مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از اخت فیصل،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
حضور ﷺ خاتم
النبیین ہے آپ ﷺ کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی مختلف زمانوں میں بہت سے کذاب نے
نبوت کا دعویٰ کیا جیسے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی اور بہت سے جھوٹوں نے تو ان نبوت
کے جھوٹے دعوے داروں کے ساتھ صحابہ کرام، تابعین، تبعِ تابعین، صالحین اور علمائے
کرام نے مختلف زمانوں میں جنگ لڑ کر، اعلانات کر کے اور دیگر طریقے اپنا کر عقیدہ ختمِ
نبوت کی حفاظت کی تو آئیے عقیدہ ختمِ نبوت کی حفاظت کے لیے چند صحابہ کرام کا
کردار ملاحظہ فرمائیں:
حضرت
ابوبکر صدیق، خالد بن ولید اور بیشتر صحابہ کرام کا کردار: مسلمانوں کے
پہلے خلیفہ، امیر المومنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں نبوت کا جھوٹا
دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذاب اور اس کے پیروکار وں سے جنگ لڑنے کے لیے صحابی رسول
خالد بن ولید کی سربراہی میں 24 ہزار صحابہ کرام کا لشکر بھیجا گیا جس میں حافظ و
قاری قرآن صحابہ کرام بھی شامل تھے انہوں نے مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے لشکر کے
ساتھ جنگ کی، تاریخِ اسلام میں اس جنگ کو جنگ یمامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس
جنگ میں 1200 صحابہ کرام نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ وقاری قرآن
صحابہ کرام تھے جبکہ مسیلمہ کذاب سمیت اس کے لشکر کے 20 ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور
اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل فی التاریخ،2/218 تا 224)
جنگ یمامہ میں
24 ہزار صحابہ کرام نے شریک ہو کر 1200 نے جام شہادت نوش کر کے عقیدہ ختمِ نبوت کی
حفاظت کی اور امت کو درس دیا کہ نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے خلاف جنگ کریں۔
حضرت
فیروز دیلمی کا کردار: حضرت فیروز دیلمی ایک صحابی رسول تھے جو دسویں سال
ایمان لائے وہ نجاشی کے بھانجے تھے اور یمن میں آباد تھے اور انہوں نے ہی سب سے
پہلے ایک نبوت کے جھوٹے دعوے دار کو قتل کیا، چنانچہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اسود
عنسی نامی شخص نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا سرکار دوعالم ﷺ نے اس کے شر و فساد سے
لوگوں کو بچانے کے لیے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اسے نیست ونابود کردو حضرت فیروز
دیلمی نے اس کے محل میں داخل ہو کر اسے قتل کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے
غیب کی خبر دیتے ہوئے مدینہ منورہ میں مرض وفات کی حالت میں صحابہ کرام کو خبر دی
کہ آج اسود عنسی مارا گیا اور اسے اہل بیت میں سے ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا
ہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا: فیروز کامیاب ہوگیا۔ (خصائص کبریٰ 1/467)
حضرت
عثمان غنی کا کردار: مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ کے دور میں حضرت عبداللہ
بن مسعود نے کوفہ میں کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب کی
تشہیر کرتے اور اس کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت
عثمان غنی کو اس بارے میں خط لکھا۔
حضرت عثمان
غنی نے جواب میں لکھا کہ ان کے سامنے دین حق لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کی
گواہی پیش کرو جو اسے قبول کر لے اور مسیلمہ کذاب سے براءت و علیحدگی اختیار کرے اسے
قتل نہ کرنا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا ان میں سے
کئی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو انہیں چھوڑ دیا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب پر
رہے تو ان کو قتل کر دیا۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، 8/350، رقم: 16852)
حضرت عثمان
غنی کے اس خط اور صحابہ کرام کے اس عمل سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ جو نبوت کا جھوٹا
دعویٰ کرے یا دعویٰ کرنے والوں کی پیروی کرے تو اول اس پر اسلام پیش کیا جائے تو
اگر وہ مان لیں اور ایمان لے آئے تو چھوڑ دیا جائے اور اگر ایمان نہ لائے تو اس پر
بالکل بھی رحم نہ کھایا جائے اور اسے قتل کر دیا جائے۔
حضرت
ثمامہ کا قول: صحابی
رسول حضرت ثمامہ بن اثال نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب سے بے حد نفرت کرتے
تھے ایک مرتبہ آپ نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ تاریخی جملے ادا کیے: محمد
رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہ تو کوئی اور نبی ہے نہ ان کے بعد کوئی نبی ہے جس طرح اللہ
پاک کی الوہیت میں کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح محمد مصطفیٰ ﷺ کی نبوت میں کوئی شریک
نہیں ہے۔ (ثمار القلوب فی المضاف و المنسوب،1/261)
عقیدہ ختمِ
نبوت میں صحابہ کرام کا بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے جسے اس مختصر تحریر میں بیان
نہیں کیا جا سکتا۔