اہلِ بیت سے محبت ایمان کی نشانی ہے، اہلِ بیت سے محبت بھی ان کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔ اہلِ بیت کے حقوق ہیں کہ دل و جان، مال و اولاد، ماں باپ اور ہر ایک چیز سے بڑھ کر ان سے محبت کی جائے۔ ان کی عزت و احترام کیا جائے۔ اگر کوئی بھی شخص ان کے بارے میں کوئی غلط بات کرے تو اس شخص کو منع کیا جائے۔ ان کی بےحرمتی کرنے اور کروانے سے بچے۔ ان سے بغض، نفرت نہ کی جائے۔ ان کی عزت کا دفاع کرے وہ چاہے مال کے ذریعے ہو یا جان کے ذریعے، لیکن ہر حال میں ان کی عزت کا دفاع کیا جائے۔

اہلِ بیت سے مراد: علمائے کرام فرماتے ہیں: اہلِ بیت دونوں قسموں یعنی نبیِ اکرم ﷺ کے کاشانۂ مبارک میں رہنے والوں اور آپ ﷺ سے نسبتی تعلق رکھنے والوں کو شامل ہے۔ پس نبیِ اکرم ﷺ کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیتِ سکنیٰ ہیں۔ یعنی حضور ﷺ کے گھر رہنے والیاں ہیں۔ آپ ﷺ کے رشتے دار اہلِ بیتِ نسب ہیں۔ (عقائد ومسائل،ص86) قرآن پاک میں سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 میں ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہِ علیہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہُ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیتِ مبارکہ حضور ﷺ، حضرت علی رضی اللہُ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا، حضرت حسن رضی اللہُ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہُ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔

حقوقِ اہلِ بیت:

(1)نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: ہم تمہارے درمیان وہ شے چھوڑ کر جارہے ہیں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو ہمارے بعد ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: اللہ پاک کی کتاب جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور ہماری اولاد اور اہلِ بیت۔ یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ دونوں ہمارے پاس حوض ِ کوثر پر آئیں گے۔ تم دیکھو کہ ان کے ساتھ ہمارے بعد کیسا معاملہ کرتے ہو۔ (المستدرک، 3/10)

(2)نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: تمہارے درمیان ہمارے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور سوار نہیں ہوا غرق ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہے جو میرے بعد میرے اہلِ بیت کے لئے بہتر ہے۔ (مستدرک، 4/369، حدیث: 5410)

(4) حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ عطا کروں گا۔(تاریخ ابن عساکر، 45/303، رقم: 5254)

(5) حضور ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: نبیِ کریم ﷺ کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن کی محبت۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)

(6) حضور پر نور ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن چار طرح کے لوگوں کی شفاعت کروں گا: میری آل کی عزت و تعظیم کرنے والا، میری آل کی پریشانی میں ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے والا، میری آل کی ضروریات پوری کرنے والا اور اپنے دل و زبان سے میری آل سے محبت کرنے والا۔ (جمع الجوامع، 1/48)

درسِ محبت: امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ ہمیں اہلِ بیت کی محبت سکھاتے ہوئے فرماتے ہیں:

یَا اَہلَ بَیت ِرَسُول ِاللہِ حُبُّکُمْ فُرِضَ مِنَ اللہِ فِی الْقُرآنِ اَنْزلَہُ

اے رسول اللہ کے اہلِ بیت! تمہاری محبت اللہ پاک کی طرف سے فرض ہے۔ (شعب الایمان، 2/419)


یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ جس سے عشق ہوتا ہے اس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز مثلاً محبوب کے گھر، اس کے درو ودیوار، محبوب کی گلی کوچوں، اس کی آل اولاد وغیرہ سے بھی عقیدت و محبت کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ پھر ذرا سوچئے کہ جو عشقِ نبی میں گم ہو وہ آپ ﷺ کی آل اور اہلِ بیت رضی اللہُ عنہم سے محبت کیوں نہ رکھے گا کہ ان حضرات سے محبت رکھنے کا مطالبہ تو قرآن کریم بھی ہم سے فرمارہا ہے۔

قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔

وضاحت: بیان کردہ آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: قربیٰ سے مراد ساداتِ کرام و اہلِ بیت عظام رضی اللہُ عنہم ہیں۔

الحمد للہ! اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہُ عنہم اور ساداتِ کرام وہ مقدس ہستیاں ہیں کہ ان سے محبت رکھنا اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کے فضائل و مناقب احادیثِ مبارکہ میں بھی آئے ہیں۔

اہلِ بیتِ اطہار سے حسنِ سلوک کی فضیلت: سراپا نور، تمام نبیوں کے سالار ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا صلہ اسے عطا کروں گا۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: کوئی بندہ اسی وقت ہم پر ایمان لاسکتا ہے جب ہم سے محبت کرے گا اور ہمارے ساتھ اسی وقت محبت کرے گا جب ہمارے اہلِ بیت سے محبت کرے گا۔

امام دیلمی روایت کرتے ہیں: نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو: اپنے نبی ِ اکرم کی محبت، نبیِ اکرم کے اہلِ بیت کی محبت اور قرآن پاک کی تلاوت۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)

امام ترمذی رحمۃُ اللہِ علیہ اور امام حاکم رحمۃُ اللہِ علیہ حضرت عباس رضی اللہُ عنہ سے روایت کرتے ہیں: نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک سے محبت رکھو، کیونکہ وہ تمہیں بطورِ عذا نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ اور اللہ پاک کی محبت کی بناء پر مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی بناء پر اہلِ بیت سے محبت رکھو۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/443، حدیث: 6182)

ہم سب پر یہ حق ہے کہ جب اہلِ بیت کا ذکر ہو صرف خیر و بھلائی، نیک دعاؤں کے ساتھ ہو۔

امام طبرانی رحمۃُ اللہِ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر نے فرمایا: نبیِ اکرم ﷺ کا آخری کلام یہ تھا کہ ہمارے اہلِ بیت کے بارے میں ہمارے اچھے خلیفہ بننا۔ (عقائد و مسائل،ص 86)

ان احادیثِ مبارکہ سے یہ معلوم ہوا کہ آلِ رسول کے ساتھ محبت و حسنِ سلوک کرنا اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول، رسولِ مقبول ﷺ کو محبوب ہے۔

الحمد للہ ! ہمارے بزرگانِ دین رحمۃُ اللہِ علیہم ایسےعاشقِ رسول تھے کہ جن کی ہر ادا سے ادب و تعظیم کا ظہور ہوتا تھا۔ عشقِ رسول جن کا قیمتی سرمایہ اور آلِ رسول کی محبت ان کے لئے روحانی آکسیجن کی حیثیت رکھتی تھی۔ ہمارے گزرگان دین اہلِ بیتِ ا طہار رضی اللہُ عنہم اور ساداتِ کرام کا بہت ادب و احترام اور ان کی خدمت بجالاتے تھے۔

صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم بھی اہلِ بیت سے کثیر محبت فرماتے تھے۔

یاد رہے کہ اہلِ بیت میں نبیِ اکرم ﷺ کی تمام اولاد اور ازواجِ مطہرات بھی شامل ہیں۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اہلِ بیت کے معنی ہیں، گھر والے، اہلِ بیتِ رسول چند معنیٰ میں آتا ہے: (1) جن پر زکوۃ لینا حرام ہے یعنی بنی ہاشم عباس، علی، جعفر، عقیل، حارث کی اولاد، (2) حضور ﷺ کے گھر میں پیدا ہونے والے یعنی اولاد، (3) حضور ﷺ کے گھر میں رہنے والے جیسےا زواجِ پاک۔ (مراۃ المناجیح، 8/450)

کیوں نہ ہو رتبہ بڑا، اصحاب و اہلِ بیت کا ہے خدائے مصطفیٰ، اصحاب و اہلِ بیت کا

صحابہ کا گدا ہوں اور اہلِ بیت کا خادم یہ سب ہے آپ ہی کی تو عنایت یا رسول اللہ

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اہلِ بیت اور ساداتِ کرام کی تعظیم فرض ہے اور ان کی توہین حرام ہے۔ (اسلامی بیانات،4/139)

اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ اگر وہ دین و دنیا اور آخرت کی بھلائی و نجات چاہتا ہے تو اہلِ بیت کی توہین سے ہمیشہ بچتا رہے۔ جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: آگاہ رہو کہ تم میں میرے اہلِ بیت کی مثال جضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

اس حدیثِ پاک کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جیسے طوفانِ نوح کے وقت ذریعۂ نجات صرف کشتیِ نوح علیہ السّلام تھی ایسے ہی تاقیامت ذریعۂ نجات صرف محبتِ اہلِ بیت اور ان کی اطاعت، ان کی اتباع ہے۔ بغیر اطاعت و اتباع دعویِٰ محبت بےکار ہے۔ 


اللہ پاک پارہ 22 سورۂ احزاب آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

اہلِ بیت سے مراد کون لوگ ہیں؟اوپر بیان کردہ آیت کے تحت خزائن العرفان میں ہے: اہلِ بیت میں نبیِ کریم ﷺ کی ازواجِ مطہرات اور حضرت خاتونِ جنت فاطمہ زہرا اور علی مرتضی اور امام حسن و امام حسین رضی اللہُ عنہم سب شامل ہیں۔

اسی آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ طبری میں امام طبری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اے آلِ محمد ﷺ! اللہ پاک چاہتا ہے کہ تم سے بری باتوں اور فحش (یعنی گندی) چیزوں کو دور رکھے اور تمہیں گناہوں کے میل کچیل سے پاک صاف کردے۔ (تفسیر طبری، 10/296)

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت

اہلِ بیت نجات کا ذریعہ: فرمانِ آخری نبی ﷺ ہے: تمہارے درمیان ہمارے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور سوار نہیں ہوا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:

اہلِ سنت کا ہے بیڑا پار اصحابِ حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

اہلِ بیت سے محبت:نبیِ مہربان ﷺ کا فرمان ہے: اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: جس نے ہمارے اہلِ بیت سے بغض رکھا وہ منافق ہے۔ (فضائلِ صحابہ لامام احمد، 2/661، حدیث: 1126)

سیدوں کا ادب: محبانِ رسول ﷺ کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ آل رسول و اہلِ بیت کا ادب و احترام کریں، بلکہ اہلِ بیت یہ حق رکھتے ہیں کہ ان کی تعظیم کی جائے، ادب کیا جائے، ذکرِ خیرِ محبت کو احترام کے ساتھ کیا جائے۔ چنانچہ حضرت علی خواص رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بعض اہلِ علم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ ساداتِ کرام اگرچہ نسب میں رسول اللہ ﷺ سے کتنے ہی دور ہوں، ان کا ہم پر حق ہے کہ اپنی خواہشوں پر ان کی رضا کو مقدم کریں اور ان کی بھر پور تعظیم کریں اور جب یہ حضرات زمین پر تشریف فرماہوں تو اونچی جگہ (کرسی، صوفے وغیرہ)پر نہ بیٹھیں۔ (نور الابصار، ص129)

تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا

فضائلِ اہلِ بیت:

(1) میرے اہلِ بیت میری امت کے لئے امان و سلامتی ہیں۔ (نوادر الاصول، 5/130، حدیث: 1133)

(2) حسن و حسین دنیا میں میرے پھول ہیں۔ (بخاری، 2/547، حدیث: 3753)

(3) حسن و حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔ (ترمذی، 5/426، حدیث: 3793)

(4) جس نے ان دونوں حسنین کریمین سے محبت کی اور ان کے والدین سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجے میں ہوگا۔ (معجم کبیر، 3/55)

کس زباں سے ہو بیان عز و شان اہلِ بیت مدح گوئے مصطفےٰ ہے مدح خوانِ اہلِ بیت

اہلِ بیت سے محبت کامل ایمان کا جز ء اور نبیِ مہربان ﷺ سے سچی محبت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ نبیِ کریم ﷺ کی ازواجِ مطہرات مومنین کی مائیں ہیں۔ ان سے محبت، تعظم اور ادب و احترام ضروری ہے۔ اہلِ بیت و اصحابِ رسول سے محبت ایمان کی نشانی ہے اور ان کا حق ہے کہ ان معززین کی تعظیم کی جائے اور ادب و احترام کیا جائے، محبت کی جائے۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اعلیٰ درجے کی محبتِ اہلِ بیت عطا فرما، بے ادبوں اور گمراہوں سے محفوظ رکھتے ہوئے محبانِ رسول و اہلِ بیت و اصحاب میں شامل فرما، ایمان پر خاتمہ فرما اور ان کے ساتھ بروزِ حشر اٹھانا۔ آمین ثم آمین


ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اہلِ بیت سے محبت کرے اور دل و جان سے ان کی تعظیم بجا لائے اور جب بھی ان کا ذکر کیا جائے ہمیشہ ذکرِ خیر ہی کرے۔

اہلِ بیت سے مراد کون؟: علمائے کرام فرماتے ہیں: اہلِ بیت دونوں قسموں یعنی نبیِ اکرم ﷺ کے کاشانۂ مبارک میں رہنے والوں اور آپ ﷺ سے نسبتی تعلق رکھنے والوں کو شامل ہے۔ پس نبیِ اکرم ﷺ کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیتِ سکنیٰ ہیں۔ یعنی حضور ﷺ کے گھر رہنے والیاں ہیں۔ آپ ﷺ کے رشتے دار اہلِ بیتِ نسب ہیں۔ (عقائد ومسائل،ص86)قرآن پاک میں سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 میں ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہِ علیہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہُ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیتِ مبارکہ حضور ﷺ، حضرت علی رضی اللہُ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا، حضرت حسن رضی اللہُ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہُ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔

(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہے جو میرے بعد میرے اہلِ بیت کے لئے بہتر ہے۔(مستدرک، 4/369، حدیث: 5410)

(2) حضور پر نور ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن چار طرح کے لوگوں کی شفاعت کروں گا: میری آل کی عزت و تعظیم کرنے والا، میری آل کی پریشانی میں ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے والا، میری آل کی ضروریات پوری کرنے والا اور اپنے دل و زبان سے میری آل سے محبت کرنے والا۔ (جمع الجوامع، 1/48)

