(1) اہلِ بیت کے حقوق میں سے ان کے ساتھ محبت رکھنا۔

(2) ان کی تعظیم کرنا۔

(3)اور ان کے خلاف اگر معاذ اللہ کوئی کلام کرتا ہے تو ان کی عزت و ناموس کا دفاع کرنا۔

(4) اور نماز کے اندر ان پر درود پڑھنا یعنی یہ ایسا حق ہے جو اللہ پاک نے نماز کے اندر ہی رکھ دیا۔

(5) ساداتِ کرام کا ویسے ہی ان کا ادب کیا جائے ویسے ہی ان کی تعظیم کی جائے۔ تکلیف کے اندر ہوں تو ان کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کی جائے، انہیں ایک عزت دی جائے اور انہیں نگاہِ عقیدت و محبت کے ساتھ دیکھا جائے۔

یہ سب حقوقِ اہلِ بیت میں شامل ہیں۔

حبِ اہلِ بیت اطاعتِ خدا ہے: حضرت علی رضی اللہُ عنہ کا ارشاد ہے: محمد ﷺ کا دوست وہ ہے جو خدا کا مطیع ہو اگرچہ ان سے دور کی رشتے داری بھی نہ ہو۔ (جیسے سلمان فارسی رضی اللہُ عنہ اور ابو ذر رضی اللہُ عنہ) اور محمد ﷺ کا دشمن وہ ہے جو خدا کی معصیت کرے خواہ وہ نزدیک کا رشتے دار ہی کیوں نہ ہو(جیسے ابو لہب)۔

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: راہِ فقر میں تمام مقامات اور منازل اہلِ بیت کے وسیلے سے عطا ہوتے ہیں، جو اہلِ بیت کا منکر اور بےادب ہے وہ اسلام سے خارج ہے۔

حضرت حسین بن علی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص ہمارے لئے اپنی آنکھ سے آنسو بہاتا ہے یا ایک قطرہ گراتا ہے تو اللہ پاک اس کے بدلے اسے جنت عطا کرے گا۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اہلِ بیتِ مصطفےٰ ﷺ کی ایک دن کی محبت پورے سال کی عبادت سے بہتر ہے اور جو اسی محبت پر فوت ہوا تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ (الشرف الموبد، ص 92)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)

جسے اہلِ بیت کی محبت مل جائے اسے دونوں جہاں کی عزت مل جائے گی، آخرت میں شفیعِ امت ﷺ کی رفاقت میسر آئے گی اور اہلِ بیت کے صدقے اس کی بخشش و مغفرت ہوجائے گی۔