مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت خلیل، جامعۃ المدینہ جوہر ٹاؤن لاہور
اللہ نے حضور
اکرم ﷺ کو خاتم النبیین بنا کر بھیجا۔ اس کے بعد کسی کو نبوت ملنا ممکن نہیں۔ یہ
عقیدہ ضروریات دین میں سے ہے۔ جس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنے والا دائرہ
اسلام سے خارج ہو کر کافر و مرتد ہو جاتا ہے۔ عقیدہ ختمِ نبوت ایک ایسا عقیدہ ہے
جس کا ذکر قرآن سے بکثرت ملتا ہے۔ پیارے آقا ﷺ کی احادیث بھی حد تواتر تک پہنچتی
ہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی اس کے منکرین کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ یہاں تک
کہ علمائے اہل سنت نے اس عقیدے میں ذرہ برابر بھی شک کرنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔
تمام علما کا اتفاق ہے کہ اس میں تھوڑی سی بھی گنجائش نکالنے والا کافر و مرتد ہے۔
کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا؟ لا نبی بعدی یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے
گا اور قرآن میں بھی اللہ نے آپ کو خاتم النبیین فرمایا ہے۔ اب یہاں صحابہ کرام علیہم
الرضوان کے عقیدہ ختمِ نبوت کے متعلق کچھ اقوال صحابہ ملاحظہ کریں۔
حضرت
ابو بکر صدیق اور جماعت صحابہ کا عقیدہ: مسلمانوں کے پہلے خلیفہ، امیر
المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نبوت کا
جھوٹا دعوی کرنے والے مسیلمہ کذاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے لئے صحابی رسول
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے
مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے لشکر سے جنگ کی۔ تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے نام سے یاد
کیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ و
قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے۔ جبکہ مسیلمہ کذاب سمیت اس کے لشکر کے 20 ہزار لوگ
ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل فی التاریخ،
2/218تا 224)
صحابہ کرام
علیہم الرضوان نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے اپنا عقیدہ واضح کر دیا کہ حضور
خاتم النبیین ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا اور اگر
کوئی نبوت کا دعوی کرے تو اس سے اعلان جنگ کیا جائے گا۔
حضرت
عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ: حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ
نے کوفہ میں کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے اور
اس کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ نے فرمایا: ان
کے سامنے دین حق اور لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کی گواہی پیش کرو۔ جو اسے
قبول کر لے اور مسیلمہ کذاب سے براءت و علیحدگی اختیار کرے اسے قتل نہ کرنا اور جو
مسیلمہ کذاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا۔ ان میں کو سے کئی لوگوں نے
اسلام قبول کر لیا تو انہیں چھوڑ دیا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب پر رہے تو ان کو
قتل کر دیا۔ (سنن کبری للبیہقی، 8 / 350، رقم : 16852 )