دنیا کے بادشاہوں کا قانون یہ ہے کہ جب وہ اپنی بادشاہت سنبھالتے تو وہ اپنی تعظیم اور دربار خاص میں اپنے آداب خود بتاتے ہیں مگر اس کائنات میں ایک ایسے بھی شہنشاہ آئے ہیں جن کااحترام اور بارگاہ میں حاضری کے آداب نہ انہوں نے خود بیان کیے اور نہ ہی مخلوق میں سے کسی نے بنائے بلکہ ان کے احترام و توقیر کے آداب خود مالک مختار، رب ذوالجلال نے اپنے کلام میں بیان فرمایا جن میں سے کچھ ملاحظہ فرمائیں۔

1:حضورِ اکرم ﷺ جب بھی بلائیں فورا ًآپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو جاؤ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ- (الانفال: 24)ترجمہ کنزالعرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔

2: اللہ تعالیٰ نے بارگاہ نبوی کا ادب بیان کرتے ہوئے پارہ 26 سورۃ الحجرات،آیت 2 میں ارشاد فرمایا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمہ کنزالعرفان:اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

3:ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نبی کریم ﷺ کو نہ پکارو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز العرفان: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنا لو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔

4: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) ( البقرۃ: 104) ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔اس آیت میں اللہ پاک نے تعظیم رسول کو واضح فرمایا دیا کہ ایسی بات جس میں ادب ترک ہونے کا شبہ بھی ہو تو اس کے ساتھ بھی آپ کو نہ پکارا جائے۔

5: وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-( الاحزاب: 36) ترجمہ کنز الایمان: اور کسی مسلمان مرد نہ کسی مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرما دیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار ہے۔اس آیت میں بتادیا کہ نبی ﷺ کے حکم کے سامنے مومن کو اپنی جان کے معاملات کا کوئی اختیار نہیں۔ یہ آیت حضرت زینب کے بارے میں نازل ہوئی تھی جب وہ حضرت زید سے نکاح کے لیے تیار نہیں تھی مگر حکم رسول ﷺ ملتے ہی راضی ہو گئیں۔

ان آیات کے احکام صاف واضح ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے رسول ﷺ کا ادب انتہائی محبوب ہے اور ان کا ادب و تعظیم نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہائی سخت ناپسندیدہ ہے۔

ترجمہ کنزُالعِرفان: تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ ( الاعراف: 157)

اس آیت میں تعظیم مصطفیٰ ﷺ بجا لانے والوں کو فلاح پانے کی بشارت دی گی کہ حقیقت میں کامیاب وہی ہے جو آقا ﷺ کی توقیر کرنے والا ہو۔


اسلام میں ادب کی بہت اہمیت ہے،قرآن و سنّت میں جگہ بہ جگہ ہمیں کھانے، پینے، سونے، اٹھنے، بات کرنے، سلام کرنے، قرآن پاک پڑھنے، نماز پڑھنے کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ اسی ضمن میں آج ہم ایک ایسی بارگاہ کے آداب سیکھیں گے،جس کے ادب کا حکم خود ہمارا ربّ ہمیں دیتا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26،الحجرات:1-2)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔ اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

ان آیات کریمہ میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کے تین آداب سکھائے ہیں:

سورۃ الحجرات کی آیت ایک میں پہلا ادب سکھایا کہ الله اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو یعنی اللہ اور اس کے رسول کے قول و فعل میں ان سے آگے نہ بڑھو۔ کوئی کام رسول اللہ ﷺ سے پہلے نہ کرو۔ ان سے آگے نہ چلو ان کی اطاعت کرو۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ آیت مبارکہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے آگے بڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور اللہ سے کوئی آگے کیسے بڑھ سکتا ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ رسول الله ﷺ کی بے ادبی اللہ پاک کی بے ادبی ہے۔(شانِ حبیب الرحمٰن، ص 225)

سورة الحجرات کی آیت 2 میں نبی کریم ﷺ کا یہ دوسرا ادب سکھا یا گیا کہ جب نبی تم سے کلام فرمائیں اور جب تم کچھ ان کی بارگاہ میں عَرْض کرو تو اپنی آواز رسول اللہ کی آواز سے دھیمی اور آہستہ رکھو۔

آیت 2 میں ہی نبی کریم ﷺ کی بارگاہ کا تیسرا ادب بیان کیا گیا کہ جب ان کو ندا کرو تو ادب و تعظیم کا لحاظ رکھو۔ ان کو ایسے ندا نہ کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو کرتے ہو بلکہ تعظیم واحسن القاب کے سا تھ ان سے عرض کرو، جیسے: یا رسول اللہ! یا حبیب اللہ۔(تفسیر قرطبی، الحجرات، تحت الآیۃ:2،8/ 220)

بارگاہِ رسالت کا جو ادب ان آیات میں بیان ہوا، وہ آپ ﷺ کی ظاہری حیات سے لے کر تا قیامت تک باقی ہے، مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اب بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ جب روضۂ مبارک پر حاضری نصیب ہو تو سلام بہت آہستہ اور کچھ دورکھڑے ہو کر کریں۔ (شان حبیب الرحمن، ص 225)

سورۃ البقرۃ میں بھی ایمان والوں کو ان کا ربّ بارگاہِ نبوی کے آداب ارشاد فرماتاہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ1،البقرۃ:104)ترجمہ کنزُ الایمان: اے ایمان والوراعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اس آیت مبارکہ میں حضور ﷺ کو راعنا کہنے کی ممانعت کی گئی ہے، جب حضور ﷺ صحابہ کرام کو تعلیم و تلقین فرماتے تو کبھی کبھی درمیان میں صحابہ کرام عَرْض کرتے:رَا عِنَا یَارَ سُوْلَ اللہ!(یعنی یَارَسُوْلَ اللہ ﷺ! ہمارے حال کی رعایت فرمائیں) یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا تھا، اس لئے اللہ پاک نے رَاعِنَا کے بجائے اُنْظُرْنَا بولنے کا حکم دیا، اس آیت مبارکہ میں ہمیں آداب نبوی کی تعلیم دی گئی ہے۔

ایسے الفاظ جن میں ہلکا سابھی ترکِ ادب ہو، نبی کریم کےلئے نہیں بولے جائیں گے۔ وَ اسْمَعُوْا بغور سنو: اس سے حکم دیا گیا کہ نبی کریم ﷺ کا کلام غور سے سنو تاکہ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑے کہ حضور ﷺ توجہ فرمائیں کیونکہ یہی ادب ہے۔(شانِ حبیب الرحمٰن، ص 363)