(3) حضور ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: نبیِ کریم ﷺ کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن کی محبت۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)

(4) حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ عطا کروں گا۔(تاریخ ابن عساکر، 45/303، رقم: 5254)

(5) نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: ہم تمہارے درمیان وہ شے چھوڑ کر جارہے ہیں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو ہمارے بعد ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: اللہ پاک کی کتاب جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور ہماری اولاد اور اہلِ بیت۔ یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ دونوں ہمارے پاس حوض ِ کوثر پر آئیں گے۔ تم دیکھو کہ ان کے ساتھ ہمارے بعد کیسا معاملہ کرتے ہو۔ (المستدرک، 3/10)

(6) نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: تمہارے درمیان ہمارے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور سوار نہیں ہوا غرق ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

درسِ محبت: امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ ہمیں اہلِ بیت کی محبت سکھاتے ہوئے فرماتے ہیں:

یَا اَہلَ بَیت ِرَسُول ِاللہِ حُبُّکُمْ فُرِضَ مِنَ اللہِ فِی الْقُرآنِ اَنْزلَہُ

اے رسول اللہ کے اہلِ بیت! تمہاری محبت اللہ پاک کی طرف سے فرض ہے۔ (شعب الایمان، 2/419)


(1) اہلِ بیت کے حقوق میں سے ان کے ساتھ محبت رکھنا۔

(2) ان کی تعظیم کرنا۔

(3)اور ان کے خلاف اگر معاذ اللہ کوئی کلام کرتا ہے تو ان کی عزت و ناموس کا دفاع کرنا۔

(4) اور نماز کے اندر ان پر درود پڑھنا یعنی یہ ایسا حق ہے جو اللہ پاک نے نماز کے اندر ہی رکھ دیا۔

(5) ساداتِ کرام کا ویسے ہی ان کا ادب کیا جائے ویسے ہی ان کی تعظیم کی جائے۔ تکلیف کے اندر ہوں تو ان کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کی جائے، انہیں ایک عزت دی جائے اور انہیں نگاہِ عقیدت و محبت کے ساتھ دیکھا جائے۔

یہ سب حقوقِ اہلِ بیت میں شامل ہیں۔

حبِ اہلِ بیت اطاعتِ خدا ہے: حضرت علی رضی اللہُ عنہ کا ارشاد ہے: محمد ﷺ کا دوست وہ ہے جو خدا کا مطیع ہو اگرچہ ان سے دور کی رشتے داری بھی نہ ہو۔ (جیسے سلمان فارسی رضی اللہُ عنہ اور ابو ذر رضی اللہُ عنہ) اور محمد ﷺ کا دشمن وہ ہے جو خدا کی معصیت کرے خواہ وہ نزدیک کا رشتے دار ہی کیوں نہ ہو(جیسے ابو لہب)۔

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: راہِ فقر میں تمام مقامات اور منازل اہلِ بیت کے وسیلے سے عطا ہوتے ہیں، جو اہلِ بیت کا منکر اور بےادب ہے وہ اسلام سے خارج ہے۔

حضرت حسین بن علی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص ہمارے لئے اپنی آنکھ سے آنسو بہاتا ہے یا ایک قطرہ گراتا ہے تو اللہ پاک اس کے بدلے اسے جنت عطا کرے گا۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اہلِ بیتِ مصطفےٰ ﷺ کی ایک دن کی محبت پورے سال کی عبادت سے بہتر ہے اور جو اسی محبت پر فوت ہوا تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ (الشرف الموبد، ص 92)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)

جسے اہلِ بیت کی محبت مل جائے اسے دونوں جہاں کی عزت مل جائے گی، آخرت میں شفیعِ امت ﷺ کی رفاقت میسر آئے گی اور اہلِ بیت کے صدقے اس کی بخشش و مغفرت ہوجائے گی۔ 


بندۂ مومن کے لئے لازمی ہے کہ وہ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم سے بھی محبت رکھے اور اہلِ بیتِ عظام کا بھی خادم ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم ہمارے پیارے آقا ﷺ کے وفادار ساتھی تھے تو اہلِ بیت عظام رضی اللہُ عنہم آپ ﷺ کی والد ہیں۔ نبیِ پاک ﷺ سے اپنی سچی محبت کا اظہار کرنے کے لئے ہمیں بھی اہلِ بیت عظام سے دل و جان سے محبت کرنی ہے۔

کیونکہ سیدوں کی محبت ایمان کی نشانی ہے۔

سیدوں کی محبت جنت میں لے جانے کا سبب ہے۔

سیدوں کی محبت کی محبت جہنم سے بچائے گی۔

سیدوں کی محبت اللہ پاک اور اس کے حبیب ﷺ کی رضا پانے کا ذریعہ ہے۔۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کے اہلِ بیتِ عظام کی محبت شفاعتِ مصطفےٰ ﷺ حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺ کا فرمانِ شفاعت نشان ہے: جو شخص وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں، تو اسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور انہیں خوش کرے۔ (الشرف المؤبد، ص 54)

