سرکار مدینہ ﷺ کے زمانے یا حضور اکرم ﷺ کے بعد قیامت تک کسی کو نبوت ملنا ناممکن ہے، یہ دین اسلام کا ایسا بنیادی عقیدہ ہے کہ جس کا انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنے والا کافر و مرتد ہو کر دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان جہاں دیگر معاملات میں آقا کریم ﷺ کے وفادار رہے اسی طرح ختمِ نبوت کے تحفظ میں بھی نہایت اہم کردار ادا کیا اور نبوّت کے جھوٹے دعویداروں کے خلاف جہاد اور سخت کاروائیاں کیں،خواہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ عہد نبوی میں کیا یا اس کے بعد،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا تحفظ ختمِ نبوت میں جو عظیم کردار رہا اس کا اندازہ ذیل میں بیان کی گئی روایات سے لگایا جا سکتا ہے، چنانچہ

حضور خاتم الانبیا کے دور مبارک میں اسود عنسی نامی ایک بدبخت نے نبوّت کا دعویٰ کیا، 10 سن ہجری یمن میں اس کذاب کا ظہور ہوا اس کا پورا نام عبھلہ بن کعب عنسی اور لقب ذوالخمار تھا۔ بعض نے ذوالحماربھی ذکر کیا ہے۔ اس کے قتل کیلئے حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کو خود نبی کریم ﷺ نے ایک خصوصی مہم پر روانہ فرمایا حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ اسود کے شہر صنعاء (یمن)میں پہنچ کر چھپ گئے اور ایک رات اسود کی رہائش گاہ کی دیوار میں نقب لگائی اور بڑی جدوجہد کے بعد اسود عنسی کو جہنم واصل کیا۔

اسی طرح طلحہ اسدی یہ بھی حضور ﷺ کے زمانہ میں مرتد ہوگیا تھا اور پھر نبوت کا دعویٰ کیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس کے قتل کیلئے حضرت ضرار بن ازور کو بھیجا تھا۔ لیکن نبی کریم ﷺ کی رحلت کے بعد اس شخص کا معاملہ انتہائی سنگین ہوگیا اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اس کیخلاف جہاد کیا گیا۔

اسی طرح امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں کفار و مرتدین کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں میں سے ایک اہم جنگ جنگ یمامہ بھی ہے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب اور اس کے متبعین کے خلاف لڑی گئی، مفکر اسلام حضرت علّامہ شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ کے دس سالہ مدنی دور میں غزوات اور سرایا ملا کر کل 74 جنگیں ہوئیں جن میں کل 259 صحابہ شہید ہوئے جبکہ مسیلمہ کذّاب کے خلاف جو جنگ یمامہ لڑی گئی وہ اس قدر خون ریز تھی کہ صرف اس ایک جنگ میں 1200صحابہ کرام شہید ہوئے جن میں سات سو حفاظ صحابہ بھی شامل ہیں۔ (ختم نبوت، ص83)

اس جنگ میں حضرت وحشی رضی اللہ عنہ بھی شریک ہوئے اور آپکو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ نبوت کا جھوٹا دعویدار مسیلمہ کذاب آپ ہی کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا۔ مسیلمہ کذاب کو قتل کرنے کے بعد حضرت وحشی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : اگر میں نے (اسلام لانے سے قبل ) بہترین انسان ( یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ) کو شہید کیا ہے تو ( اسلام لانے کے بعد ) بدترین انسان ( یعنی مسیلمہ کذاب ) کو بھی قتل کیا ہے۔ (فیضان صدیق اکبر، ص 388)

نہ صرف مرد بلکہ بنو تمیم کے قبیلہ تغلب سے تعلق رکھنے والی ایک عورت نے بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جھوٹی نبوت کا دعوی کردیا۔اور بنی تغلب کے بعض سردار بھی اس کے ہمراہ ہوگئے۔عراق سے بڑا لشکر ساتھ لائی اور مدینہ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ پھر مسیلمہ کذاب سے مل گئی اور اس سے نکاح کرلیا۔ حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے اس کے خلاف بھی جہاد کیا۔

ان تمام روایات و واقعات کے علاوہ دیگر بھی کئی روایات ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ صحابۂ کرام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنا عقیدہ واضح کردیا کہ حضور نبیّ کریم ﷺ اللہ پاک کے آخری نبی و رسول ہیں، حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا اور اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو اس کے ساتھ کسی طرح کی نرمی نہیں برتی جائے گی بلکہ اس سے اعلان جنگ کیا جائے گا۔

اللہ کریم صحابہ کرام علیہم الرضوان کے صدقے ہمیں بھی عقیدہ ختمِ نبوت کی حفاظت کے لیے جان مال اولاد سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین