الله پاک نے حضور ﷺ کو دنیا میں تمام انبیاء و مرسلین کے بعد سب سے آخر میں بھیجا اور رسول ﷺ پر رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم فرمادیا۔ سرکار مدینہ ﷺ کے بعد قیامت تک کسی کو نبوت ملنا ناممکن ہے اور یہ دین اسلام کا ایسا بنیادی عقیدہ ہے کہ جس کا انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر شک کرنے والا کافر و مرتد ہو کر دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔

اس مضمون میں ختمِ نبوت پر صحابہ کرام کے اعمال و اقوال پڑھیں گے جن کے پڑھنے سے ان شاء اللہ عقیدہ ختمِ نبوت کو مزید تقویت و پختگی ملے گی کہ عقیدہ ختمِ نبوت صحابہ کرام تابعین تبع تابعین سلف وصالحین علمائے کاملین اور تمام مسلمانوں کا اجتماعی و اتفاقی عقیدہ ہے۔

مسلمانوں کے پہلے خلیفہ امیر المومنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے زمانے میں نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے مسیلمہ کذاب اور اسکے ماننے والوں سے جنگ کیلئے صحابی رسول خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے لشکر سے جنگ کی تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ (الکامل فی التاریخ، 2/218 تا 224 )

صحابی رسول کا ایک ایک عضو کاٹا گیا: جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب نے ایک صحابی رسول کا ایک ایک عضو کاٹ کر شہید کردیا مسیلمہ نے صحابی سے پوچھا : میرے متعلق تیرا کیا نظریہ ہے؟ پھر کہا محمد ﷺ کو کیا سمجھتے ہو؟ مجھے بھی نبی مانتے ہو یا نہیں؟ انکار کرنے پر صحابی کا ایک بازو کاٹ دیا پھر دوسرا بازو کاٹا پھر تلوار مار کر پوچھتا تھا: مجھے کیا سمجھتا ہے؟ مگر سارا جسم اس زندہ انسان نے کٹوادیا لیکن حضورﷺ کو خاتم النبیین کہتا رہا۔ (خطبات تحفظ ختم نبوت، ص 51)