پارہ 15 سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر 32 میں ارشاد ہوتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔

مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ نور العرفان میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: زنا یعنی بدکاری کے اسباب سے بھی بچو لہٰذا بدنظری، غیر عورت سے خلوت (تنہائی) عورت کی بے پردگی وغیرہ سب ہی حرام ہیں بخار روکنے کے لیے نزلہ روکو، طاعون سے بچنے کے لیے چوہوں کو ہلاک کرو، پردہ کی فرضیت، گانے باجے کی حرمت، نگاہ نیچی رکھنے کا حکم یہ سب زنا سے روکنے کے لیے ہے۔ (نور العرفان، پ 15، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: 32)

آج ہم اپنے مسلم معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو حالات انتہائی نازک ہیں، مردوں اور عورتوں کا اختلاط، بے پردگی، مخلوط تعلیمی اداروں کا نظام، الغرض ہر طرف فحاشی و عریانی کا ایک سیلاب ہے جو ہمیں تباہی و بربادی کی طرف بہائے لیے جا رہا ہے لیکن ہمیں اس سیلاب کے آگے بند باندھنا ہوگا ہمیں ہتھیار نہیں ڈالنے ہمیں نہ صرف بدکاری بلکہ اس کی طرف لے جانے والے تمام اسباب کا بھی سد باب کرنا ہوگا تاکہ ہم ایک پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی گزار سکیں جس طرح قرآن پاک میں بدکاری سے بچنے کا حکم آیا بالکل اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس فعل بد کی ممانعت آئی ہے، چنانچہ ذیل میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ زنا کبیرہ گناہوں میں سے بہت بڑا گناہ ہے اور زانی پر قیامت تک اللہ پاک، ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت برستی رہے گی اور اگر وہ توبہ کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لے گا۔(آنسوؤں کا دریا، ص 226)

2۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جب بندہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا تو شرک کے بعد اس کا کوئی گناہ زنا سے بڑھ کر نہ ہوگا اور اسی طرح وہ شخص جو اپنے نطفے کو حرام رحم میں رکھتا ہے وہ بھی ایسا ہی ہے قیامت کے دن زانی کی شرمگاہ سے ایسی پیپ نکلے گی کہ اگر اس میں سے ایک قطرہ سطحِ زمین پر ڈال دیا جائے تو اس کی بو کی وجہ سے ساری دنیا والوں کا جینا دوبھر ہو جائے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 227)

3۔ زنا تنگ دستی پیدا کرتا ہے اور چہرے کا نور ختم کر دیتا ہے اللہ فرماتا ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں زانی کو تنگ دست کر دوں گا اگرچہ کچھ عرصہ بعد سہی۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 227)

4۔ زنا سے بچتے رہو کیونکہ یہ جسم کی تازگی کو ختم کرتا ہے اور طویل محتاجی کا سبب ہے اور آخرت میں اللہ کی ناراضگی حساب کی سختی اور ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانے کا سبب ہے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 228)

5۔ حضرت لقمان حکیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے سے ارشاد فرمایا: بیٹا بدکاری سے بچ کر رہنا کیونکہ اس کی ابتدا خوف اور انتہا ندامت ہے اور اس کا انجام جہنم کی وادی آثام ہے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 235)

اب بدکاری کے چند اسباب کے متعلق بھی جان لیتے ہیں، چنانچہ

پہلا سبب یہ ہے کہ اجنبی عورتوں سے بے تکلف ہونا اور انہیں چھونا و مس کرنا، بد قسمتی سے آج کل حالات بڑے ناگفتہ بہ ہیں، مردوں اور عورتوں کا اختلاط عام ہو چکا ہے چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورتوں کے ساتھ تنہائی اختیار کرنے سے بچو اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے جو شخص کسی عورت کے ساتھ تنہائی اخیتار کرتا ہے تو ان کے درمیان شیطان ہوتا ہے اور کسی شخص کا سیاہ بدبودار کیچڑ میں لت پت خنزیر کو چھونا اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ اس کے کندھے ایسی عورت کے کندھوں کے ساتھ مس ہوں جو اس کے لیے حلال نہیں۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، 2/6)

