حقوقِ اہلِ بیت از بنتِ محمد نواز، فیضانِ ام عطار شفیع کا
بھٹہ سیا لکوٹ
اہلِ بیت کے معنی: گھر والے
جبکہ اصطلاح میں اہلِ بیت سے مراد گھر میں رہنے والے سب افراد کے ہیں۔
نبیِ کریم ﷺ کے اہلِ بیت سے مراد: نبیِ کریم ﷺ کے اہلِ بیت
کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ (1) بعض علماء کے نزدیک اہلِ بیت سے مراد حضور ﷺ کی
ازواجِ مطہرات رضی اللہُ
عَنہُنَّ اہلِ بیتِ سکنیٰ ہیں۔ (2) حضرت شیخ عبد الحق
محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں: افضل یہ ہے کہ حضور ﷺ
کی اولاد، ازواجِ مطہرات، حسن و حسین اور علی مرتضیٰ رضی
اللہُ عنہم سب کو اہلِ بیت کہا جاتا ہے۔
قرآن کی روشنی میں اہلِ بیت کی عظمت اور پاکدامنی اور
پرہیزگاری کا ذکر ہے۔
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ
عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ
22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ
تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔
اہلِ بیت کی محبت واجب ہونے پر دلالت کرنے والی آیت جس میں
اللہ پاک نے نبی ﷺ کو فرمایا: اے حبیب! آپ فرمادیجئے کہ اس (تبلیغِ دین) پر میں تم
سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا سوائے قرابت کی محبت کے۔
حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں اہلِ بیت کے حقوق:
حضور نبیِ کریم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: میرے اہلِ بیت کی
مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا
وہ ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)
امام دیلمی روایت کرتے ہیں: نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اپنی
اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو: اپنے نبی کی محبت، نبی کے اہلِ بیت کی محبت اور
قرآن پاک کی تلاوت۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)
نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:مومن متقی ہی اہلِ بیت سے محبت کرے
گا اور بدبخت منافق ہی ہم سے عداوت رکھے گا۔ (مستدرک، 3/149)
امام طبرانی اور حاکم روایت کرتے ہیں کہ حضور نبیِ کریم ﷺ
نے فرمایا: اگر کوئی شخص حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان مقیم ہو، پابندِ
صوم وصلوۃ ہو اور اس حالت میں فوت ہو کہ وہ محمد مصطفےٰ ﷺ کے اہلِ بیت سے بغض
رکھتا ہو وہ آگ میں داخل ہوگا۔ (عقائد ومسائل،ص82)
اللہ پاک ہمیں صحابہ و اہلِ بیت سے والہانہ محبت عطا فرمائے
اور ان سے بغض و عداوت رکھنے سے محفوظ رکھے۔ آمین