اللہ پاک نے حضرت محمد ﷺ کو تمام انبیا و مرسلین کے بعد سب سے آخری میں دنیا میں بھیجا حضرت محمد ﷺ پر رسالت و نبوت ختم ہو گئی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارکہ اور آپ کی ظاہری وصال کے بعد سے قیامت تک کسی کو نبوت ملنا ممکن نہیں ہے اگر کوئی حضور کو آخری نبی نہ مانے یا اس میں ذرہ برابر بھی شک کرے تو وہ کافر و مرتد ہو کر دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے۔

ختمِ نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقیدے میں سے ہے جو اسلام کے حصول اور ضروریات دین میں شمار ہوتے ہیں اور عہد نبوت سے لے کر آج تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آ یا کہ حضور ﷺ بلا کسی تاویل و تخصیص کے خاتم النبیین ہیں اور یہ مسئلہ قرآن و کریم میں صریح آیات اور احادیث متواتر اور اجماعِ امت سے ثابت ہے جس کا منکر قطعا کافر ہے اور کوئی تاویل و تخصیص اس بارے میں قبول نہیں کی گئی۔

حضرت ابوبکر اور جماعتِ صحابہ کا کردار: حضرت ابوبکر نے رسول کریم ﷺ کے زمانے میں نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے مسیلمہ کذاب اور اس کے لوگوں سے جنگ کے لئے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے مسیلمہ کذّاب کے 40ہزار کے لشکر سے جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ و قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے جبکہ مسیلمہ کذّاب سمیت اس کے لشکر کے 20ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل فی التاریخ، 2 / 218 تا 224)

آپ نے مدعی نبوت اور اس کے لوگوں سے جہاد و قتال کو یہود اور نصاری اور مشرکین سے جہاد و قتل پر مقدم سمجھا جس سے معلوم ہوا کہ مدعی نبوت اور اس کے لوگوں کا کفر یہود اور نصاری اور مشرکین کے کفر سے بڑا ہے عام کفار سے صلح ہو سکتی ہے اور ان کا جزیہ بھی قبول کیا جا سکتا ہے مگر مدعی نبوت سے نہ تو کوئی صلح ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان سے کوئی جزیہ قبول کیا جا سکتا ہے۔

مسیلمہ کذاب کا کفر فرعون کے کفر سے بڑھ کر ہے اس لیے کہ فرعون مدعی الوہیت تھا اور الوہیت میں کوئی التباس اور اشتباہ نہیں ادنی عقل والا سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص کھاتا اور پیتا اور سوتا اور جاگتا اور ضرورت انسانی میں مبتلا ہوتا ہے وہ خدا کہاں سے ہو سکتا ہے؟ مسیلمہ کذاب مدعی نبوت تھا اور ظاہری بشر کے اعتبار سے سچے نبی اور جھوٹے نبی میں التباس ہو سکتا ہے اس لیے مدعی نبوت کا فتنہ مدعی الوہیت کے فتنے سے کہیں اہم اور عظیم ہے اور ہر زمانے میں خلفا اور سلاطین اسلام کا یہی معمول رہا ہے کہ جس نے نبوت کا دعوی کیا اسی وقت اس کا سر قلم کیا۔

حضرت عثمان غنی کا کردار: حضرت عبداللہ بن مسعود نے کوفے میں کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعوی دار مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے اور اس کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ان پر اسلام پیش کرو جو اسلام قبول کر لے ان کو چھوڑ دو اور جو نہ کرے ان کو قتل کر دو۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، 8/ 350، رقم: 16852)

حضرت فیروز دیلمی کا کردار: نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے یمن میں نبوت کا دعوی کیا حضرت محمد ﷺ نے اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے کے لیے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اسے نیست و نابود کر دو حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے اس کے محل میں داخل ہو کر اس کو قتل کر دیا حضرت محمد ﷺ نے حالتِ وصال میں غیب کی خبر دیتے ہوئے فرمایا : اسود عنسی مارا گیا ہے اور اس کے اہل بیت کے ایک مرد نے اس کو قتل کیا ہے۔ حضور نے فرمایا: فیروز کامیاب ہوگیا۔ (مدارج النبوۃ مترجم، 2/ 481ملخصا )

نبی کریم ﷺ نے نبوت کے دعوے کرنے والوں کے بارے میں پہلے سے خبر دے دی تھی جن صحابہ کرام کے زمانہ مبارکہ میں نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہوئے صحابہ کرام کا ایمان جوش مارا اور انہوں نے نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کو قتل کر دیا۔

اللہ پاک ہم سب کا ایمان محفوظ فرمائے اور ہمیں اس فتنے سے دور رکھے اور ہمارا عقیدہ ختمِ نبوت محفوظ رکھے۔ آمین