معلوم ہوا جہاں مرد و عورت تنہا ہوتے ہیں وہاں شیطان بھی ہوتاہے لہٰذا اس بے جا اختلاط سے بچیے۔

بدکاری کا دوسرا سبب ہے اخلاق سوز ناول و کتابیں پڑھنا اور حیا سوز تصاویر، فلمیں ڈرامے اور سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال بھی بدکاری کی طرف لے جانے کا بہت بڑا سبب ہے، انسان جو کچھ پڑھتا یا دیکھتا ہے اس کا اثر اس کے دل پر ہوتا ہے اور پھر اسی طرح کے خیالات جنم لیتے ہیں موجودہ دور میں میڈیا بدنگاہی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بہت ساری معاشرتی برائیوں کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔

تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: آنکھیں بھی بدکاری کرتی ہیں۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، 2/6)

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنکھوں کی بدکاری دیکھنا ہے۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، 2/5)

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو آدمی اپنی آنکھوں کو بند کرنے پر قادر نہیں ہوتا وہ اپنی شرمگاہ کی بھی حفاظت نہیں کرسکتا۔ (احیاء علوم الدین، 3/125)

تو معلوم ہوا کہ بدنگاہی انسان کے بدکاری میں مبتلا ہونے کا ذریعہ ہے لہٰذا ہمیں اپنی آنکھوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔

معاشرے کو فحاشی و بدکاری کے طوفان سے بچانے کے لیے دو مدنی پھول پیش خدمت ہیں:

پہلا یہ کہ معاشرے میں حیا کو عام کرنا ہوگا ہمیں اگر اپنے معاشرے کو پاکیزہ بنانا ہے تو اس کے لیے شرم و حیا کے پیغام کو عام کرنا ہوگا کیونکہ حیا ایک ایسی چیز ہے جہاں یہ ہو وہاں سے برائی ختم ہو جاتی ہے اور جہاں حیا نہ ہو وہاں فحاشی و عریانی ڈیرے ڈال لیتی ہے چنانچہ منقول ہے کہ جس میں حیا نہیں اس کا جو جی چاہے کرے۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3483)

امیر اہلسنت فرماتے ہیں: اللہ سے حیا یہ ہے کہ اس کی ہیبت و جلال اور اس کا خوف دل میں بٹھائے اور ہر اس کام سے بچے جس سے اس کی ناراضگی کا اندیشہ ہو۔

اسلام میں حیا کو بہت اہمیت دی گئی ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (مؤطا امام مالک، 2/405، حدیث: 1724)

ایک اور حدیث شریف میں ہے: حیا ایمان سے ہے۔ (مؤطا امام مالک، 2/405، حدیث: 1725)

تو ہمیں چاہیے کہ خود بھی با حیا بنیں اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو بھی حیادار بنانے کی کوشش کریں۔

دوسرا مدنی پھول یہ ہے کہ بے پردگی کا خاتمہ کرنا ہے، بدکاری کا راستہ روکنے کے لیے معاشرے میں بے پردگی کا رواج ختم کرنا ہوگا اور پردہ نافذ کرنا ہوگا کیونکہ عورت کا حسن و جمال اور پھر اس کا بن سنور کر بے پردہ نکلنا بہت سارے گناہوں کے دروازے کھول دیتا ہے اللہ کے محبوب ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت چھپانے کی چیز ہے جب وہ نکلتی ہے تو اسے شیطان جھانک کر دیکھتا ہے۔ (ترمذی، 2/392، حدیث: 1172)

حتی الامکان بے پردگی وغیرہ کے معاملے میں عورتوں کو روکا جائے مگر حکمت عملی کے ساتھ، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ سختی کر بیٹھیں جس سے گھر کا امن ہی تہہ و بالا ہوکر رہ جائے۔

اللہ پاک ہمیں ان مدنی پھولوں پر عمل کر کے اپنے معاشرے کو بدکاری جیسے گناہ کبیرہ کی نحوست سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