یہ مدنی پھول بھی حاصل ہوا کہ اب بھی جہاں کہیں حدیث مبارکہ سننے کی سَعادت حاصل ہو تو بھر پور توجہ اور ادب سے سننی چاہیے،صحابہ کرام علیہم الرضوان بارگاہِ رسالت کا ادب آپ ﷺ کی ظاہری حیات میں ہی نہیں بلکہ وصال ظاہری کے بعد بھی خوب خیال رکھتے اور احتیاط کرتے،چنانچہ ایک مرتبہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں دو شخصوں کی اونچی آواز سنی تو آپ نے فرمایا کہ تم دونوں جانتے ہو کہ کہاں کھڑے ہو؟ پھر ارشاد فرمایا: تم کسی علاقے سے تعلق رکھتے ہو؟ دونوں نے عَرْض کیا: ہم طائف کے رہنے والے ہیں،فرمایا: اگر تم مدینۂ منورہ کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سزاد یتا۔ ( کیونکہ مدینے والے حضور ﷺ کی بارگاہ کا خوب ادب جانتے ہیں) (تفسیر ابن کثیر، الحجرات، تحت الآیۃ: 2، 7/343)

پیاری اِسْلَامی بہنو! دیکھا آپ نے صحابۂ کرام بارگاہِ رسالت کا کتنا ادب بجا لاتے کہ وصال ظاہری کے بعد بھی مسجد نبوی میں اونچا بولنے کی اجازت نہ تھی،ہمیں بھی چاہیئے کہ اس عظیم بارگاہ کے آداب سیکھیں اور ان پر عمل کریں کہ اسی میں دنیا جہاں کی اور آخرت کی کامیابی ہے۔ اللہ پاک ہمیں بارگاہِ رسالت کا ادب کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ 


ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں جس سے محبت کی جائے اس کا اول حق اس کا ادب کرنا ہے حضور ﷺ کی ذات طیبہ انتہائی احترام و ادب کی متقاضی ہےآپ کا ادب و احترام ایمان کا جز ہے جب تک آپ کی سچی تعظیم دل میں نہ ہو اگرچہ عمر بھر عبادت و ریاضت میں گزرے سب بے کار ہے آپ اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور آپ کا ادب و احترام خود خالق کائنات نے قرآن پاک میں سکھایا اس سلسلے میں چند آیات ملاحظہ ہوں۔

آیات قرآنیہ:قرآن کریم میں اللہ پاک نے متعدد مقامات پر اپنے پیارے نبی کے ادب و احترام کا حکم فرمایا، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

تفسیر:جب حضور ﷺ صحابہ کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کرتے راعنا یارسول اللہ اس کے معنی ہم پر رعایت کریں یعنی اچھی طرح سمجھنے دیں اور یہود کی زبان میں یہ گالی تھی چنانچہ مومنین کو اس سے منع کر دیا گیا اور کہا گیا عرض کرو انظرنا اور پہلی بار ہی توجہ سے سنو۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعظیم و تکریم کا لحاظ فرض ہے اور بالخصوص نبی الانبیاء ﷺ کی بارگاہ کا ادب۔ اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاء کرام کی جناب میں ادنیٰ گستاخی کفر ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104)

2۔ایک اور موقع پر اللہ پاک نے مومنوں کو آداب نبوی سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّؕ-(پ 22، الاحزاب:53) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والونبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلا کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہو جاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ بے شک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور الله حق فرمانے میں نہیں شرماتا۔

تفسیر: اس کا شان نزول کچھ یوں ہے کہ حضور علیہ السلام نے حضرت زینب سے نکاح کیا اور ولیمہ کی عام دعوت فرمائی تو لوگ جماعت کی صورت میں آتے اور کھانے سے فارغ ہو کر چلے جاتے آخر میں تین صاحب رہ گئے جو کھانے سے فارغ ہو کر گفتگو میں مصروف ہوئے اور یہ سلسلہ طویل ہوگیا، مکان کی تنگی کے سبب اہل خانہ کو تکلیف ہوئی حضور علیہ السلام اٹھے اور حجروں میں تشریف لے گئے اور جب دور فرما کر تشریف لائے تو اس وقت تک یہ اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے حضور علیہ السلام پھر واپس ہو گئے تو یہ دیکھ کر وہ لوگ روانہ ہوگئے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی معلوم ہوا کہ اللہ کی بارگاہ میں جو مقام حضور علیہ السلام کو حاصل ہے وہ مخلوق میں سے کسی کو نہیں اور اللہ نے آپ کی بارگاہ کا ادب مسلمانوں کو خود سکھایا کہ احکام و آداب کی مکمل رعایت کرتے ہوئے داخلِ دربار ہو۔(تفسیر صراط الجنان، الاحزاب، تحت الآیۃ: 53)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ (پ 9، الانفال:24) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔

تفسیر: اس آیت میں واحد کا صیغہ استعمال ہوا کہ حضور علیہ السلام کا بلانا اللہ کا بلانا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں بتایا گیا کہ اس بارگاہ کا ادب یہ ہے کہ جب وہاں بلایا جائے تو بلاتاخیر فوراً حاضر ہو۔

بخاری شریف میں ہے حضرت ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے رسول اکرم ﷺ نے بلایا لیکن میں حاضر نہ ہوا (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) میں نے حاضر خدمت ہوکر عرض کی یارسول اللہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو سرکار علیہ السلام نے فرمایا: کیا اللہ نے یہ نہ فرمایا: اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ (پ 9، الانفال:24) ترجمہ: اللہ اور رسول کے بلانے پر حاضر ہو جب وہ تمہیں بلائیں۔(تفسیر صراط الجنان، الانفال،تحت الآیۃ: 24)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو۔ اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی، اور خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے اور تمام اقوال و افعال میں اللہ سے ڈرو اور یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا۔

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت کا شان نزول کچھ بھی ہو مگر حکم عام ہے کسی کام میں حضور علیہ السلام سے آگے ہونا منع ہے اگر حضور علیہ السلام کے ہمراہ راستے میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے اسی طرح اپنی رائے کو حضور علیہ السلام کی رائے سے مقدم کرنا حرام ہے۔(تفسیر صراط الجنان، الحجرات، تحت الآیۃ: 1)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ اس میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں؛ پہلا یہ کہ اے ایمان والو! جب نبی علیہ السلام تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہو وہ آہستہ اور پست آواز سے کہو۔

دوسرا یہ کہ حضور علیہ السلام کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ جو عرض کرنا ہو ادب و تعظیم اور توصیف و تکریم کے کلمات عظمت والے القاب کے ساتھ عرض کرو مثلا ً یا رسول اللہ یا نبی اللہ کہہ کر عرض کرو۔ (تفسیر صراط الجنان، الحجرات، تحت الآیۃ: 02)

سیکھنے کے مدنی پھول:یہ تمام احکام حضور ﷺ کی ظاہری حیات طیبہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تاقیامت باقی رہیں گے۔ ان آیات میں ہمارے لئے یہ درس ہے کہ محبوب علیہ السلام کی بارگاہ، احادیث، سنتوں وغیرہ کا ادب کریں، جب درس حدیث ہو رہا ہو تو آوازوں کو پست رکھیں اگرچہ کوئی اور درس دے رہا ہو مگر کلام محبوب خدا علیہ السلام کا ہے اسی طرح درِ اقدس پر حاضری ہو تو وہاں کی ہر چیز کے ادب کا خیال رکھیں کہ وہ سر کے بل چلنے کی جگہ ہے سلام عرض کرنا ہو تو دور کھڑے ہوکر پست آواز سے عرض کریں کیونکہ بغیر ان کے ادب و احترام تمام عبادات و اعمال حبط (برباد) ہیں۔

صحابہ کرام کا ادب و احترام:صحابہ کرام اور صحابیات کا عمل ہمارے لئے مثالی نمونہ ہے، آئیے! ملاحظہ کیجیے کہ صحابہ ادب نبوی کے لئے کیسے متحرک رہتے، چنانچہ جب حضور ﷺ نے خیبر سے واپسی کا ارادہ فرمایا تو اونٹ قریب لایا گیا محبوب خدا ﷺ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے کپڑے سے پردہ کرایا اور زانوئے مبارک (گھٹنے کے اوپر کی ہڈی )کو قریب کیا تا کہ آپ رضی اللہ عنہا اس پر پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہو جائیں مگر قربان جائیں حضرت صفیہ کے ادب و تعظیم مصطفی ٰپر کہ آپ کے دل نے گوارا نہ کیا کہ اپنا پاؤں حضور ﷺ کے مبارک زانو پر رکھیں، چنانچہ روایت میں ہے کہ آپ تعظیم مصطفی کے پیش نظر آپ ﷺ کے زانوئے مبارک پر گھٹنا رکھ کر سوار ہوئیں۔ (فیضان امہات المومنین،ص 297)


ہمارا ایمان و عقیدہ ہے کہ قرآن کے بیان کیے ہوئے طریقے کے مطابق ادبِ بارگاہِ نبوی جب تک نہ کیا جائےایمان کامل و اکمل نہیں ہو سکتا۔ الله پاک نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کی قرآن میں سیرت بیان فرمائی اور ان کی بارگاہ کے آداب بیان فرما کر ان آداب کو بجالانےکا حکم فرمایا۔قرآن کی بے شمار آیات اس پر شاہد ہیں کہ اہلِ ایمان پرنبی کریم ﷺ کی بارگاہ کا ادب اور تعظیم ہر حال میں ملحوظ ِخاطر رکھناایمان کی سلامتی کے لیے لاز می وضروری ہے۔

1۔ نبی ﷺ کو ایسے نہ پکارو جیسے آپس میں مخاطب ہوتے ہو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

مفسرین نے اس کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا ہے کہ رسول اللہﷺ کو ندا کرو توادب سے تکریم اور توقیرو تعظیم کے ساتھ معظم القاب سےنرم آواز کے ساتھ متواضعانہ لہجہ میں ”یانبی الله،یا حبیب الله“ عرض کریں۔

بارگاہِ ناز میں آہستہ بول ہو نہ سب کچھ رائیگاں آہستہ چل

امام مالک فرماتے ہیں: تاجدارِ ر سالت ﷺکی عزت و حرمت آج بھی اسی طرح ہے جس طرح حیاتِ ظاہری میں تھی۔

2۔نبی ﷺ کے قول و فعل میں آگے نہ بڑھنے کا حکم: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

مفتی نعیم الدین مرادآ بادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں: یعنی تمہیں الزام ہے کہ اصلاً تم سے تقدیم واقع نہ ہو،نہ قول میں نہ فعل میں کہ تقدیم کرنا ادب کے خلاف ہے اور بارگاہِ نبوی میں نیاز مندی و آداب لازم ہے۔

3۔ جانِ کائنات ﷺ کوحجروں کے باہر سے پکارنےوالوں کو جاہل اور بے عقل کہا گیا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴)وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (الحجرات: 4) ترجمہ: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ اُن کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

الله پاک نےاس آیتِ مبارکہ میں حضور ﷺ کی عظمتِ شان کا اظہار فرمایا ہے کہ بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں اس طرح حجروں کے با ہر سے پکارنا نادانی وبے عقلی ہے۔ رحمۃ للعالمینﷺ کی جناب میں کلماتِ ادب عرض کرنافرض ہے۔

4۔نبی ﷺکی بارگاہ میں ایسے الفاظ کا استعمال ممنوع ہے جس میں ترکِ ادب کا شائبہ ہو۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

مفتی نعیم الدین مراد آبادی فرماتے ہیں:جب حضور ﷺصحابہ کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو کبھی کبھی وہ درمیان میں عرض کیا کرتے:راعنا یا رسول الله!یا رسول اللہ!ہمارے حال کی رعایت فرمائیے۔ یعنی کلام اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔یہود کی لغت میں یہ کلمہ سوءِ ادب کے معنی میں تھا یہودیوں نے اس نیت سے کہنا شروع کردیا۔پھر اللہ نےیہ آیت نازل فرما کر لفظ راعنا کہنے کی ممانعت فرمادی۔ اس کے معنی کا دوسرا لفظ انظرنا کہنے کا حکم فرما دیا۔معلوم ہوا!انبیا علیہم السلام کی تعظیم اور ان کی جناب میں کلماتِ ادب عرض کرنا فرض ہے۔جس میں ترک ادب کا شبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع اور ان کے اعلیٰ مراتب کا لحاظ لازم ہے۔ للکفرین میں اشارہ ہے کہ انبیا علیہم السلام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے۔

5۔اللہ نے نبیﷺ پر ایمان لانے کے ساتھ ان کی تعظیم کا حکم فرمایا۔ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-( الفتح:8-9)ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ ان دونوں آیات میں اللہ پاک نے رسولِ کریم ﷺ کی رسالت اور ان کے حاضر و ناظر ہونے اور ان پر ایمان لا نے کےساتھ اپنے حبیب کی تعظیم و توقیر کا حکم فرمایا جس سے صاف ظاہر ہے کہ ایمان کے بعد حضور کی تعظیم و تو قیر بنیادی عنصر ہے کیونکہ اس آیت میں ایمان کے بعد تعظیمِ مصطفٰے کا ذکر ہے، اس کے بعد اعمال کا ذکر ہے۔

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل الاصول بند گی اس تاجور کی ہے

صحابی رسول کا بارگاہِ نبوی کے ادب کا انداز: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

آ سکتا ہے کب ہم سے گنواروں کو ادب وہ جیسا کہ ادب کرتے تھےیارانِ محمد


اللہ پاک کی بارگاہ میں سید المرسلین ﷺ کی شان اتنی بلند ہےکہ ان کی بارگاہ کے آداب خود اللہ پاک نے ارشاد فرمائے۔ حضور ﷺ کی تعظیم جزءِ ایمان و رکنِ ایمان ہے اور فعل ِتعظیم ایمان کے بعد ہر فرض سے مقدم ہے۔ کافر کے دل میں حضور ﷺکا ادب آجائے تو مومن ہو سکتا ہے اور مومن کے دل میں بے ادبی کی بیماری ہو جائے تو ایمان کے ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے۔

(1)اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ (پ26،الحجرات:1) ترجمہ کنز العرفان: الله اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔ اے ایمان والو!اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کی اجازت کے بغیر کسی قول اور کسی فعل میں حضور ﷺسے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا حضور اقدس ﷺ کے ادب و احترام کے خلاف ہے۔

