دینِ اسلام حقوق کا دین
ہے اس میں ہر ایک کے دوسرے پر کیا کیا حقوق ہیں ان کو بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً والدین
کے حقوق ، اولاد کے حقوق ، پڑوسیوں کے حقوق ، رشتہ داروں کے حقوق ، حکمرانوں کے
حقوق ، رعایا کے حقوق وغیرھم ۔
ہم علمائے کرام کثرھم
اللہ کے حقوق پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے ۔ علما کو اللہ پاک نے بہت بڑا مرتبہ و
مقام عطا فرمایا اور قراٰن و حدیث میں ان کی شان بیان ہوئی اسی طرح قراٰن و حدیث میں
ان کے حقوق بھی بیان کیے گئے کہ علما کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے ۔
(1) علما کا احترام کرنا : علما کا ایک بنیادی اور
بہت اہم حق یہ ہے کہ ان کا دل و جان سے احترام کیا جائے چنانچہ حدیث پاک میں ارشاد
ہوا کہ بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا ، حامل قراٰن ( عالم ) کی تعظیم کرنا جو کہ قراٰن
میں غلو کرنے والا اور قراٰن سے کنارہ کشی کرنے والا نہ ہو اور عادل بادشاہ کی تعظیم
کرنا اللہ کی تعظیم کا ہی ایک حصہ ہے ۔(ابو داؤد ، کتاب الادب ، باب فی تنزیل
الناس منازلہم ، حدیث: 4873)
اسلافِ امت رحمہم اللہ بھی
علما کا احترام فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس خود ایک جید عالم
ہونے کے باوجود زین بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سواری کی مہار تھامے اور فرمایا : ہمیں
اپنے علما اور بڑے بزرگوں کا اسی طرح ادب بجا لانے کا حکم دیا گیا ۔
(2) علما سے علم کا حصول: حقوقِ علما میں سے یہ بھی
ہے کہ ان سے علم حاصل کیا جائے چنانچہ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو علم کی تلاش میں چلے گا اللہ اس کے ذریعے
اس شخص کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دے گا ۔(سنن ابی داؤد ، کتاب العلم ، حدیث:
3640)
(3) علما کی برائی سے بچنا: علما کی گستاخیاں ، ان پہ
طعنہ زنی کرنا اور ان کی برائی کرنا عموماً گمراہ لوگوں کا کام ہوتا ہے علما کی
برائی سے بچنا لازم ہے۔ چنانچہ فتاوی رضویہ شریف میں ہے کہ اگر عالم کو اس لئے برا
کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور اگر بوجہِ علم اس کی تعظیم فرض جانتا
ہے مگر اپنی کسی دنیوی خصومت ( جھگڑے ) کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا ، تحقیر
کرتا ہے تو سخت فاسق فاجر ہے اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مریض القلب خبیث الباطن
ہے اور اس کے کفر کا اندیشہ ( ڈر ) ہے۔(فتاوی رضویہ، 21 / 130)
(4) ہم عصر علما کے آپسی اختلافات میں خاموشی
اختیار کرنا: جرح و تعدیل میں علما کے
اقوال اور ان کی آپس میں ایک دوسرے کے متعلق باتیں یہ ایک علمی معاملہ ہے اس میں
اختلاف ہوتا رہتا ہے جس میں ہم پہ لازم و ضروری ہے کہ صحیح العقیدہ علما کے بارے میں
کوئی بھی ایسی بات کرنے سے اجتناب برتیں جس کی شریعت میں ممانعت وارد ہے اسی لیے
علما نے فرمایا کہ ہم عصروں ( ایک دور کے لوگ ) کی آپسی چپقلش کو سمیٹا جائے گا
عام نہیں کیا جائے گا۔
علما پر اعتماد قائم رکھنا: بعض اوقات عوام علما سے
کسی ایسے امر کا مطالبہ کرتے ہیں جس کو علما نہیں کرتے کیونکہ وہ اس کام کے انجام
اور نتائج پہ نظر رکھتے ہیں کیونکہ بعض مصلحتوں کے لیے اس کام کو نہیں کیا جاتا کہ
یہ آگے جا کے کسی فساد و برائی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا فلہذا کبھی کوئی ایسا معاملہ
ہو تو علما پہ یقین رکھیں علما پہ اعتماد بحال رکھیں اور بدظن ہونے سے بچتے رہیں ۔
اللہ پاک ہمیں علمائے
کرام کے حقوق بجا لانے اور ان کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم