بدکاری ایک ایسا جرم ہے کہ دنیا کی تمام قوموں کے نزدیک فعل قبیح اور جرم و گناہ ہے اور اسلام میں یہ کبیرہ گناہ ہے اور دنیا اور آخرت میں ہلاکت کا سبب اور جہنم میں لے جانے والا بدترین فعل ہے، اس کی مذمت میں اللہ کریم نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ 15، بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے قریب نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔

اللہ پاک نے فرمایا کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ یعنی ان باتوں سے بھی بچتے رہو جو تمہیں زنا کاری کی طرف لے جائیں۔ بدکاری کی مذمت و مخالفت کے بارے میں مندرجہ ذیل چند احادیث بھی پڑھ لیجیے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جو شخص زنا کرتا یا شراب پیتا ہے تو اللہ اس سے ایمان یوں نکالتا ہے جیسے انسان اپنے سر سے قمیص اتارے۔ یعنی ان گناہ کے وقت مجرم نورِ ایمان سے نکل جاتا ہے۔(مستدرک، 1/175، حدیث: 64)

2۔ چار طرح کے لوگوں کو اللہ پاک مبغوض رکھتا ہے؛ بکثرت قسمیں کھانے والا تاجر، متکبر فقیر، بوڑھا زانی اور ظالم حکمران۔ (76 کبیرہ گناہ، ص 57)

پیارے آقا ﷺ سے سوال کیا گیا: کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ ارشاد فرمایا: تو کسی کو اللہ کا ہمسر قرار دے حالانکہ اس نے تجھےپیدا کیا، عرض کی گئی: پھر کون سا؟ ارشاد فرمایا: تیرا اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کر دینا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی، عرض کی گئی: پھر کون سا؟ ارشاد فرمایا: تیرا اپنی پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا۔ (مسلم، ص 59، حدیث: 86)

4۔ زانی جس وقت زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے پس وہ اس کے سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے پھر جب بندہ زنا سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی،4/283، حدیث: 2634)

5۔ زناکار قوم میں بکثرت موتیں ہوں گی۔ (جہنم کے خطرات، ص 33)

الغرض دنیا و آخرت میں اس فعل بد کا انجام ہلاکت و بربادی ہے لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنے معاشرے کو اس ہلاکت خیز بدکاری کی نحوست سے بچائیں ورنہ ہمارا خالق اگر ہم سے اس فعل کے سبب ناراض ہو گیا تو ہماری ہلاکت ہوگی۔ جھٹ پٹ توبہ کر لیجیے رب تعالیٰ غفور الرحیم ہے اللہ پاک تمام مسلمانوں کو اس بلائے عظیم سے محفوظ فرمائے۔ آمین