(2)اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔ لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (پ 26، الحجرات:2 ) ترجمہ کنزالعرفان: اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔

فرمایا جارہا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو۔ جو عرض کرنا ہو آہستہ اور پست آواز میں کرو کیونکہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں آواز بلند کرنا منع ہے۔

(3)الله پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ (پ 22، الاحزاب: 53) ترجمہ کنز العرفان:نبی کے گھر نہ حاضر ہو جب تک اجازت نہ ہو۔ اس آیت میں حضور ﷺ کے گھروں میں جانے کے آداب اللہ پاک سکھا رہا ہے کہ اے ایمان والو !بغیرا جازت میرےحبیب کے گھر میں داخل نہ ہو۔

(4)اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ- (پ7، المائدۃ: 101) ترجمہ کنز العرفان: ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر ہوجائیں تو تم کو بری لگیں۔ حضورﷺ سے مختلف مجالس میں لوگوں نے غیر متعلقہ اور غیر مفید سوالات کئے تھے ان امور کے متعلق اللہ پاک نے صحابہ کرام کی تربیت فرمادی اور بارگاہ رسالت میں فضول سوالات کرنے کی ممانعت فرمادی۔

5۔ اللہ پاک نےپارہ 26 الحجرات آیت نمبر2میں ارشاد فرمایا: وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُم ترجمہ کنز العرفان: ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں۔ اس آیت میں فرمایا جارہا ہے کہ حضور ﷺ کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو جیسے ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو ادب و تعظیم کے کلمات اور عظمت والے القابات کے ساتھ عرض کرو جیسے کہو: یارسول الله ﷺ! یانبی اللہ ﷺ!۔ کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے۔

حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا بارگاہ رسالت کا ادب: جب بارگاہ رسالت کے آداب کی آیات نازل ہوئیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ بارگاہ رسالت میں بہت آہستہ بات کرتے حتی کہ بعض اوقات حضور اکرم ﷺ کو بات سمجھنے کے لیے دوبارہ پوچھنا پڑتاکہ کیا کہتے ہو؟


سید المرسلینﷺ کی شان رب تعالیٰ کےدربارمیں ایسی بلند ہےکہ ان کی بارگاہ کے آداب اوربےادبی پر وعیدات رب تعالیٰ نےخود بیان فرمائیں اور یہ ادب کا حکم صرف انسانوں کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ ملائکہ وجن وانس سبھی اس میں شامل ہیں۔

چند آداب پیش خدمت ہیں:

(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ (پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو۔ اس آیت میں اللہ ورسولﷺ دونوں سے آگے نہ بڑھنے کا فرمایا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کی بے ادبی دراصل اللہ پاک کی بےادبی ہے۔

(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔ یہ حکم صرف آپ کی ظاہری حیات مبارکہ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ وصال ظاہری کے بعد سے قیامت تک یہی حکم باقی ہے۔

(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ(الاحزاب: 54) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والونبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ۔ تمام عبادات بدن کا تقوٰی ہیں اور حضورﷺکاادب دل کا تقوٰی ہے۔

(4) لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ اس آیت کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ حضورﷺ کی پکار پر جواب دینا اور عمل کرنا واجب ہے اور دوسرا یہ کہ حضور کو تعظیم وتکریم والے الفاظ سے پکارا جائے۔

(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا (البقرۃ:104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں۔ راعنا کا معنی ہے: ہمارے حال کی رعایت کیجیے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کامعنی رکھتا تھااس لیے مسلمانوں کو اس سے منع فرما دیا گیا۔

تومعلوم ہوا کہ جس لفظ میں ترک ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہووہ حضور کے لیے استعمال کرنا ممنوع ہے۔

نوٹ: مکمل مضمون تفسیر صراط الجنان سے ماخوذہے۔

بزرگ کا واقعہ: امام مالک علیہ الرحمہ کےادب کا عالم یہ تھا کہ جب بھی آپ کے سامنے نبی اکرم ﷺ کا ذکر خیرکیا جاتا تو آپ کی پشت مبارک جھک جاتی اور آپ کے چہرے مبارک کا رنگ متغیر ہو جاتا(صحابہ کرام کا عشق رسول،ص 50 )

درس ہدایت: مسلمانوں کو چاہیے کہ ان آیات وروایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بحیثیت امتِ رسول ﷺ جب بھی حضورﷺ کا ذکر خیر کیا جائے یاجب بھی روضہ انور پر حاضری کا شرف نصیب ہو تو آداب کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئےمعتدل راہ اختیار کریں۔

اللہ کریم ہمیشہ بارگاہ رسالت مآبﷺکا باادب رکھے اور روضہ اقدس کی حاضری سے مشرف فرمائے۔ اٰمین 


نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں نہایت ادب کی ضرورت ہے۔حضور کا نامِ پاک کمالِ تعظیم وتکریم کے ساتھ لینا چاہیے اور نامِ پاک لیتے وقت خوف و خشیت،عجز و انکساری اور خشوع و خضوع کا اظہار کرنا چاہیے۔عام بادشاہ،افسر،عہدِ دار اپنے محل، جگہ،ادارے کے آداب خود بیان کرتے ہیں لیکن قربان جائیے شانِ مصطفٰے پر کہ آپ کے دربار کے آداب خود ربِّ کریم قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:رب کریم فرماتا ہے:

1-آیتِ مبارکہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ وَ اَنَّهٗۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ(۲۴)(پ9، الانفال: 24) ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے اور جان لو کہ اللہ کا حکم آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور یہ کہ اسی کی طرف تمہیں اٹھا یا جائے گا۔

تفسیر: اس آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدارِ رسالت ﷺ جب بھی کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے۔چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہو اور آپ ﷺ کا بلانا اللہ پاک کا ہی بلانا ہے۔

2-آیتِ مبارکہ: رب فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) (پ26،الحجرات:1)ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اوراللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔

تفسیر: آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ پاک اور اس کے رسول کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے۔کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسول ﷺ کے ادب و احترام کے خلاف ہے۔

3-آیتِ مبارکہ:رب فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ، 26، الحجرات:2)ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آوار سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

تفسیر: اس آیت میں رب کریم نے اپنے حبیبﷺ کے دو آداب سکھائے ہیں:

پہلا ادب یہ ہے کہ جب تم سے نبی کریم ﷺکلام کریں یاتم اس کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو۔

دوسرا ادب یہ ہے کہ آپ ﷺ کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو کیونکہ ترکِ ادب نیکیوں کی بربادی کا باعث ہے۔

4-آیتِ مبارکہ:رب فرماتا ہے: لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹) (پ26،الفتح:9)ترجمہ کنز العرفان: تا کہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرو۔

تفسیر: اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں حضور کی تعظیم اور تو قیر انتہائی مطلوب اور بے انتہا اہمیت کی حاصل ہے کیونکہ یہاں اللہ پاک نے اپنی تسبیح پر اپنے حبیب کی تعظیم و توقیر کو مقدم فرمایا ہے۔

