ختمِ نبوت سے مراد یہ ہے کہ جو سلسلہ نبوت اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا اس کی انتہا محمد عربی ﷺ کی ذات اقدس پر فرمائی یعنی حضور ﷺ پر نبوت ختم ہو گئی آپ ﷺ آخری رسول ہیں آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا اس عقیدے کو شریعت کی اصطلاح میں عقیدہ ختمِ نبوت کہا جاتا ہے۔

عقیدہ ختمِ نبوت ان عقائد میں سے ہے جس کو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کیا گیا ہے اسی لیے عہد نبوت سے لے کر آج تک ہر مسلمان بغیر کسی تاویل و تخصیص کے آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے پر ایمان رکھتا آیا ہے۔

اس عقیدے کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کی 100 آیات مبارکہ اور نبی کریم ﷺ کی 200 سے زائد احادیث مبارکہ سے یہ مسئلہ ثابت ہے اس کا منکر کافر و مرتد ملعون ہے اس میں ادنی سا شک کرنے والا بھی کافر ہے اور عذاب نار کا حقدار ہے۔ (میزان الادیان بالاسلام، ص 54)

عقیدہ ختمِ نبوت پر صحابہ کرام کا کردار: امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے زمانے میں نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے مسیلمہ کذاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے لیے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے لشکر سے جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ و قاری قرآن صحابی بھی شامل تھے جبکہ مسیلمہ کذاب سمیت اس لشکر کے 20 ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔

نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والا یہ مسیلمہ کذاب حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا اس وقت حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں زمانہ کفر میں سب سے اچھے آدمی کا قاتل تھا اور زمانہ اسلام میں سب سے بدتر کا قاتل ہوں۔ (کتاب العقائد، ص 54)

اس عقیدے کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ظاہری حیات میں اسلام کے تحفظ اور دفاع کے لیے جتنی بھی جنگی لڑی گئیں ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام کی کل تعداد 259 ہے اور عقیدہ ختمِ نبوت کی دفاع کے لیے جنگ یمامہ میں 1200 صحابہ کرام شہید ہوئے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی اس عقیدے پر جانثاری سے اس کی عظمت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

اسی طرح جب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے اور اس کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جب اس کے بارے میں خط لکھا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ ان کے سامنے دین حق کی گواہی پیش کرو جو اسے قبول کرے اور مسیلمہ کذاب سے علیحدگی اختیار کر لے اسے قتل نہ کرنا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا ان میں سے جو مسیلمہ کذاب کے دین پر تھے ان لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔

حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب سے اس قدر نفرت کیا کرتے تھے کہ جب کوئی آپ کے سامنے اس کا نام لیتا تو جوش ایمانی سے آپ کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔ آپ نے ایک مرتبہ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ تاریخی جملے ادا کیے: محمد رسول ﷺ کے ساتھ نہ تو کوئی اور نبی ہے نہ ان کے بعد کوئی نبی ہے جس طرح اللہ پاک کے الوہیت میں کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح محمد ﷺ کی نبوت میں کوئی شریک نہیں ہے ۔

اسی طرح نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والا اسود عنسی اس کو صحابی رسول حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے قتل کر کے واصل جہنم کر دیا اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ قبیلہ مراد سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے نبی کریم ﷺ کو اسود عنسی کے بارے میں خبر دی تو پیارے آقا ﷺ نے ان کو خط لکھا کہ تم اکھٹے ہو کر جس طرح ممکن ہو اسود عنسی کے شر و فساد کو ختم کرو اس پر دو اشخاص اسود عنسی کی خواب گاہ میں داخل ہوئے اور حضرت فیروز دیلمی نے اسے قتل کر دیا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی وفات ظاہری سے پہلے ہی خبر دے دی تھی کہ آج رات اسود عنسی مارا گیا ہے اور مرد مبارک نے جو اس کے اہل بیت سے ہے اس نے اسے قتل کیا ہے اس کا نام فیروز ہے اور فرمایا : فاز فیروز یعنی فیروز کامیاب ہوا۔ (کتاب العقائد، ص 50)

یہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا ایمانی جذبہ تھا کہ ان لوگوں نے عقیدہ ختمِ نبوت کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں اور نبوت کے جھوٹے دعویداروں کو واصل جہنم کیا۔

اللہ پاک ہمیں بھی عقیدہ ختمِ نبوت کی حفاظت کرنے اور اس پر ہمیشہ قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسی عقیدے پر ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آمین