مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت محمد اشرف، جامعۃ المدینہ سمندری فیصل آباد
ختمِ نبوت اسلام
کا ایک بنیادی اور قطعی عقیدہ ہے جس کا تحفظ ہر مسلمان پر لازم ہے۔ قرآن مجید نے
نبی کریم ﷺ کو خاتم النبیین (تمام انبیاء کے خاتم) قرار دیا، اور خود رسول اللہ ﷺ
نے متعدد احادیث میں یہ بات واضح فرما دی کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
جب رسول اللہ
ﷺ کا وصال ظاہری ہوا اور مسیلمہ کذاب جیسے جھوٹے مدعیان نبوت نے سر اٹھایا تو اس
فتنے کا سب سے پہلا اور بھرپور رد عمل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے آیا۔ ان
عظیم شخصیات نے اپنی جانیں قربان کر کے، اپنی تلواریں نیام سے نکال کر اور اپنی
زبانوں سے کھل کر اعلان کر کے ثابت کیا کہ ختمِ نبوت کا دفاع ایمان کا تقاضا ہے۔
ان کے نزدیک
یہ مسئلہ صرف ایک نظریاتی بحث نہ تھا، بلکہ ایمان و کفر کا فیصلہ کن معیار تھا۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مرتدین اور جھوٹے نبیوں کے خلاف
جہاد کو سب سے پہلی ترجیح دی، حالانکہ اس وقت امت کو کئی دوسرے بڑے مسائل درپیش
تھے۔
نبیّ کریم ﷺ کے
زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا، سرکار دو عالم ﷺ نے
اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے کے لئے صحابۂ کرام سے فرمایا کہ اسے نیست و
نابود کردو۔ حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے اس کے محل میں داخل ہوکر اسے قتل
کردیا۔ رسول کریم ﷺ نے غیب کی خبر دیتے ہوئے مدینۂ منورہ میں مرض وصال کی حالت میں
صحابۂ کرام کو یہ خبر دی کہ آج اسود عنسی مارا گیا اور اسے اس کے اہل بیت میں سے
ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا ہے، پھر فرمایا : فیروز کامیاب ہوگیا۔ (خصائص
الکبریٰ، 1 / 467)
مسلمانوں کے
پہلے خلیفہ، امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے زمانے
میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذّاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے
لئے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر
بھیجا جس نے مسیلمہ کذّاب کے 40ہزار کے لشکر سے جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے
نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں
700 حافظ و قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے جبکہ مسیلمہ کذّاب سمیت اس کے لشکر کے
20ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل
فی التاریخ، 2 / 218 تا 224)
مفکر اسلام
حضرت علّامہ شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ کے دس
سالہ مدنی دور میں غزوات اور سرایا ملا کر کل 74 جنگیں ہوئیں جن میں کل 259 صحابہ
شہید ہوئے جبکہ مسیلمہ کذّاب کے خلاف جو جنگ یمامہ لڑی گئی وہ اس قدر خونریز تھی
کہ صرف اس ایک جنگ میں 1200صحابہ شہید ہوئے جن میں سات سو حفاظ صحابہ بھی شامل
ہیں۔ (ختم نبوت، ص83)
ختمِ نبوت کے
معاملے میں جنگ یمامہ میں 24ہزار صحابۂ کرام نے شریک ہوکر اور 1200 صحابۂ کرام نے
اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنا عقیدہ واضح کردیا کہ حضور نبیّ کریم ﷺ اللہ
پاک کے آخری نبی و رسول ہیں، حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا اور اگر
کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو اس سے اعلان جنگ کیا جائے گا۔
صحابۂ کرام
رضی اللہ عنہم نے ختمِ نبوت کے عقیدے کی حفاظت کے لیے جو قربانیاں دیں، وہ رہتی
دنیا تک مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ انہوں نے نہ صرف جھوٹے مدعیان نبوت کے خلاف
جہاد کیا بلکہ پوری امت کو یہ پیغام دیا کہ عقیدہ ختمِ نبوت پر کوئی سمجھوتہ ممکن
نہیں۔ حضرات صحابہ نے جس عزم، غیرت ایمانی اور قربانی کا مظاہرہ کیا، وہ اس بات کا
ثبوت ہے کہ ختمِ نبوت ایمان کا بنیادی ستون ہے، اور اس کے تحفظ کے لیے ہر دور کے
مسلمانوں کو ویسی ہی بیداری، قربانی اور استقامت دکھانی ہوگی۔