5-آیتِ مبارکہ:رب فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) (پ26،الحجرات:3)ترجمہ کنز العرفان: بیشک جو لوگ اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پر ہیز گاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

تفسیر: اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کا ادب دل کا تقویٰ ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو بہت سے صحابہ کرام نے بہت احتیاط لازم کرلی۔الله پاک نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے دل تقویٰ کے لیے پرکھ لیے ہیں جو انہیں معاذ الله فاسق مانے وہ اس آیت کا منکر ہے۔

آداب کو بجالانے کا درس: ہمیں چاہیے کہ آپ کی وفات ِظاہری کے بعد بھی ایسا ہی ادب و احترام کریں۔ ادب آتا ہے تو محبت آتی ہے جس کا احترام،ادب،تعظیم اور وقار دل کے اندر نہ ہو اس سے محبت کیسے کی جاسکتی ہے !محبت کی ہی اس سے جاتی ہے جس کی تعظیم اور ادب دل میں موجود ہو۔اس لیے جب ہمیں اپنے نبی ﷺ سے محبت ہے تو ان کی تعظیم، ادب،احترام بدرجہ اولی ہم پر فرض ہے۔ اس لیے جب بھی پیارے پیارے آقا ﷺ کا نام لیا جائے تو اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو بوسہ دے کر آنکھوں سے لگا لیا جائے۔

واقعہ:ایک دن حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی چھت کے پرنالے کے نیچے سے گزرے۔اتفاق سے اس چھت پر مرغ ذبح کیے گئے تھے۔ اس کے خون کے چند قطرے امیرالمومنین کے لباس پر پڑے۔ چنانچہ آپ نے پرنالے کو اکھاڑ دینے کا حکم دیا۔ آپ گھر آئے، لباس بدلا اور مسجد میں چلے گئے۔ نماز پڑھی گئی تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ کے پاس تشریف لائے اور عرض کی:اے امیر المومنین!اللہ کی قسم!جس پرنالے کو آپ نے اکھاڑ دیا ہے یہ حضور ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک سے لگایا تھا تو امیر المومنین پر یشان ہوگئے اور فرمایا:اے عباس!تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اپنے پیر میرے کندھے پر رکھ کر اس پر نالے کو اسی طرح لگا دو جسے رسول ﷺ نے لگایا تھا۔ چنانچہ آپ کی درخواست پر عمل کیا گیا۔

یہ تھا صحابہ کرام کا حضور ﷺ کی تعظیم کرنے کا انداز! ہمیں بھی اسی طرح ادب و احترام کرنا چاہیے۔


حضور ﷺ کی بارگاہ میں اگر قرب چاہیے،رب کریم کی رضا چاہئے ہو تو حضور کی بارگاہ کا ادب بہت ضروری ہے جو حضور کی بارگاہ کا جتنا ادب کرے گا رب کی بارگاہ میں اس کا مرتبہ اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ یہ وہ دربار ہے جس کا اتنا ادب ہےکہ اس بارگاہ کا ادب رب کریم خود قرآنِ پاک میں سکھاتا ہے۔

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

حضور ﷺ کی ذاتِ پاک مرکزِ ایمان ہے۔اللہ پاک کی نگاہِ قدرت کا مرکز ہے،یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی حضور کا ذکر فرمایا نہایت ادب و احترام سے فرمایا۔کبھی حضور کے اقوال و افعال کا ذکر فرماتا ہے۔کبھی حضور ﷺ کی عظمت و بلندی کا ذکر فرماتا ہے۔

1-حضور کے ادب کی سب سے بڑی دلیل: حضور ﷺ کے ادب و احترام کی سب سے بڑی دلیل یہ بیان کی گئی کہ اللہ پاک نے اپنے کلام میں جن انبیائے کرام کے ساتھ کلام کا ذکر فرمایا وہاں ان کے نام سے مخاطب فرمایا۔ کہیں یٰدَاوٗدُ فرمایا، کہیں یٰمُوْسٰىفر مایا،کہیں یٰۤاِبْرٰهِیْم فرمایا۔ لیکن حضور ﷺ کو کبھی یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ کہہ کر مخاطب فرمایا، کبھی یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ کبھی یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُسے مخاطب فرمایا۔اعلیٰ سے اعلیٰ القاب سے مخاطب فرمایا۔

القاب سے پکارنے کی وجہ: مفسرین فرماتے ہیں کہ نام سے نہ پکارنے کی دو وجوہات ہوتی ہیں:(1) جب کسی کو حد سے زیادہ محبت دینی ہو تو القاب سے بلاتے ہیں۔(2)جب کبھی کسی کو حد درجے کی عزت دینی ہو تو القاب سے بلایا جاتا ہے۔

اللہ نے پورے قرآن میں نبی کریم ﷺ کو القابات سے پکار کر بتا دیا کہ کسی کو خدا کی ساری خدائی میں عزت دینی ہو تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے باباﷺ سے بڑھ کر کوئی عزت کے لائق نہیں اور کسی سے محبت کرنی ہو تو رب کے حبیب ﷺ سے بڑھ کر کوئی محبت کے لائق نہیں۔

خلق سے اولیاء اولیاء سے رسل اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارانبی

ہم تو ہم ہیں سرِ حشر دیکھو گے تم ہو گانبیوں کا نعرہ ہمارا نبی

2-ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ1،البقرۃ:104)ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو!راعنا نہ کہو اور یوں عرض کر و حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

تفسیر: اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ فرض ہےاور جس لفظ سے ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو زبان پر لانا ممنوع ہے۔

(وَ اسْمَعُوْاؕ-) یعنی حضور پر نور ﷺ کے کلام فرمانے کے وقت ہمہ تن گوش ہو جاؤ تا کہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ حضورﷺ توجہ فرمائیں کیونکہ دربارِ نبوت کا یہی ادب ہے۔ (اے ایمان والو،ص 1)

3- ارشادِ باری ہے: وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ(۷)(پ28،الحشر: 7)ترجمہ کنز العرفان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں، اس سے باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک الله کا عذاب سخت ہے۔

4 -ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ- (پ9، الانفال: 24) ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔

تفسیر: اس آیت میں”دَعَا “کا اس لیے ذکر کیا گیا کہ حضور سید المرسلین ﷺ کا بلانا اللہ پاک کا ہی بلانا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب حضور ﷺ کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے چاہے جس بھی کام میں مصروف ہو۔ (اے ایمان والو، ص 64)

5- ارشاد خداوندی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

تفسیر: اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کی بارگاہ کے دو عظیم آداب سکھائیں ہیں۔

پہلا ادب یہ کہ اے ایمان والو! جب نبی کریم ﷺ تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے آہستہ کرو۔

