک، 2/13، حدیث: 2559)

(4) حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جانے والا ہوں اور اگر تم ان کی اتباع کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اور وہ دو چیزیں کتاب اللہ اور میرے اہلِ بیت ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو میں مومنین کی جانوں سے بڑھ کر ان کو عزیز ہوں۔ آپ ﷺ نے ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم نے عرض کیا: ہاں یارسول اللہ! تو حضور نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا: جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اس کا مولیٰ ہے۔ ( المستدرک، 3/118، حدیث: 4577)

(5) حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا: پس یہ دیکھو کہ تم دو بھاری چیزوں میں مجھے کیسے باقی رکھتے ہو۔ پس ایک ندا دینے والے نے ندا دی، یا رسول اللہ! وہ دو بھاری چیزیں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک کی کتاب، جس کا ایک کنارا اللہ پاک کے ہاتھ میں اور دوسرا کنارا تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ پس اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اور دوسری چیز میری عترت ہے۔اور بےشک اس لطیف خبیر ربّ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں چیزیں کبھی بھی جدا نہیں ہوں گی اور ایسا ان کے لئے میں نے اپنے ربّ سے مانگا ہے۔ پس تم لوگ ان پر پیش قدمی نہ کرو کہ ہلاک ہوجاؤ اور نہ ان کو سیکھاؤ، کیونکہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔

پھر آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہُ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا: پس میں جس کی جان سے بڑھ کر اسے عزیز ہوں تو یہ علی اس کا مولیٰ ہے۔ اے اللہ! جو علی کو اپنا دوست رکھتا ہے تو اسے اپنا دوست رکھ اور جو علی سے عداوت رکھتا ہے تو اس سے عداوت رکھ۔ (معجم کبیر، 5/166، حدیث: 4971)


مسلمانوں کے دلوں میں جہاں صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کی محبت دینِ اسلام کے لئے ضروری ہے وہیں حضور ﷺ کے گھرانے اہلِ بیت ِ اطہار رضی اللہُ عنہم سے محبت و عقیدت بھی دینِ اسلام کا حصہ ہے۔ آقا ﷺ نے جہاں اپنےا صحاب کے بارے میں فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤ گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018) وہیں اپنی آل کے لئے بھی فرمایا:میرے اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔(مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

اہلِ بیت ِ اطہار کے فضائل و مناقب: حضور ﷺ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤ! میرا پیراہن جس سے میں آرام پاتا ہوں میرے اہلِ بیت ہیں اور میری جماعت انصار ہے۔ ان کے بروں کو معاف کردو اور ان کے نیکو کاروں سے (اچھائی کو ) قبول کرو۔ (ترمذی، 5/714، حدیث: 3904)

حضور ﷺ نے فرمایا:بےشک میں تم میں دو نائب چھوڑ کر جارہا ہوں، ایک اللہ پاک کی کتاب جو کہ آسمان وز مین کے درمیان پھیلی ہوئی رسی (کی طرح) ہے اور میری عترت یعنی میرے اہلِ بیت اور یہ کہ یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہیں ہوں گے جب تک یہ میرے پاس حوضِ کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔ (معجم کبیر، 3/65، حدیث: 2679)

انسان تمام اعمالِ دینی و دنیوی کو اس واسطے انجام دیتا ہے کہ وہ کامیاب ہوجائے اور اس کے لئے ساری محنتیں اور مشقتیں اور رات کا بعض حصہ محنت و مزدوری میں لگا دیتا ہے، بعض مرتبہ اپنے گھر اور وطن سے دور اجنبی ملک و ماحول میں بے یار و مددگار کامیابی کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ اسی کے ساتھ اگر مزاج میں دین و ایمان کی حرارت باقی ہے تو نماز، روزہ اور دیگر احکامِ اسلام کی پابندی بھی کرتا ہے، اس کے باوجود پورے یقین کے ساتھ یہ بات نہیں کہی جاسکتی ہے کہ اس کے سارے اعمال اور احکام اللہ پاک کے نزدیک قابلِ قبول ہے۔ لیکن صحابہ وہ لوگ ہیں جن کے ایمان و اعمال کو اور ان کی محنتوں کو اللہ پاک زندگی میں ہی قبول کرلیا، اور کامیابی کا پروانہ ان کو عطا کردیا اور دخولِ جنت کی بشارت سنا دی۔ چنانچہ قرآن نے صحابہ کے ایمان و اعمال کی قبولیت کو اور کامیابی کے ساتھ دخولِ جنت کو اس طرح بیان کیا ہے:فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) (پ7، الاعرف: 157) ترجمہ کنز الایمان: جو ان پر تھے اُتارے گا تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔

اسی طرح صحابہ کے سبقتِ ایمانی اور تقربِ خداوندی کو بتلاتے ہوئے قرآن کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ السّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَۚۙ(۱۰) اُولٰٓىٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَۚ(۱۱) فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(۱۲) (پ28، الواقعہ: 10-12) ترجمہ: اور آگے بڑھ جانے والے (ان کا کیا کہنا کہ) وہ تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں جن کو اللہ سے خصوصی نزدیکی حاصل ہوگی وہ نعمتوں والے باغات میں ہوں گے۔

صحابہ کرام کو برا کہنے والوں پر اللہ کی لعنت حدیث کی روشنی میں:

جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سے جو برا (یعنی صحابہ کو برا کہتا) ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ (ترمذی)

آپ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، پس تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کرو گے تو ہدایت پالو گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018)

ہیں مثل ستاروں کے میری بزم کے ساتھی اصحاب کے بارے میں یہ فرمایا نبی نے

ہیں آپ کے ہاتھوں ہی سے ترشے ہوئے ہیرے اسلام کے دامن میں یہ تابندہ نگینے

اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں صحابہ و اہلِ بیت سے محبت کرنے والا بنادے۔ 


پیارے آقا ﷺ کے گھر والے بہت نیک و پرہیزگار اور عبادت گزار تھے۔ ہر وقت اللہ پاک کی اطاعت میں مصروف رہتے۔ ان سب کا کوئی بھی کام دنیا یا نفس کے لئے نہیں بلکہ اللہ پاک کی رضا کے لئے تھا۔ آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا کو جنتی عورتوں کی سردار کا لقب ملا اور آپ کے بیٹے اور پیارے آقا کے نواسے جنتی نوجوانوں کے سردار ہوں گے۔ اور آپ ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا کی شان اور پاکدامنی میں اللہ پاک نے 18 آیات نازل فرمائیں۔ اور آپ رضی اللہُ عنہا کے والدِ محترم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کو قرآن مجید میں فضل والا فرمایا گیا۔ نیز آپ ﷺ کے گھرانے کا ایک ایک فرد صاحبِ کرامت اور اللہ پاک کا مقرب بندہ ہے، چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

(1) اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔اس آیتِ مبارکہ کو آیتِ تطہیر کہتے ہیں۔ حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس طرح کہ تم کو گناہوں اور بد اخلاقیوں کی نجاست میں آلودہ نہ ہونے دے۔ مطلب یہ نہیں کہ معاذ اللہ اب تک گناہ تھے، اب پاکی عطا ہوئی۔ اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ حضور ﷺ کی ازواج و اولاد گناہوں سے پاک ہیں۔ دوسرے یہ کہ ازواجِ مطہرات یقیناً حضور ﷺ کے اہلِ بیت ہیں، کیونکہ یہ تمام آیات ازواج سے مخاطب ہیں۔

(2) یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ (پ22، الاحزاب: 32) ترجمہ کنز الایمان: اے نبی کی بیبیو تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو۔

صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی تمہارا مرتبہ سب سے زیادہ ہے اور تمہارا اجر سب سے بڑھ کر، جہاں کی عورتوں میں کوئی تمہاری ہمسر نہیں۔

اب اہلِ بیت کے کچھ آداب و حقوق ملاحظہ ہوں:

اکابر سلف و خلف اہلِ بیت کی کمال محبت پر کاربند رہے ہیں۔ سیدِ اکابر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسولِ اکرم ﷺ کے رشتے داروں کی خدمت اپنے رشتے داروں کی صلہ رحمی سے زیادہ محبوب ہے۔ (بخاری، 2/438، حدیث: 3712)

امام بخاری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: نبیِ اکرم ﷺ کےاحترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا حترام کرو۔(بخاری، 2/438، حدیث: 3713)