مومنِ کامل کون؟: حدیثِ مبارکہ ہے: اس وقت تک کوئی کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہوجائے۔ (شعب الایمان، 2/189، حدیث: 1505)

احادیثِ مبارکہ:

(1) حضور ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)

(2) تمہارے درمیان ہمارے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور سوار نہیں ہوا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

(3) ان لوگوں کا کیا حال ہے جو یہ گمان کرتے ہیں کہ میری قرابت فائدہ نہ دے گی۔ ہر تعلق و رشتہ قیامت میں منقطع ہوجائے گا، سوائے میرے رشتے و تعلق کے، کیونکہ یہ دنیا و آخرت میں جڑا ہوا ہے۔ (مجمع الزوائد، 8/398، حدیث: 3837)

(4) تم میں سے پلِ صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے صحابہ اور اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔ (جمع الجوامع، 1/86،حدیث:454)

(5) تین چیزیں ایسی ہیں جس نے ان کی حفاظت کی اللہ پاک اس کی، اس کے دین و دنیا کے معاملے میں حفاظت فرمائے گا اور جس نے ان کو ضائع کیا اللہ پاک اس کی کسی بھی معاملے میں حفاظت نہیں فرمائے گا۔ اسلام کی عزت و احترام، میری عزت و احترام اور میرے رشتے و قرابت کی عزت و احترام۔(معجم کبیر، 3/126حدیث:2881)

صحابہ کرام اور اہلِ بیتِ مصطفےٰ سے محبت کرنے والوں کے لئے اللہ پاک کے نبی سرورِ کائنات ﷺ نے مغفرت کی دعا ارشاد فرمائی ہے۔ ہمیں بھی چاہئے کہ ان کی شان و عظمت کے ترانے گنگناتے رہیں، ان کی بے ادبی سے بچتے رہیں اور ان کی تعظیم و توقیر بجالاتے رہیں۔

اےکاش! دعائے مصطفےٰ ﷺ میں سے ہمیں بھی حصہ نصیب ہوجائے اور اللہ پاک ان سے محبت کرنے کی برکت سے ہمیں بھی مغفرت یافتہ لوگوں میں شامل فرمالے۔ آمین


قرآن کریم سے فضائلِ اہلِ بیت کا ثبوت: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

اہلِ بیت سے مراد کون؟: اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں ہے: اہلِ بیت میں نبی کریم ﷺ کے ازواجِ مطہرات اور حضرت خاتونِ جنّت فاطمہ زہرا اور علیِ مرتضٰی اور حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہم سب داخل ہیں۔ (خزائن العرفان، ص780)

سواری سے نیچے تشریف لے آتے: آقا ﷺ کے پیارے پیارے چچا جان حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت عمر و عثمان رضی اللہُ عنہم سواری پر حضرت عباس رضی اللہُ عنہ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے تشریف لے آتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہُ عنہ وہاں سے گزر جاتے۔

فضائلِ اہلِ بیت کے متعلق احادیث:

(1) اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)

(2) تمہارے درمیان ہمارے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور سوار نہیں ہوا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

(3) اے فاطمہ! بےشک اللہ پاک تمہیں اور تمہاری اولاد کو عذاب نہیں دے گا۔ (معجم کبیر، 11/210، حدیث: 11685)

(4) بےشک میرے لئے اور میرے اہلِ بیت کے لئے صدقے کا مال حلال نہیں ہے۔

(5) میری شفاعت میری امت کے اس شخص کے لئے ہے جو میرے گھرانے سے محبت رکھنے والا ہو۔ (تاریخِ بغداد، 2/144)

دعا: اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت کی محبت عطا فرمائے، باادب بنائے، ان کے فیض سے حصہ عطا فرمائے، ان کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے۔ 


مسلمانوں کے دلوں میں صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کی محبت دینِ اسلام کے لئے ضروری ہے، وہیں حضور ﷺ کے گھرانے اہلِ بیت ِ اطہار رضی اللہُ عنہم سے محبت و عقیدت بھی دینِ اسلام کا حصہ ہے۔ آقا ﷺ نے جہاں اپنے اصحاب کے بارے میں فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤ گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018) وہیں اپنی آل کے لئے بھی فرمایا:میرے اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

اللہ پاک پارہ 22 سورۂ احزاب آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

اہلِ بیت سے مراد کون؟: خزائن العرفان میں ہے: اوراہلِ بیت میں نبی کریم ﷺ کے ازواجِ مطہرات اور حضرت خاتونِ جنّت فاطمہ زہرا اور علیِ مرتضٰی اور حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہم سب داخل ہیں، آیات و احادیث کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔(خزائن العرفان، ص780)