دوسرا ادب یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کو ندا کرتے ہوئے ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کا نام لے کر پکارتے ہو اس طرح ہرگزنہ پکا رو بلکہ جو عرض کرنا ہو نہایت تعظیم و توصیف کے کلمات اور عظمت والے القابات کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو:یا رسول الله!یا نبی اللہ!(اے ایمان والو،ص 109)

آیت لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ نزول کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حال:

افضل البشر بعد از انبیا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حال:حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب یہ آیت نازل ہوئی لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ میں نے عرض کی:یارسول اللہ!اللہ پاک کی قسم! آئندہ میں آپ سے سرگوشی کے انداز میں بات کروں گا۔ ( کنزالعمال، 1 /214، الجزء الثانی، الحدیث: 4604)

مرادِ رسول حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا حال:اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں بہت آہستہ آواز سے بات کرتے حتی کہ بعض اوقات حضور اکرم ﷺ کو بات سمجھنے کے لیے دوبارہ پوچھنا پڑتا کہ کیا کہتے ہو؟(ترمذی،5/177)

ان تمام آیات کے پیشِ نظر ہی گو یا امامِ اہلِ سنت، امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا

کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تیرے شہر و کلام وبقا کی قسم

ایک اور مقام پر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالَم خدا چاہتا ہے رضائے محمد ﷺ

رب کریم ہمیں اپنے حبیب کا وفادار رکھے،حضور کے در کی غلامی نصیب فرمائے اور حضورﷺ کا ادب کرنے والی بنائے۔ آمین ثم آمین


حضورِ اقدس ﷺ کی ذات انتہائی احترام کی متقاضی ہے۔ آپ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جس طرح مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں،حضور اکرم ﷺ کے ساتھ بھی وہی انداز اختیار کریں۔اس سلسلے میں کچھ اصول و آداب مقرر کئے گئے ہیں۔

(1)تعظیمِ مصطفٰے کاحکم: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-(پ26، الفتح: 8-9)ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ ”تمہید الایمان “میں زیرِ آیتِ بالا فرماتے ہیں: مسلمانو! دیکھو دین ِ اسلام بھیجنے، قرآنِ مجید اتارنے کامقصود ہی تمہارا مولیٰ پاک تین باتیں بتاتاہے:اوّل یہ کہ اﷲ و رسول ﷺ پر ایمان لائیں۔ دوئم یہ کہ رسول اﷲ ﷺ کی تعظیم کریں۔ سوئم یہ کہ اﷲ پاک کی عبادت میں رہیں۔

مسلمانو!اِن تینوں جلیل باتوں کی جمیل ترتیب دیکھو،سب میں پہلے ایمان کو ذکر فرمایا اور سب میں پیچھے اپنی عبادت کو اور بیچ میں اپنے پیارے حبیبﷺ کی تعظیم کو،اس لئے کہ بغیر ایمان،تعظیم کارآمد نہیں۔ بہتیرے ہیں کہ نبی کی تعظیم و تکریم اور حضور پر سے دفعِ اعتراضاتِ کافران ِ لئیم میں تصنیفیں کرچکے، ليکچر دے چکے، مگر جبکہ ایمان نہ لائے کچھ مفیدنہیں، کہ ظاہری تعظیم ہوئی، دل میں حضورِ اقدس کی سچی عظمت ہوتی تو ضرو ر ایمان لاتے۔ پھر جب تک نبی کریم ﷺ کی سچی تعظیم نہ ہو، عمر بھرعبادتِ الٰہی میں گزرے، سب بے کارومردودہے۔(تمہیدِ ایمان، ص112)

حضورِ اقدس، نورِ مجسم ﷺ کی امت پر واجب ہے کہ وہ آپ کی ہرحال میں تعظیم بجالائیں، آپ کی ظاہری حیات ہو یا وصال کے بعدکا زمانہ۔ اس لئے کہ جب دلوں میں تعظیم و توقیرِ مصطفٰے بڑھے گی تو اتنا ہی نورِ ایمان قلوبِ مومنین میں زیادہ ہوگا۔ (تفسیرروح البیان، 7/216)

(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔ اس آیتِ مبارکہ کے متعلق تفسیر صراطُ الجنان میں ہے:اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں آگے نہ بڑھنا۔ اس آیتِ مبارکہ کے پسِ منظر میں دو روایات پیشِ نظر ہیں:

روایت1: چند لوگوں نے عیدُ الاضحی کے دِن سر کارِ دو عالَم ﷺ سے پہلے قربانی کرلی، تو انہیں دوبارہ قربانی کرنے کاحکم دیا گیا۔

روایت2: حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے مروی ہے کہ بعض لوگ رمضان سے ایک دن پہلے ہی روزہ رکھنا شروع کردیتے تھے۔ انہیں حکم دیا گیا کہ روزہ رکھنے میں اپنے نبی ﷺ سے آگے نہ بڑھو۔

(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسول اللہ! اللہ کی قسم ! آئندہ میں آپ کی بارگاہ میں سرگوشی کے انداز میں بات کروں گا۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں آہستہ بات کرتے حتٰی کہ بعض اوقات حضور اکرم ﷺ کو بات سمجھنے کے لئے دوبارہ پوچھنا پڑتا (کہ کیا کہتے ہو؟)

آسکتا ہے کب ہم سے گنواروں کو ادب وہ جیسا کہ ادب کرتے تھے یارانِ محمد

(4) اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ( الحجرات:3 )بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

شانِ نزول: جب سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 2 نازل ہوئی تو صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم نے احتیاط کرلی تو اُن حضرات کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔

تفسیر صراطُ الجنان میں ہے: تمام عبادات بدن کا تقویٰ ہیں اور حضورِ اَقدس ﷺ کا ادب دل کا تقویٰ ہے۔

اللہ پاک نے صحابہ ٔکرام رضی اللہُ عنہم کے دل تقویٰ کے لئے پرکھ لئے ہیں، تو جو انہیں معاذاللہ فاسق مانے وہ اس آیت کا منکر ہے۔ حضرت ثابت رضی اللہُ عنہ نے اپنی معذوری کے باوجود اپنے اوپر یہ لازم کر لیا تھا کہ وہ کبھی نبیِ اکرم ﷺ کی آواز پر اپنی آواز بلند نہیں کریں گے۔

(5): اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴)وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (الحجرات: 4) ترجمہ: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ اُن کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

شانِ نزول: بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت رسولِ کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے، اُس وقت حضورِ اکرم ﷺ آرام فرمارہے تھے۔ اُن لوگوں نے حجروں کے باہر سے پکارنا شروع کردیا اور حضورِ اکرم ﷺ باہر تشریف لے آئے۔ ان لوگوں کے بارے میں یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی اور رسولِ کریم ﷺ کی شانِ جلالت کا بیان فرمایا گیا کہ سیدُ المرسلین ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔(تفسیر مدارک، ص 1151 ملخصا)

وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا (اور اگر وہ صبر کرتے): اس آیتِ مبارکہ میں ان لوگوں کو صبر کی تلقین کی گئی ہے کہ انہیں رسولِ کریم ﷺ کو پکارنے کے بجائے صبر اور انتظار کرنا چاہئے تھا، تاکہ حضورِ اقدس ﷺ خود ہی مقدس حجرے سے باہر تشریف لے آتے اور اس کے بعد یہ لوگ اپنی عرض پیش کرتے۔ جن سے بے ادبی سرزد ہوئی وہ توبہ کریں۔ تو اللہ پاک مہربان اور بخشنے والا ہے۔ (تفسیرِ خازن، 4/166) اکابرین کی بارگاہ کا ادب کرنا بندے کو بلند درجات تک پہنچاتا ہے اور دنیا و آخرت کی سعادتوں سے نوازتا ہے۔ (صراط الجنان)


الله کی سر تابقدم شان ہیں یہ              ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ

قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں ایمان یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ

سید کائنات، صاحب لولاک،آقائے نامدار،سرکار ابد قرار،محمد رسول ﷺکی ذات مقدسہ ہی اس کا ئنات میں وہ ہستی ہے جو کائنات کے تکوینی اور نظامِ شریعہ کا محور و مرکز ہے۔آپ علیہ السلام عالم تکوینی و عالم تشریعی دونوں میں دائرہ کے اس مرکز کی طرح ہیں جس کے گرد پورا دائرہ گھومتا ہے۔اگر آپ نہ ہوتے تو یہ کائنات بھی نہ ہوتی۔اس لیے آپ کی ناموس، آپ کی عزت، آپ کا ادب کا ئنات کی ہر شے سے بالا تر و عزیز تر ہے۔دنیا میں سب سے بڑی متاع، متاعِ ایمان ہےاور ایمان کی متاع اور ایمان کا سرمایہ آپ کی ذات ہے۔اللہ پاک فرماتا ہے، یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔

شان نزول:جب حضور اقدس ﷺ صحابہ کرام کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کرتے:راعنا یا رسول اللہ !یعنی یا رسول الله! ہمارے حال کی رعایت فرمائیے۔یعنی کلام اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کی رعایت دیجیے۔یہودکی لغت میں یہ کلمہ سوءِادب کے معنی رکھتا تھا، انہوں نے اس نیت سے کہنا شروع کردیا۔جس کی ممانعت میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور راعناکہنے کی ممانعت فرما دی اور معنی کا دوسرا لفظ انظرنا (حضور! ہم پر نظر رکھیں)کہنے کا حکم ہوا۔

معلوم ہوا! انبیا کی تعظیم وتوقیر اور ان کی جناب میں کلمات ادب عرض کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔کیونکہ یہی دربار نبوت کا ادب ہے۔ایک اور مقام پر رب کریم ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ-(الانفال:24) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور سول کے بلانے پر حاضر ہو جب رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔

بخاری شریف میں حضرت سعید بن معلّی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں:میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، مجھے حضور ﷺ نے پکارا، میں نےجواب نہ دیا، پھر میں حاضر خدمت ہوا اورعرض کی:یا رسول اللہﷺ!میں نماز پڑھ رہا تھا،آپ نے فرمایا:کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ ”اللہ و رسول کے بلانے پر حاضر ہوجاؤ “ کیونکہ رسول کا بلانا اللہ ہی کا بلانا ہے۔

سورۂ نور آیت نمبر63 میں رب کریم بار گاہِ نبی کے ادب کے متعلق فرماتا ہے، ترجمہ:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیساتم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ نداکرے تو ادب و تکریم اور تو قیر و تعظیم کے ساتھ، آپ کے منظم القاب سے، نرم آواز کے ساتھ،متو اضعانہ اور منکسرانہ لہجے میں یا نبی الله، یا رسول الله، یا حبیب الله کہہ کر۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) (الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک الله سنتا جانتا ہے۔ یعنی تمہیں لازم ہے کہ اصلاً تم سے تقدیم واقع نہ ہو،نہ قول میں نہ فعل میں کہ تقدیم کرنا رسول ﷺ کے ادب و احترام کے خلاف ہے۔ بارگاہ رسالت میں ادب ونیازمندی لازم ہے۔

اللہ پاک مزید ارشاد فرماتا ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے نبی کی آواز سے، اور ان کے حضوربات چلاکر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہیں تمہارے عمل اکا رت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

یعنی جب بارگاہ رسالت مآب میں عرض کرو تو آہستہ پست آواز میں عرض کرو کہ یہی دربار رسالت کا ادب و احترام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور اقدسﷺ کا اس قدر ادب واحترام کرتے تھے کہ حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ جب مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار مکہ کے نمائندہ بن کر میدان حدیبیہ میں گئے تھے تو وہاں سے واپس آکر انہوں نے کفار مکہ کے مجمع میں علی الاعلان یہ کہا تھا کہ اے میری قوم! میں نے با دشاہ روم، قیصر اور بادشاہ فارس کسری ٰ اوربادشاہ حبشہ سب کا دربار دیکھا ہے مگر خدا کی قسم!میں نے کسی بادشاہ کے درباریوں کو بادشاہ کی اتنی تعظیم کرتے نہیں دیکھا جتنی تعظیم محمد ﷺ کے اصحاب محمد ﷺ کی کرتے ہیں۔( سیرت مصطفی)

حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کے سامنے کسی نے کہہ دیاکہ مدینہ کی مٹی خراب ہے۔ یہ سن کرامام موصوف نے یہ فتوی دیا کہ اس گستاخ کوتیس کوڑے لگائے جائیں اور اس کو قید میں ڈال دیا جائے اوریہ بھی فرمایا کہ اس کو قتل کر دینے کی ضرورت ہے جو یہ کہے کہ مدینے کی مٹی اچھی نہیں ہے۔(شفا،2/44)

مولانا روم فرماتے ہیں:

بے ادب تنہا نہ خود را درشت بد بلکہ آتش درہمہ آفاق زد

بے ادبی کی برائی صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کی آگ ساتوں آفاق کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔

دعا ہے رب کریم صحیح معنوں میں ہمارے دلوں کو عشق مصطفٰے سے منور فرمائے۔


اللہ پاک نے مسلمانوں پر رسول اللہﷺ کی عظمت اور تعظیم کو لازم فرمایا۔ آپ کی تعظیم و تکریم کے بغیر نجات ممکن نہیں۔ارشاد باری ہے: فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) (الاعراف: 157) ترجمہ کنز الایمان: تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔

رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و تکریم کرنی جیسی آپ کی زندگی میں واجب لازم ہے ویسے ہی آپ کے ظاہری وصال کے بعد بھی واجب و لازم ہے۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے حضور میں آواز کو بلند نہیں کرنا چاہیے نہ زندگی میں اور نہ ہی وصال کے بعد۔ (منہاج القبول فی آداب الرسول،ص134)

سورۂ حجرات آیت نمبر 2: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ اس آیت مبارکہ میں بارگاہ نبوی کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں۔ پہلا ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو ! جب نبی کریم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آوازیں ان کی آواز سے بلندنہ ہوں بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پست آواز سے کرو۔

