مسلمانوں کے دلوں میں جہاں صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کی محبت دینِ اسلام کے لئے ضروری ہے وہیں حضور ﷺ کے گھرانے اہلِ بیت ِ اطہار رضی اللہُ عنہم سے محبت و عقیدت بھی دینِ اسلام کا حصہ ہے۔ آقا ﷺ نے جہاں اپنےا صحاب کے بارے میں فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤ گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018) وہیں اپنی آل کے لئے بھی فرمایا:میرے اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔(مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

اہلِ بیت ِ اطہار کے فضائل و مناقب: حضور ﷺ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤ! میرا پیراہن جس سے میں آرام پاتا ہوں میرے اہلِ بیت ہیں اور میری جماعت انصار ہے۔ ان کے بروں کو معاف کردو اور ان کے نیکو کاروں سے (اچھائی کو ) قبول کرو۔ (ترمذی، 5/714، حدیث: 3904)

حضور ﷺ نے فرمایا:بےشک میں تم میں دو نائب چھوڑ کر جارہا ہوں، ایک اللہ پاک کی کتاب جو کہ آسمان وز مین کے درمیان پھیلی ہوئی رسی (کی طرح) ہے اور میری عترت یعنی میرے اہلِ بیت اور یہ کہ یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہیں ہوں گے جب تک یہ میرے پاس حوضِ کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔ (معجم کبیر، 3/65، حدیث: 2679)

انسان تمام اعمالِ دینی و دنیوی کو اس واسطے انجام دیتا ہے کہ وہ کامیاب ہوجائے اور اس کے لئے ساری محنتیں اور مشقتیں اور رات کا بعض حصہ محنت و مزدوری میں لگا دیتا ہے، بعض مرتبہ اپنے گھر اور وطن سے دور اجنبی ملک و ماحول میں بے یار و مددگار کامیابی کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ اسی کے ساتھ اگر مزاج میں دین و ایمان کی حرارت باقی ہے تو نماز، روزہ اور دیگر احکامِ اسلام کی پابندی بھی کرتا ہے، اس کے باوجود پورے یقین کے ساتھ یہ بات نہیں کہی جاسکتی ہے کہ اس کے سارے اعمال اور احکام اللہ پاک کے نزدیک قابلِ قبول ہے۔ لیکن صحابہ وہ لوگ ہیں جن کے ایمان و اعمال کو اور ان کی محنتوں کو اللہ پاک زندگی میں ہی قبول کرلیا، اور کامیابی کا پروانہ ان کو عطا کردیا اور دخولِ جنت کی بشارت سنا دی۔ چنانچہ قرآن نے صحابہ کے ایمان و اعمال کی قبولیت کو اور کامیابی کے ساتھ دخولِ جنت کو اس طرح بیان کیا ہے:فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) (پ7، الاعرف: 157) ترجمہ کنز الایمان: جو ان پر تھے اُتارے گا تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔

اسی طرح صحابہ کے سبقتِ ایمانی اور تقربِ خداوندی کو بتلاتے ہوئے قرآن کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ السّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَۚۙ(۱۰) اُولٰٓىٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَۚ(۱۱) فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(۱۲) (پ28، الواقعہ: 10-12) ترجمہ: اور آگے بڑھ جانے والے (ان کا کیا کہنا کہ) وہ تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں جن کو اللہ سے خصوصی نزدیکی حاصل ہوگی وہ نعمتوں والے باغات میں ہوں گے۔

صحابہ کرام کو برا کہنے والوں پر اللہ کی لعنت حدیث کی روشنی میں:

جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سے جو برا (یعنی صحابہ کو برا کہتا) ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ (ترمذی)

آپ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، پس تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کرو گے تو ہدایت پالو گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018)

ہیں مثل ستاروں کے میری بزم کے ساتھی اصحاب کے بارے میں یہ فرمایا نبی نے

ہیں آپ کے ہاتھوں ہی سے ترشے ہوئے ہیرے اسلام کے دامن میں یہ تابندہ نگینے

اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں صحابہ و اہلِ بیت سے محبت کرنے والا بنادے۔