مجھے آج جس موضوع پر قلم کشائی کی سعادت مرحمت ہوئی وہ موضوع اہلِ بیت کے حقوق پر مبنی ہے۔ اہلِ بیت اطہار کے حقوق بیان کرنے سے پہلے یہ جان لینا نہایت ضروری ہے کہ اہلِ بیت کون ہیں اور ان میں کون نیک ہستیاں داخل ہیں۔

اہلِ بیت سے مراد وہ محترم افراد ہیں جو آقا ﷺ کے اہلِ خانہ ہیں، جن میں نبیِ کریم ﷺ کی ازواجِ مطہرات، خاتونِ جنت حضرت فاطمہ، حضرت علی مرتضیٰ اور حسنین کریمین رضی اللہُ عنہم داخل ہیں۔

آقا ﷺ نے فرمایا: میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور سوار نہیں ہوا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

اس حدیثِ مبارکہ سے شانِ اہلِ بیت تو ظاہر ہوئی مگر ان کا بلند مقام بھی ظاہر ہوگیا اور جو بدبخت ان کی شان میں خباثت بکتے ہیں ان کو شریعت کی طرف سے یہ ایسا جواب ہے کہ جس پر ان کی عقلوں کی رسائی ممکن نہیں۔

اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

امام طبری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اے آلِ محمد! اللہ پاک چاہتا ہے کہ تم سے بری باتوں اور فحش یعنی گندی چیزوں کو دور رکھے اور تمہیں گناہوں کے میل کچیل سے پاک و صاف کردے۔ (تفسیر طبری، 1/296)

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت

اب میں اہلِ بیت کے پانچ حقوق پر قلم اٹھانا چاہوں گی کہ ان حضرات کا پہلا حق تو یہ ہے کہ ہم امتِ مسلمہ ان حضرات سے محبت کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہمارے اہلِ بیت کو لازم پکڑلو کیونکہ جو اللہ سے اس حال میں ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے تو اللہ پاک اسے میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! کسی بندے کو اس کا عمل اس صورت میں فائدہ دے گا جبکہ وہ ہمارا حق پہنچائے۔ (فیضانِ اہلِ بیت)

ان حضرات کا دوسرا حق یہ ہے کہ اپنے دلوں کو اہلِ بیت کے بغض سے پاک رکھا جائے اور ان کی تعظیم کی جائے۔ آقا ﷺ نے فرمایا: جس نے ہمارے اہلِ بیت سے بغض رکھا وہ منافق ہے۔ (فضائلِ صحابہ لامام احمد، 2/661، حدیث: 1126) حضور پر نور ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن چار طرح کے لوگوں کی شفاعت کروں گا: میری آل کی عزت و تعظیم کرنے والا، میری آل کی پریشانی میں ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے والا، میری آل کی ضروریات پوری کرنے والا اور اپنے دل و زبان سے میری آل سے محبت کرنے والا۔ (جمع الجوامع، 1/48)

پیارےآقا ﷺ کی حدیثِ مبارکہ سے پتا چلا کہ اہلِ بیت کی تکریم کرنے والا روزِ قیامت آقا ﷺ کی شفاعت سے ضرور بہرا مند ہوگا۔

ان بابرکت حضرات کا تیسرا حق یہ ہے کہ ان پر درود و سلام کی کثرت کی جائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اسے پورا ثواب ملے تو اسے چاہئے کہ ہمارے اہلِ بیت پر درود بھیجے۔

معلوم ہوا کہ اہلِ بیت پر درود و سلام پڑھنا بھی حقیقتاً اپنے لئے ہی کارِ ثواب ہے۔ ان پر درود و سلام کی کثرت باعثِ ثواب اور خود پر اللہ پاک کی نعمتوں کا باب کھولنا ہے اور یہی نجات کا ذریعہ ہے۔

چوتھا حق یہ ہے کہ ان کی اتباع کی جائے،ان کے عمل کو اپنایا جائے۔ امتِ مسلمہ پر نعمتوں کی فراوانی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ آوقا ﷺ نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، اگر ان کی تعلیمات پر عمل کروگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک قرآن اور دوسرا میرے اہلِ بیت ہیں۔ (نور المبین)

قرآن ہدایت ہے اور اہلِ بیت قرآن کے احکامات پر عمل کرنے والے ہیں۔ ان کا طرزِ زندگی و عمل اپنانے سے ان کی اتباع کرنے سے جہالت کے اندھیرے مٹ جاتے ہیں اور ہر کوئی ہدایت سے سرفراز ہوتا ہے۔

شکریہ تم نے آل کا صدقہ میری جھولی میں ڈال رکھا ہے

پانچواں حق یہ ہے کہ ان کی ناموس کا دفاع کیا جائے۔ ان کے خلاف کوئی کلام کرے تو اسے روکا جائے۔ یہ محبت و ادب کا تقاضا ہے کہ ہم جس سے محبت رکھتے ہیں اس کے خلاف کوئی بھی ایسی گفتگو برداشت نہیں کرتے جس سے محبوب کی تذلیل ہوتی ہو، تو اہلِ بیت تو بدرجۂ اولیٰ محبت کے حق دار ہیں اور ان کی محبت ہمارے دل میں طبعی ہونی چاہئے۔

میں اپنے مضمون کو اختتام پذیر کرنے سے پہلے اہلِ بیت کی مدح کرنا چاہوں گی اور یہ بھی ان حضرات کے حقوق میں شامل ہے کہ راہِ فقر میں تمام مقامات اور منازل اہلِ بیت کے وسیلے سے عطا ہوتے ہیں، اہلِ بیتِ اطہار کی محبت ہم پر واجب ہے۔