حضرت صدیق اکبر کی اہلِ بیت سے محبت:ایک موقع پر حضرت سیدنا
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: اس ذات کی
قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے رسول پاکﷺ کے قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک
کرنا مجھے اپنے قرابت داروں سے صلہ رحمی کرنےسے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔(بخاری،
2/438، حدیث: 3712)
ایک بار حضرت سیدنا صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے احترام کے پیش نظر اہلِ بیت کا
احترام کرو۔(بخاری 2/384، حدیث:3712)
امام حسن کو کندھے پر بٹھایا: حضرت عقبہ بن حارث بیان
کرتے ہیں کہ حضرت سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی۔پھر آپ اور حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ
الکریم کھڑے ہو کر چل دیئے۔ راستے میں حضرت حسن کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نےانہیں اپنے کندھے پر
بٹھا لیا اور فرمایا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! حضور اکرم ﷺ کے ہم شکل ہو، حضرت
علی کے نہیں۔اس وقت حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم مسکرا رہے تھے۔(السنن الکبریٰ، 5/48،
حدیث:8161)
سیدنافاروق اعظم کی اہلِ بیت سے محبت:ایک بارحضرت سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ حضرت سیدتنا فاطمۃ الزھراء
کے ہاں گئے تو فرمایا: اے فاطمہ! اللہ پاک کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حضور اکرم ﷺ کا محبوب نہیں دیکھا اورخدا کی قسم! آپ کے والد گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی
مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں۔ (مستدرک، 4/139، حدیث: 4789)
خصوصی کپڑے دیئے: ایک موقع
پر سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرات صحابہ ٔ کرام کے بیٹوں کو کپڑےعطا فرمائے
مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی شان کے لائق ہوتو آپ
نے ان کے لیے یمن سے خصوصی لباس منگواکر پہنایا۔اور فرمایا: اب میرا دل خوش ہوا
ہے۔(ریاض النضرۃ، 1/341)
وظیفہ بڑھا کر دیا: یوں ہی جب حضرت
سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضرات حسنین
کریمین کے لیے رسول اللہ ﷺ کی قرابت داری کی وجہ سے ان کے والد حضرت علی المرتضیٰ
کرم اللہ وجہہ الکریم کے برابر حصہ مقرر
کیا۔ دونوں کے لیے پانچ پانچ ہزار درہم وظیفہ رکھا۔(سیر اعلام النبلاء، 3/259)
حضرت امیر معاویہ کی اہلِ بیت سے محبت: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت علی
المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے چند
نقوش بھی اٰل ابو سفیان (یعنی ہم لوگوں)سے بہتر ہیں۔ (الناہیۃ، ص59)آپ نے حضرت علی
المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم اور اہلِ بیت کے زبردست فضائل بیان فرمائے۔(تاریخ
ابن عساکر، 42/415) آپ نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے فیصلہ کو
نافذ بھی کیا اور علمی مسئلہ میں آپ سے رجوع بھی کیا۔(سنن الکبریٰ للبیھقی،
10/205، مؤطا امام مالک،2/259)
ایک مرتبہ آپ نے حضرت ضرّار صدائی سے تقاضا کر کے حضرت علی المرتضیٰ کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دعا کی: اللہ
پاک ابوالحسن پر رحم فرمائے۔ (الاستیعاب، 3/209)یوں ہی ایک بار حضرت امیر معاویہ
نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ آباؤ اجداد،
چچاو پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں۔(العقد
الفرید، 5/344)آپ ہم شکلِ مصطفےٰﷺ ہونے کی وجہ سے حضرت امام حسن کا احترام کرتے
تھے۔(مراٰۃ المناجیح، 8/461) ایک بار آپ نے امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی
اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اس میں شرکت کی ترغیب دلائی۔
اہل بیت
کی خدمت میں نذرانے: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ
مختلف مواقع پر حضرات حسنین کریمین کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کیے، یہ بھی
محبت کا ایک انداز تھا۔آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار اور کبھی تین لاکھ درہم تو کبھی
چار لاکھ درہم حتّٰی کہ ایک بار چالیس کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا۔(سیر اعلام
النبلاء، 4/309)
حضرت عبد اللہ بن مسعود کی اہلِ بیت سے محبت:
حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: آل رسول کی ایک دن کی
محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ (الشرف المؤبد،ص92)نیز آپ فرمایا کرتے تھے اہل
مدینہ میں فیصلوں اور وراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی
المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی ہے۔(تاریخ
الخلفاء،ص135)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اہلِ بیت سے
محبت: حضرت سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں:میں جب بھی حضرت حسن رضی
اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فرط محبت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے
ہیں۔(مسند امام احمد،3/632)