امام طبرانی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہ سے روای ہیں: نبیِ اکرم ﷺ نے جو آخری بات کہی وہ یہ تھی کہ میرے اہلِ بیت کے ساتھ اچھا معاملہ کرو۔ (سیرتِ فاطمہ الزہرا، ص 177)

نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ، اپنے نبی کی محبت، نبی کے اہلِ بیت سے محبت اور قرآن مجید پڑھنا۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)

نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو میرے بعد میرے اہل سے اچھا ہوگا۔ (مستدرک، 4/369، حدیث: 5410)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: اہلِ بیت کی ایک دن محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ (الشرف الموبد، ص 92)


مسلمانوں کے دلوں میں صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کی محبت دینِ اسلام کے لئے ضروری ہے، وہیں حضور ﷺ کے گھرانے اہلِ بیت ِ اطہار رضی اللہُ عنہم سے محبت و عقیدت بھی دینِ اسلام کا حصہ ہے۔ آقا ﷺ نے جہاں اپنے اصحاب کے بارے میں فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤ گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018) وہیں اپنی آل کے لئے بھی فرمایا:میرے اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

اہلِ بیت سے مراد کون: خزائن العرفان میں ہے: اوراہلِ بیت میں نبی کریم ﷺ کے ازواجِ مطہرات اور حضرت خاتونِ جنّت فاطمہ زہرا اور علیِ مرتضٰی اور حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہم سب داخل ہیں، آیات و احادیث کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے ۔ (خزائن العرفان، ص780)

امام طبری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اے آلِ محمد! اللہ پاک چاہتا ہے کہ تم سے بری باتوں اور فحش یعنی گندی چیزوں کو دور رکھے اور تمہیں گناہوں کے میل کچیل سے پاک و صاف کردے۔ (تفسیر طبری، 1/296)

شانِ اہلِ بیت: حضرت علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یہ آیتِ کریمہ اہلِ بیت کے فضائل کا منبع یعنی سرچشمہ ہے، اس سے ان کے اعزازِ ماثر یعنی بلند مقام اور علوِ شان یعنی اونچی شان کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تمام اخلاقِ دنیہ یعنی گھٹیا اخلاق و احوالِ مذمومہ یعنی ناپسندیدہ حالتوں سے ان کی تطہیر یعنی پاکی فرمائی گئی۔ بعض احادیث میں مروی ہے کہ اہلِ بیت نار یعنی جہنم پر حرام ہیں اور یہی اس تطہیر کا فائدہ اور ثمرہ ہے، اور جو چیز ان کے احوال شریف یعنی شرافت والی حالتوں کے لائق نہ ہو اس سے ان کا پروردگار انہیں محفوظ رکھتا اور بچاتا ہے۔ (سوانح کربلا، ص 82)

احادیثِ مبارکہ:

(1) جس نے ہمارے اہلِ بیت سے بغض رکھا وہ منافق ہے۔ (فضائلِ صحابہ لامام احمد، 2/661، حدیث: 1126)

(2) میں تم سے دو چیزوں کا سوال کرتا ہوں، قرآن کریم اور میری آل (کی عزت و حرمت کا)۔ (حلیۃ الاولیاء، 5/73، حدیث: 13103)

(3) سب سے پہلے میرے حوض (یعنی حوضِ کوثر) پر آنے والے میرے اہلِ بیت ہوں گے۔ (السنۃ لابن ابی عاصم، ص 173، حدیث: 766)

(4) تم میں سے پلِ صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔(جمع الجوامع، 1/86،حدیث:454)

اہلِ بیت سے بغض رکھنے والا: حضور نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ہم اہلِ بیت سے جو آدمی بھی بغض رکھے گا تو اللہ پاک ضرور اسے (جہنم کی) آگ میں داخل کرے گا۔ (مستدرک،4/131،حدیث:4771)


اہلِ بیت سے محبت ایمان کی نشانی ہے۔ اہلِ بیت سے محبت بھی ان کے حقوق میں شامل ہے۔ اہلِ بیت کے حقوق ہیں کہ دل و جان سے بڑھ کر ان سے محبت کی جائے، ان کی تعظیم کی جائے اور اگر کوئی ان کے خلاف بات کرے تو اس کو منع کیا جائے، ان کی بے حرمتی نہ کی جائے، اہلِ بیت سے بغض یا نفرت نہ کی جائے، ان کی عزت کا دفاع کیا جائے۔ اس کے متعلق احادیث ِ مبارکہ ہیں:

رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ہم اہلِ بیت سے جو آدمی بھی بغض رکھے گا تو اللہ پاک ضرور اسے (جہنم کی) آگ میں داخل کرے گا۔ (ابنِ حبان )

اہلِ بیت سے مراد کون؟: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں: اللہ کی کتاب اور میرے اہلِ بیت۔ تین بار فرمایا: میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ پاک کا خوف دلاتا ہوں۔ حصین نے پوچھا: اے زید! آپ ﷺ کے اہلِ بیت کون سے ہیں، کیا آپ کی ازواجِ مطہرات بھی اہلِ بیت ہیں؟ حضرت زید رضی اللہُ عنہ نے کہا: ازواجِ مطہرات بھی اہلِ بیت میں داخل ہوں۔ اہلِ بیت وہ ہیں جن پر زکوۃ حرام ہے۔ حصین نے کہا: وہ کون لوگ ہیں؟ حضرت زید رضی اللہُ عنہ نے کہا: وہ عقیل، جعفر اور عباس رضی اللہُ عنہم کی اولاد ہیں۔ (مسلم)

اہلِ بیت سے بدسلوکی کرنے والے کا حال: نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے میرے اہلِ بیت سے بدسلوکی کی اس کی عمر کم ہوجائے گی اور بروزِ قیامت سیاہ چہرے سے محشور ہوگا۔ (صواعقِ محرقہ، ص 186)

اہلِ بیت سے متعلق احادیث: حضور ﷺ نے فرمایا:خدا کا غضب بڑھ جاتا ہے اس شخص پر جو کہ مجھے میری عترت (اولاد) کے بارے میں ایذا دیتا ہے۔ (ارجح المطالب ص 435)

حضور ﷺ نے فرمایا: جو شخص اولادِ عبد المطلب میں کسی کے ساتھ دنیا میں بھلائی کرے گا اس کا بدلہ دینا مجھ پر لازم ہے، جب وہ روزِ قیامت مجھ سے ملے گا۔ (تاریخ بغداد، 1/102)

حضور ﷺ نے فرمایا: سب سے پہلے میرے حوض (حوضِ کوثر) پر آنے والے میرے اہلِ بیت ہوں گے۔ (السنۃ لابن ابی عاصم، ص 173، حدیث: 766)

اہلِ بیت سے محبت اور ان کی عزت: اہلِ بیت سے محبت، ان کی عزت، ان کی اطاعت کرنا بھی ان کے حقوق میں شامل ہے۔ اور ان کی شان بیان کرنا اور اگر کوئی معاذ اللہ ان کی شان کے متعلق کچھ کفر بکے تو ان کی عزت و شان کا دفاع کرنا۔ اہلِ بیت کی اہمیت اور عظمت ہمارے مسلمان ہونے کے لئے بہت ضروری ہے۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ اہلِ بیت کے حقوق اچھے طریقے سے نبھائے۔ یہ بھی اہلِ بیت کے حقوق میں سے حق ہے کہ دل وجان اہلِ بیت پر قربان کردے۔ دل وجان سے بڑھ کر ان سے محبت، ان کی عزت اور ان کی اطاعت کرے۔

حضور ﷺ نے فرمایا: تم میں سے پلِ صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے صحابہ اور اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔ (جمع الجوامع، 1/86،حدیث:454)

آل و اصحاب سے محبت ہے اور سب اولیا سے الفت ہے

یہ سب اللہ کی عنات ہے مل گئی مصطفےٰ کی امت ہے

قیامت کے دن چار بندوں کی شفاعت: حضور ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن چار بندوں کی شفاعت کروں گا (1) میری آل کی عزت و تعظیم کرنے والا، (2) میری آل کی ضروریات پورا کرنے والا، (3) میری آل کی پریشانی میں ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے والا، (4 ) اپنے دل و زبان سے میری آل سے محبت کرنے والا۔ (جمع الجوامع، 1/48)

دعا: اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت سے محبت، ان کی تعظیم، ان کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں دل و جان ان پر قربان کرنے والا بنا۔ آمین