اہلِ بیت کے حقوق پر فرامینِ مصطفےٰ:

(1) اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: نبیِ کریم ﷺ کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن کی محبت۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)

(2) اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)

(3) اس وقت تک کوئی کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہوجائے۔ (شعب الایمان، 2/189، حدیث: 1505)

(4) جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ عطا کروں گا۔(تاریخ ابن عساکر، 45/303، رقم: 5254)

(5) جو شخص وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں، تو اسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور انہیں خوش کرے۔ (الشرف المؤبد، ص 54)

ان تمام احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اہلِ بیت کی محبت، ان کی تعظیم ہمارے لئے کتنی ضروری ہے، ان کی محبت و تعظیم ہمارے لئے نجات کا باعث ہے، جبکہ ان کا بغض ہمارے لئے بہت برے نقصان کا باعث ہے۔ چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: جس شخص نے میرے اہلِ بیت پر ظلم کیا اور مجھے میری عترت کے بارے میں تکلیف دی اس پر جنت حرام کردی گئی۔ (الشرف الموبد، ص 99)

اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! کسی کے دل میں ایمان داخل نہ ہوگا یہاں تک کہ اللہ و رسول کے لئے تم لوگوں سے محبت کرے۔ (ترمذی، 5/422، حدیث: 3783)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقی معنوں میں صحابہ و اہلِ بیت سے محبت کرنے والا بنا دے۔ آمین


اہلِ بیت کے معنی: گھر والے جبکہ اصطلاح میں اہلِ بیت سے مراد گھر میں رہنے والے سب افراد کے ہیں۔

نبیِ کریم ﷺ کے اہلِ بیت سے مراد: نبیِ کریم ﷺ کے اہلِ بیت کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ (1) بعض علماء کے نزدیک اہلِ بیت سے مراد حضور ﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہُ عَنہُنَّ اہلِ بیتِ سکنیٰ ہیں۔ (2) حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں: افضل یہ ہے کہ حضور ﷺ کی اولاد، ازواجِ مطہرات، حسن و حسین اور علی مرتضیٰ رضی اللہُ عنہم سب کو اہلِ بیت کہا جاتا ہے۔

قرآن کی روشنی میں اہلِ بیت کی عظمت اور پاکدامنی اور پرہیزگاری کا ذکر ہے۔

اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

اہلِ بیت کی محبت واجب ہونے پر دلالت کرنے والی آیت جس میں اللہ پاک نے نبی ﷺ کو فرمایا: اے حبیب! آپ فرمادیجئے کہ اس (تبلیغِ دین) پر میں تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا سوائے قرابت کی محبت کے۔

حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں اہلِ بیت کے حقوق: حضور نبیِ کریم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: میرے اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

امام دیلمی روایت کرتے ہیں: نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو: اپنے نبی کی محبت، نبی کے اہلِ بیت کی محبت اور قرآن پاک کی تلاوت۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)

نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:مومن متقی ہی اہلِ بیت سے محبت کرے گا اور بدبخت منافق ہی ہم سے عداوت رکھے گا۔ (مستدرک، 3/149)

امام طبرانی اور حاکم روایت کرتے ہیں کہ حضور نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان مقیم ہو، پابندِ صوم وصلوۃ ہو اور اس حالت میں فوت ہو کہ وہ محمد مصطفےٰ ﷺ کے اہلِ بیت سے بغض رکھتا ہو وہ آگ میں داخل ہوگا۔ (عقائد ومسائل،ص82)

اللہ پاک ہمیں صحابہ و اہلِ بیت سے والہانہ محبت عطا فرمائے اور ان سے بغض و عداوت رکھنے سے محفوظ رکھے۔ آمین


قرآن کی روشنی میں: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) (پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

یعنی اے میرے حبیب کے گھر والو! اللہ پاک تو یہی چاہتا ہے کہ گناہوں کی نجاست سے تم آلودہ نہ ہو۔ (تفسیرِ مدارک، ص 910)

صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنی کتاب سوانح کربلا میں یہ آیت لکھ کر اہلِ بیت رضی اللہُ عنہم کے مصداق کے بارے میں مفسرین کے اقوال اور احادیث نقل فرمائیں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: خلاصہ یہ کہ دولت سرائے اقدس کے سکونت رکھنے والے اس آیت میں داخل ہیں کیونکہ وہی اس کے مُخاطَب ہیں چونکہ اہلِ بیتِ نسب کامر اد ہونا مخفی تھا اس لئے آں سرور ِعالم ﷺ نے اپنے اس فعل مبارک سے بیان فرمادیا کہ مراد اہل بیت سے عام ہیں۔ خواہ بیتِ مسکن کے اہل ہوں جیسے کہ ازواج یا بیت نسب کے اہل بنی ہاشم ومطلب۔ (سوانح کربلا، ص 82)

