مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت عمران، جامعہ غوث جیلانی میرپورخاص
صحابہ کرام
علیہم الرضوان اس امت کا سب سے بہترین طبقہ ہیں۔ انہوں نے براہ راست پیارے آقا ﷺ سے
دین سیکھا۔ان کا کسی بات پر اتفاق اس بات کے حق ہونے کی دلیل ہے۔ صحابہ کرام کا اس
بات پر اجماع ہے کہ پیارے آقا ﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں
آئے گا۔ اس عقیدے کے تحفظ کے لیے صحابہ کرام نے نمایاں کردار ادا کیا۔ آئیے ملاحظہ
کیجئے:
کردار
خلیفہ اول: جنگ
یمامہ یہ وہ جنگ ہے جو عہدِ ابوبکر صدیق میں آپ کے حکم سے نبوت کے جھوٹے دعویدار
مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی۔ اس جنگ میں مسیلمہ کذاب سمیت اس کے لشکر کے 20 ہزار
لوگ ہلاک ہوئے۔ اور 1200 صحابہ کرام نے جام شہادت نوش فرمایا۔ اتنے کثیر صحابہ
کرام نے شہید ہو کر اپنا یہ عقیدہ واضح کردیا کہ حضور ﷺ ہی خاتم النبیین ہیں۔ (الکامل
فی التاریخ،2/218تا 224)
کردار
خلیفہ ثالث: حضرت
عثمان غنی کو خط کے ذریعے اس بات کی خبر پہنچی کہ جو لوگ نبوت کے جھوٹے دعویدار
مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے تھے وہ پکڑے گئے ہیں تو آپ نے جواباً لکھا۔ ان پر دین
حق اور لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کی گواہی پیش کرو جو اسے قبول کرلے اور
مسیلمہ کذاب سے علیحدگی اختیار کرلے اسے قتل نہ کرنا،اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب
کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا۔ چنانچہ اس فرمان پر عمل کیا گیا۔ (سنن کبریٰ للبیہقی،8/350،
رقم:16852)
کردار
فیروز دیلمی: حضور
ﷺ کے زمانے میں اسود عنسی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا حضرت فیروز دیلمی نے اسے قتل
کر دیا۔ حضور نے فرمایا: فیروز کامیاب ہو گیا۔ (خصائص کبریٰ، 1/467)
حدیث پاک میں
ہے: میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کے پیچھے چلو گے راہ پاؤ گے۔
(مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث:6018)