یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ جس سے عشق ہوتا ہے اس سے نسبت
رکھنے والی ہر چیز مثلاً محبوب کے گھر، اس کے درو ودیوار، محبوب کی گلی کوچوں، اس
کی آل اولاد وغیرہ سے بھی عقیدت و محبت کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ پھر ذرا سوچئے کہ
جو عشقِ نبی میں گم ہو وہ آپ ﷺ کی آل اور اہلِ بیت رضی
اللہُ عنہم سے محبت کیوں نہ رکھے گا کہ
ان حضرات سے محبت رکھنے کا مطالبہ تو قرآن کریم بھی ہم سے فرمارہا ہے۔
قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا
اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز
الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔
وضاحت: بیان کردہ
آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنت مولانا شاہ احمد رضا خان
رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: قربیٰ سے مراد ساداتِ کرام و اہلِ بیت عظام رضی اللہُ عنہم ہیں۔
الحمد للہ! اہلِ بیتِ اطہار رضی
اللہُ عنہم اور ساداتِ کرام وہ مقدس
ہستیاں ہیں کہ ان سے محبت رکھنا اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کے فضائل و مناقب
احادیثِ مبارکہ میں بھی آئے ہیں۔
اہلِ بیتِ اطہار سے حسنِ سلوک کی فضیلت: سراپا
نور، تمام نبیوں کے سالار ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ
اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا صلہ اسے عطا کروں گا۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: کوئی بندہ اسی وقت ہم پر ایمان
لاسکتا ہے جب ہم سے محبت کرے گا اور ہمارے ساتھ اسی وقت محبت کرے گا جب ہمارے اہلِ
بیت سے محبت کرے گا۔
امام دیلمی روایت کرتے ہیں: نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اپنی
اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو: اپنے نبی ِ اکرم کی محبت، نبیِ اکرم کے اہلِ بیت
کی محبت اور قرآن پاک کی تلاوت۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)
امام ترمذی رحمۃُ اللہِ علیہ اور امام حاکم رحمۃُ اللہِ
علیہ حضرت عباس رضی اللہُ
عنہ سے روایت کرتے ہیں: نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک سے محبت رکھو،
کیونکہ وہ تمہیں بطورِ عذا نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ اور اللہ پاک کی محبت کی بناء پر
مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی بناء پر اہلِ بیت سے محبت رکھو۔ (مشکاۃ المصابیح،
2/443، حدیث: 6182)
ہم سب پر یہ حق ہے کہ جب اہلِ بیت کا ذکر ہو صرف خیر و
بھلائی، نیک دعاؤں کے ساتھ ہو۔
امام طبرانی رحمۃُ اللہِ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد
اللہ بن عمر نے فرمایا: نبیِ اکرم ﷺ کا آخری کلام یہ تھا کہ ہمارے اہلِ بیت کے
بارے میں ہمارے اچھے خلیفہ بننا۔ (عقائد و مسائل،ص 86)
ان احادیثِ مبارکہ سے یہ معلوم ہوا کہ آلِ رسول کے ساتھ
محبت و حسنِ سلوک کرنا اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول، رسولِ مقبول ﷺ کو محبوب ہے۔
الحمد للہ ! ہمارے بزرگانِ دین رحمۃُ اللہِ علیہم ایسےعاشقِ
رسول تھے کہ جن کی ہر ادا سے ادب و تعظیم کا ظہور ہوتا تھا۔ عشقِ رسول جن کا قیمتی
سرمایہ اور آلِ رسول کی محبت ان کے لئے روحانی آکسیجن کی حیثیت رکھتی تھی۔ ہمارے
گزرگان دین اہلِ بیتِ ا طہار رضی اللہُ
عنہم اور ساداتِ کرام کا بہت ادب و احترام اور ان کی خدمت بجالاتے تھے۔
صحابۂ کرام رضی اللہُ
عنہم بھی اہلِ بیت سے کثیر محبت فرماتے تھے۔
یاد رہے کہ اہلِ بیت میں نبیِ اکرم ﷺ کی تمام اولاد اور
ازواجِ مطہرات بھی شامل ہیں۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ
فرماتے ہیں: اہلِ بیت کے معنی ہیں، گھر والے، اہلِ بیتِ رسول چند معنیٰ میں آتا
ہے: (1) جن پر زکوۃ لینا حرام ہے یعنی بنی ہاشم عباس، علی، جعفر، عقیل، حارث کی
اولاد، (2) حضور ﷺ کے گھر میں پیدا ہونے والے یعنی اولاد، (3) حضور ﷺ کے گھر میں
رہنے والے جیسےا زواجِ پاک۔ (مراۃ المناجیح، 8/450)
کیوں نہ
ہو رتبہ بڑا، اصحاب و اہلِ بیت کا ہے
خدائے مصطفیٰ، اصحاب و اہلِ بیت کا
صحابہ کا
گدا ہوں اور اہلِ بیت کا خادم یہ سب ہے آپ ہی کی تو عنایت یا رسول
اللہ
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اہلِ بیت اور ساداتِ کرام کی تعظیم فرض ہے اور ان کی توہین
حرام ہے۔ (اسلامی بیانات،4/139)
اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ اگر وہ دین و دنیا اور آخرت
کی بھلائی و نجات چاہتا ہے تو اہلِ بیت کی توہین سے ہمیشہ بچتا رہے۔ جیسا کہ
فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: آگاہ رہو کہ تم میں میرے اہلِ بیت کی مثال جضرت نوح علیہ
السّلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ
گیا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)
اس حدیثِ پاک کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جیسے طوفانِ نوح کے وقت ذریعۂ نجات صرف کشتیِ نوح علیہ
السّلام تھی ایسے ہی تاقیامت ذریعۂ نجات صرف محبتِ اہلِ بیت اور ان کی اطاعت، ان
کی اتباع ہے۔ بغیر اطاعت و اتباع دعویِٰ محبت بےکار ہے۔