اس آیتِ مبارکہ میں تقویٰ و پرہیزگاری کی ترغیب دلائی گئی۔ مزید اس آیتِ مبارکہ میں پردے کے بارے میں بھی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اس آیتِ مبارکہ میں پاکی کو تقویٰ و پرہیزگاری سے تشبیہ دی ہے۔

جس طرح ایک انسان کے دوسرے پر حقوق ہیں جو ہر انسان پر پورا کرنا لازم ہے، اسی طرح اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہُ عنہم کے بھی حقوق ہیں جن کو پورا کرنا ہر انسان مسلمان عاقل بالغ و غیر بالغ پر پورا کرنا لازم و ضروری ہے، اسی طرح بہت احادیثِ مبارکہ میں بھی حقوقِ اہلِ بیت وارد ہوئے ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

پہلا حق: جو شخص اہلِ بیت سے دشمنی رکھتے ہوئے مرا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا: یہ آج اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہے۔ (تفسیر قرطبی، پ 25، الشوریٰ، تحت الآیۃ:23، 8/17)

اس میں فرمایا جارہا ہے کہ جو شخص اہلِ بیتِ اطہار سے بغض و عداوت رکھتا ہے وہ اللہ پاک کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔

دوسرا حق: سب سے پہلے میرے حوض (یعنی حوضِ کوثر) پر آنے والے میرے اہلِ بیت ہوں گے۔ (السنۃ لابن ابی عاصم، ص 173، حدیث: 766)

اس میں فرمایا جارہا ہے کہ سب سے پہلے حوضِ کوثر پر اہلِ بیتِ اطہار کو بلایا جائے گا۔

حبِ اہلِ بیت دے آلِ محمد کے لئے کر شہیدِ عشقِ حمزہ پیشوا کے واسطے

تیسرا حق: تم میں سے پلِ صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔ (جمع الجوامع، 1/86،حدیث:454)

اس میں فرمایا جارہا ہے کہ اہلِ بیت سے محبت کامل کی ایمان کی نشانی ہے اور اس کا اخروی فائدہ یہ ہے کہ وہ پلِ صراط پر ثابت قدم رہتا ہے۔

چوتھا حق: حضور ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن چار بندوں کی شفاعت کروں گا (1) میری آل کی عزت و تعظیم کرنے والا، (2) میری آل کی ضروریات پورا کرنے والا، (3) میری آل کی پریشانی میں ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے والا، (4 ) اپنے دل و زبان سے میری آل سے محبت کرنے والا۔ (جمع الجوامع، 1/48)

اس حدیثِ مبارکہ میں شفاعت کی بشارت دی جارہی ہے، جو اہلِ بیت اطہار کی تعظیم کرے، ان سے محبت کرے، ان کی ضروریات کو پورا کرے اور ان کی مشکلات کو حل کرنے والے کو بشارت دی جارہی ہے شفاعت کی۔

پانچواں حق: اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)

اس میں اللہ پاک کی محبت پانے کا وسیلہ بتایا جارہا ہے یعنی جو اللہ پاک کی محبت پانا چاہتا ہے وہ آقا ﷺ سے محبت کرے، آپ ﷺ کی محبت پانا چاہتا ہے تو وہ اہلِ بیت سے محبت کرے۔

دعا: اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں ان کی تعظیم کرنے کی توفیق دے، اہلِ بیت کے تمام حقوق ادا کرنے کی ہمیں توفیق دے، اہلِ بیت سے بغض و عداوت سے ہمیں بچائے رکھے اور بغض رکھنے والوں کے سائے سے بھی دور رکھے۔ آمین

صحابہ کا گدا ہوں اور اہلِ بیت کا خادم یہ سب ہے آپ کی تو عنایت یارسول اللہ

جس طرح ہم مسلمان صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم سے محبت کرتے ہیں اسی طرح ہمیں اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہُ عنہم سے محبت و عقیدت کا دم بھرنا چاہئے اور یہ ضروری بھی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم سے محبت ہو اور دل معاذ اللہ اہلِ بیت کی دشمنی سے بھرا ہو یا پھر اہلِ بیت کی محبت تو دل میں ہو اور ساتھ صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم سے معاذ اللہ دشمنی ہو۔ دل میں صحابہ و اہلِ بیت کی محبت کا ہونا ضروری ہے۔ ایک مومن کے لئے یہ لازم ہے کہ اس کے دل میں دونوں کے لئے محبت ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم ہمارے پیارے آقا کے سچے اور وفا کرنے والے ساتھی ہیں اور اہلِ بیت آپ کی اولاد ہیں۔

