مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت تنویر، جامعۃ المدینہ اگوکی سیالکوٹ
اللہ پاک قرآن
مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ
رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ
اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ 22، الاحزاب:
40) ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب
نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
اس آیت مبارکہ
میں خاتم النبیین کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ محمد مصطفیٰ ﷺ آخری نبی ہیں کہ
اب آپ کے بعدکوئی نبی نہیں آئے گا اورنبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے
بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو ں گے تو
اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد نبی کریم ﷺ کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے
اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز
پڑھیں گے۔ (خازن، 3/ 503)
نبی
اکرم ﷺ کا آخری نبی ہونا قطعی ہے: یاد رہے کہ حضور اقدس ﷺ کا آخری نبی
ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیت قرآن و حدیث و اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ قرآن مجید کی
صریح آیت بھی موجود ہے اور احادیث تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور امت کا اجماع
قطعی بھی ہے، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم ﷺ سب سے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد
کوئی نبی ہونے والا نہیں۔ جو حضور پر نور ﷺ کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا
ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس
طرح لا الٰہ الّا اللہ ماننا، اللہ سبحٰنہٗ کو احد، صمد، لا شریک لہ (یعنی ایک، بے
نیاز اور اس کا کوئی شریک نہ ہونا) جاننا فرض اوّل و مناطِ ایمان ہے، یونہی محمد
رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی ٔجدید
کی بعثت کو یقینا محال وباطل جاننا فرض اجل وجزءِ ایقان ہے۔ وَ لٰكن رّسول اللہ و خاتم
النّبیّٖن
نص قطعی قرآن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف
احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مخلّد فی النیران
(یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ
پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تردّد
کو راہ دے وہ بھی کافر بین الکافر جلیّ الکفران (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر
روشن) ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 15/ 630)
اب اس مسئلہ ختمِ
نبوت کے مضمون پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال و افعال ذکر کیے
جائیں گے جن کے پڑھنے سے یقینا عقیدہ ختمِ نبوت کو مزید تقویت و پختگی ملے گی ان
شاءاللہ۔ ختمِ نبوت صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، سلف صالحین، علمائے کاملین
اور تمام مسلمانوں کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے۔
حضرت
فیروز دیلمی کا جذبہ: نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے یمن
میں نبوت کا دعویٰ کیا، سرکار اقدس ﷺ نے اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے کے لیے
صحابہ کرام سے فرمایا : اسے نیست و نابود کردو۔ حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے
اس کے محل میں داخل ہوکر اسے قتل کردیا۔ آقا ﷺ نے غیب کی خبر دیتے ہوئے مدینہ
منورہ میں مرض وصال کی حالت میں صحابہ کرام کو یہ خبر دی کہ آج اسود عنسی مارا گیا
اور اسے اس کے اہل بیت میں سے ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا ہے۔ پھر فرمایا: فاز
فیروز یعنی فیروز کامیاب ہوگیا۔ (خصائص کبریٰ، 1/ 467 ملخصا)