اللہ پاک نے حضور نبی کریم ﷺ کو دنیا میں تمام انبیا و مرسلین کے بعد سب سے آخر میں بھیجا اور رسول کریم ﷺ پر رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم فرمادیا۔ سرکار مدینہ ﷺ کے زمانے یا حضور اکرم ﷺ کے بعد قیامت تک کسی کو نبوت ملنا ناممکن ہے، یہ دین اسلام کا ایسا بنیادی عقیدہ ہے کہ جس کا انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنے والا کافر و مرتد ہوکر دائرۂ اسلام سے نکل جاتا ہے۔

مسلمانوں کے پہلے خلیفہ، امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے زمانے میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذّاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے لئے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے مسیلمہ کذّاب کے 40ہزار کے لشکر سے جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ و قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے جبکہ مسیلمہ کذّاب سمیت اس کے لشکر کے 20ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔

مفکر اسلام حضرت علّامہ شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ کے دس سالہ مدنی دور میں غزوات اور سرایا ملا کر کل 74 جنگیں ہوئیں جن میں کل 259 صحابہ شہید ہوئے جبکہ مسیلمہ کذّاب کے خلاف جو جنگ یمامہ لڑی گئی وہ اس قدر خونریز تھی کہ صرف اس ایک جنگ میں 1200صحابہ شہید ہوئے جن میں سات سو حفاظ صحابہ بھی شامل ہیں۔ ختمِ نبوت کے معاملے میں جنگ یمامہ میں 24ہزار صحابۂ کرام نے شریک ہوکر اور 1200 صحابۂ کرام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنا عقیدہ واضح کردیا کہ حضور نبیّ کریم ﷺ اللہ پاک کے آخری نبی و رسول ہیں، حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا اور اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو اس سے اعلان جنگ کیا جائے گا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ختمِ نبوت کے تحفظ میں کردار ایک عظیم اور ابدی میراث ہے۔ ان کی قربانیاں، تعلیمات اور عمل نے نہ صرف عقیدہ ختمِ نبوت کو امت مسلمہ میں راسخ کیا بلکہ اسے ہر قسم کے اندرونی و بیرونی چیلنجز سے محفوظ بھی رکھا۔ ان کی خدمات کا فیض آج تک جاری ہے اور رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔

ختمِ نبوت کے عقیدے کا تحفظ نہ صرف ایک دینی فریضہ ہے بلکہ امت مسلمہ کی وحدت اور بقا کا بھی ضامن ہے۔ صحابہ کرام کی زندگیوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اس عقیدے کی حفاظت کے لیے ایمان، عمل، قربانی اور استقامت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ختمِ نبوت کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانے کی توفیق دے۔ آمین