اہلِ بیت اطہار وہ عظیم ہستیاں ہیں جو ہمارے پیارے آقا ﷺ کے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اعلیٰ حضرت حدائق بخشش میں پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا

اہلِ بیت اطہار کی عظمت وشان کے کیا کہنےکہ خود قرآن پاک ان کی عظمت وشان بیان فرمارہا ہے، چنانچہ سورۃ الاحزاب، آیت نمبر:33 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

اور خود حضورِ انور ﷺ نے اپنی زبانِ حق ترجمان سے اہلِ بیت کے فضائل بیان فرمائے، چنانچہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن تمام نسب منقطع ہوجائیں گے سوائے میرے نسب اور میرے سبب کے۔ (مجمع الزوائد، 8/398، حدیث: 3837)

یاد رہے! اہل بیت کے معنیٰ ہیں گھر والے۔ بیت کی تین قسمیں ہیں: بیتِ نسب، بیت سکن، بیت ولادت، اس لیے اہلِ بیت بھی تین قسم کے ہیں: اہلِ بیت نسب: حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی اولاد اہلِ بیت نسب ہیں۔(بنی ہاشم) اہلِ بیت سکن: گھر میں رہنے والے یعنی ازواج مطہرات۔ اہلِ بیت ولادت: رسول اللہ ﷺ کی اولاد، ان میں خاص کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت علی، حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کہ یہ حضرات فضل وکرامت محبت کے لحاظ سے زیادہ ممتاز ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، 8/383)

امتِ مسلمہ پر اہلِ بیت کے بہت سے حقوق ہیں۔ ان میں چند حقوق کا مختصر ذکر اگلی سطور میں کرنے کی سعادت حاصل کروں گی اور حق تو یہ ہے کہ ہم ان نفوسِ قدسیہ کا ایک حق بھی ادا نہیں کر سکتے۔

1) ان سے محبت رکھنا: اہلِ بیت سے محبت کرنے کا حکم خود رب تعالیٰ نے ہمیں ارشاد فرمایا ہے چنانچہ حکم ہوا: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔ اس آیت مبارکہ کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اہلِ بیت کی محبت ہم پر واجب ہے۔ ہمیں چاہیے اس حکم ربی پر عمل کرتے ہوئے خود بھی اہلِ بیت کے محبت کےجام پئیں اور اپنی نسلوں کو بھی اس سے سیراب کریں۔ (عقائد ومسائل،ص82)

2) ان کی عزت کرنا: حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تم کو اپنے اہل بیت کے متعلق الله سے ڈراتا ہوں۔ اس کی شرح میں مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: یعنی میں تم کو اپنے اہل بیت کے متعلق الله سے ڈراتا ہوں،ان کی نافرمانی بے ادبی بھول کر بھی نہ کرنا ورنہ دین کھو بیٹھو گے۔(مراٰۃ المناجیح، 8/388- 389)

3) ان پر درود بھیجنا: ان پر درود بھیجنا یہ ایک ایسا حق ہے کہ اللہ پاک نے نماز کے اندر درود ابراہیم کی صورت میں اسے رکھ دیا۔ اسی کے متعلق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنے اشعار میں لکھتے ہیں۔

یَا اَہلَ بَیت ِرَسُول ِاللہِ حُبُّکُمْ فُرِضَ مِنَ اللہِ فِی الْقُرآنِ اَنْزلَہُ

کَفَاُکمْ مِن عَظیم ِالْقدرِ اَنَّکُمْ مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلیکُمْ لَا صَلٰوۃَ لَہُ

یعنی اے رسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیت! تمہاری محبت اللہ پاک کی طرف سے فرض ہے۔ اس نے قرآن کریم میں یہ حکم نازل فرمایا ہے۔عظمت مقام سے تمہارے لیے یہ کافی ہےکہ جو تم پر درود نہ بھیجے اُس کی نماز نہیں ہے(یعنی ناقص ہے)۔ (عقائد ومسائل،ص90)

امام دیلمی روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ دعا روک دی جاتی ہے یہاں تک محمد ﷺ اور آپ کے اہلِ بیت پر درود بھیجا جائے۔(معجم صغیر،2/303،حدیث:812، عقائد ومسائل،ص90)

4) ان کو حسب نسب میں افضل جاننا: اہلِ بیت حسب نسب میں سب انسانوں سے افضل ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: مجھ سے جبریل علیہ السلام نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ! میں نے زمین کے مشرق ومغرب کو الٹ پلٹ کر دیکھا، میں نے بنی ہاشم سے بڑھ کر کسی باپ کے بیٹوں کو نہ پایا۔(فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل،2/628)

5) اطاعت وفرمانبرداری: ان کی اطاعت وفرمانبرداری کرنا، ان کی سیرت پر عمل کرنا یہ بھی اہلِ بیت کے حقوق سے ہے چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے درمیان ہمارے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پا گیا اور جو سوار نہیں ہوا غرق ہوگیا۔(مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

ہم نے اہلِ بیت کی عظمت وحقوق ملاحظہ فرمائے ہمیں چاہیے کہ ان حقوق کو ادا کریں، ان نفوسِ قدسیہ کی محبت اپنے دلوں میں راسخ کریں، ان کی سیرت پر عمل کریں کہ اسی میں دنیاوآخرت کی کامیابی ہے۔

اہل سنت کاہے بیڑا پار اصحابِ حضور نجم ہے اور ناؤ ہے عترت رسول الله کی

اللہ پاک ہمیں صحابہ واہلِ بیت کا سچا عاشق بنائے اور ان کے صدقے ہماری، ہمارے والدین کی بےحساب مغفرت فرمائے۔