اہلِ بیتِ اطہار کون ہیں؟: یادرکھئے! اہلِ بیت میں پانچ افراد شامل ہیں: حضرت محمد ﷺ اور آپ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہُ عَنہُنَّ، حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہُ عنہا، حضرت علی مرتضی رضی اللہُ عنہ، حضرت امام حسن رضی اللہُ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ۔

قرآن پاک میں اہلِ بیت کی تعظیم کا ذکر: اہلِ بیت کی محبت میں، ان کی تعظیم میں اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔

دورِ صحابہ سے لے کر آج تک امتِ مسلمہ اہلِ بیت سے محبت رکھتی ہے، چھوٹے بڑے سبھی اہلِ بیت سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ حضرت علامہ عبد الروف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصہ اور نمایاں فخر نہ پایا ہو۔ (فیض القدیر، 1/256)

حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جب امت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مومن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے۔ (الشرف الموبد، ص 94)

تفسیر خزائن العرفان میں ہے: حضور سیدِ عالم ﷺ کی محبت اور آپ کے اقارب کی محبت دین کے فرائض میں سے ہے۔

آئیے! اب صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کا اہلِ بیت سے محبت کا اظہار سنتی ہیں۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔ (بخاری، 2/438، حدیث: 3713)

حضرت عباس رضی اللہُ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت عمر و عثمان رضی اللہُ عنہما سواری پر آپ کے پاس گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے تشریف لے آتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہُ عنہ وہاں سے گزر جاتے۔(الاستیعاب، 2/360)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: آلِ رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ (الشرف الموبد، ص 92)

ابو مہزم رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں: ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء، 4/407)

پیاری بہنو! آپ نے عشقِ صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم سنا، صحابہ کرام اہلِ بیت سے کتنی محبت رکھتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اہلِ بیت کے ہم پر بےشمار حقوق ہیں، جن میں سے پانچ یہ ہیں:

(1)ہمیں اہلِ بیت کی عزت و تعظیم کرنی چاہئے۔

(2) ہمیں سچے دل سے ان سے محبت کرنی چاہئے۔

(3) ہمیں ان کے احکام کی سچے دل سے پیروی کرنی چاہئے۔

(4) کبھی بھی ان کے خلاف کسی سے بھی کوئی بات نہ سنی جائے۔

(5) ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے زندگی گزارنی چاہئے۔

اے کاش! اللہ پاک ہمیں بھی صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کی طرح اہلِ بیت رضی اللہُ عنہم سے محبت کرنے والا بنائے۔ آمین 


پیارے آقا ﷺ کی امت پر یہ حق ہے کہ وہ آپ ﷺ سے محبت و عشق کرے اور آپ ﷺ کے صحابہ و اہلِ بیت سے بھی محبت کرے، کیونکہ جس کے دل میں پیارے آقا ﷺ کی محبت ہوگی یقیناً اس کے دل میں صحابہ و اہلِ بیت کی بھی محبت ہوگی اس لئے ہمیں اہلِ بیت کا ادب وا حترام کرنا چاہئے۔

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

احادیثِ مبارکہ میں اہلِ بیت کے حقوق: (1)میرے اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

(2) بےشک میرے لئے اور میرے اہلِ بیت کے لئے صدقے کا مال حلال نہیں ہے۔ (مسند احمد)

(3) جو شخص اولادِ عبد المطلب میں کسی کے ساتھ دنیا میں بھلائی کرے گا اس کا بدلہ دینا مجھ پر لازم ہے، جب وہ روزِ قیامت مجھ سے ملے گا۔ (تاریخ بغداد، 1/102)

(4) جس شخص نے میرے اہلِ بیت پر ظلم کیا اور مجھے میری عترت کے بارے میں تکلیف دی اس پر جنت حرام کردی گئی۔ (الشرف الموبد، ص 99)

(5) جسے پسند ہو کہ اس کی عمر میں برکت ہو اور اللہ پاک اسے اپنی دی ہوئی نعمت سے فائدہ دے تو اسے لازم ہے کہ میرے بعد میرے اہلِ بیت سے اچھا سلوک کرے۔ جو ایسا نہ کرے اس کی عمر کی برکت اڑجائے اور قیامت میں میرے سامنے کالا منہ لے کر آئے۔ (کنز العمال، 6/46،حدیث:34166)

ہم اس قابل نہیں ہیں کہ پیارے آقا ﷺ کے پیارے گلشن کی مدح کرسکیں، لیکن ادنیٰ سی تعریف بیان کی۔ ہمیں چاہئے کہ اہلِ بیت سے سچی و پکی محبت کریں، جس کی برکت سے ہمارا ایمان کامل ہو اور اس کی برکت ظاہر ہو۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اہلِ بیت کی محبت عطا فرمائے، ہم ان کا ادب و احترام کرے رہیں اور اپنے بچوں کو بھی یہی سکھائیں اور یہی گٹی گھول کر پلائیں۔