دوسرا ادب یہ ہے کہ حضور اقد س کو ندا کرتے وقت پورے ادب کا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کے نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف و تکریم کے کلمات اور عظمت کے القاب کے ساتھ عرض کرو جیسے کہو: یا رسول الله، یا نبی الله، کیونکہ ترک ادب سےنیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔ (صراط الجنان،ص397)

لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ سے متعلق اہم بات:بارگاہِ رسالت کا جو ادب و احترام اس آیت میں بیان ہوا، یہ آپ کی ظاہری حیات مبارکہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ آپ کی وفات ظاہری سے لے کر تا قیامت بھی یہی ادب و احترام باقی ہے۔

مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اب بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ جب روضہ رسول پر حاضری نصیب ہو تو سلام بہت آہستہ کریں اور کچھ دور کھڑے ہوں بلکہ بعض فقہا نے تو حکم دیا کہ جب حدیثِ پاک کا درس ہو تو وہاں دوسرے لوگ بلند آواز سے نہ بولیں۔(صراط الجنان،ص 403 )

الله پاک نے سورۂ حجرات میں آپ ﷺ کے ادب و احترام کی تعلیم فرمائی۔سورہ حجرات آیت نمبر1 میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک اور نبی کریم ﷺ کی اجازت کے بغیر کسی قول و فعل میں اصلا ان سے آگے نہ بڑھنا لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے۔

اسی طرح قرآن ِکریم میں سورہ فتح میں ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ بارگاہِ نبوی میں حاضری کے وقت وہی ادب و تعظیم کو ملحوظ رکھنا لازمی ہے جو آپ کی ظاہری حیات مبارکہ میں کی جاتی تھی۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ اس کھونٹی کی آواز جو مسجد نبوی کے اردگر دگھروں میں گاڑی جاتی تھی اور اس میخ کی آواز جو ٹھونکی جاتی تھی سنتی تھیں انہوں نے ان کے گھروں کے پاس کہلا بھیجا کہ رسول اللہﷺ کو اذیت نہ دو۔(منہاج القبول فی آداب الرسول، ص134)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دروازے کے کواڑ اس وعید سے بچنے کے لئے اور رسول اللہ ﷺ کے ادب کے خاطر کپڑے کے بنائے ہوئے تھے۔ (منہاج القبول فی آداب الرسول،ص135)

مسجد نبوی میں بلند آواز سے بولنا ممنوع ہے:چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں بلند آواز کرنے والوں کو تنبیہ کی اور ڈانٹا۔ حضرت سائب بن یزید سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں ایک بار مسجد نبوی میں کھڑاتھا کہ کسی نے مجھے کنکری ماری، دیکھا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں !کہا: جاؤ! ان دوشخصوں کو لے آؤ۔ جب ان دونوں کو میں ان کے پاس لے گیا توپوچھا: تم کون ہو ؟یا کہاں سے ہو؟انہوں نے کہا: طائف کے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اس شہر سے ہوتے تو میں تم کو ضرور سزا دیتا اس واسطے کہ تم مسجد نبوی میں آواز بلند کرتے ہو۔ (منہاج القبول فی آداب الرسول،میں135)

اسی طرح بزرگانِ دین بارگاہ رسالت میں جاتے ہوئے نہایت ہی ادب و احترام کا مظاہرہ فرماتے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے مدینہ منورہ میں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر خراسان یا مصر کے گھوڑے بندھے دیکھے جو آپ کو بطور ہدیہ پیش کیے گئے تھے۔ اس قدر اعلیٰ گھوڑے میں نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ چنانچہ میں نے عرض کی:یہ گھوڑے کتنے عمدہ ہیں!فرمایا:میں یہ سب آپ کو تحفے میں دیتا ہوں۔میں نے عرض کی:ایک گھوڑا اپنے لئے تو رکھ لیجیے۔فرمایا: مجھے اللہ پاک سے حیا آتی ہے کہ اس مبارک زمین کو اپنے گھوڑے کے قدموں تلے روندوں جس میں اس کے پیارے پیغمبر، بی بی آمنہ کے دلبر، مدینے کے تاجور ﷺ موجود ہیں یعنی آپ کا روضہ انور ہے۔(عاشقانِ رسول کی 130 حکایات، ص41)

ہاں! ہاں !رہ مدینہ ہے غافل ذراتو جاگ او پاؤں رکھنے والے یہ جاچشم و سر کی ہے

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اس شعر میں فرما رہے ہیں کہ زائرین مدینہ کسی معمولی جگہ پہ نہیں جارہے مدینے کے سفر پر نکل رہے ہیں اور اے جانے والو!غفلت چھوڑو اور عشق رسول سے سر شار ہو کر جاگ کر چلو۔ یہ رہ مدینہ پاؤں سے چلنے کا راستہ نہیں خدا توفیق دے تو آنکھوں کے بل چلو! ( شرح حدائق بخشش،ص605)

خلیفہ اعلیٰ حضرت، فقیہِ اعظم حضرت علامہ یوسف محمد شریف محدث کو ٹلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب میں حج کرنے گیا تو مدینہ منورہ کی حاضری میں سبز سبز گنبد کے دیدار سے مشرف ہوتے وقت میں نے باب السلام کے قریب اور گنبد خضراء کے سامنے ایک سفید ریش اور انتہائی نورانی چہرے والے بزرگ کو دیکھا جو قبر ِانور کی جانب منہ کر کے دوزانو بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے، معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ مشہور و معروف عالم دین اور زبردست عاشقِ رسول حضرت شیخ یوسف بن اسمعیل نبہانی ہیں۔میں ان کی وجاہت اور چہرے کی نورانیت دیکھ کر بہت متاثر ہوا اور ان کے قریب جا کر بیٹھ گیا اور گفتگو کی کوشش کی۔ وہ میری جانب متوجہ نہ ہوئے۔ میں نے ان سے کہا:میں ہندوستان سے آیا ہوں۔آپ کی کتابیں حجۃ الله علی العلمین اور جواہر البحار وغیرہ میں نے پڑھی ہیں جن سے میرے دل میں آ پ کی بڑی عقیدت ہے۔ انہوں نے یہ بات سن کر میری طرف محبت سے ہاتھ بڑھایا اور مصافحہ فرمایا۔ میں نے ان سے عرض کی:حضور !آپ قبرِ انورسے اتنی دور کیوں بیٹھتے ہیں؟ تو رو پڑے اور فرمانے لگے: میں اس لائق نہیں ہوں کہ قریب جاسکوں۔ (عاشقان رسول كی130 حکایت،ص149)

ان کے دیار میں تو کیسے چلے پھرے گا ؟ عطار تیری جرأت ! تو جائے گا مدینہ !

سبحان الله !ہمارے بزرگانِ دین کا ادب قربان جائیے!یہ ادب و احترام بے شک قرآن وسنت پر عمل ہے اللہ پاک نے قرآن پاک میں بھی ان عظیم بارگاہوں کا ادب کرنے کا حکم دیا ہے۔

وه بارگاہ نہایت عظیم ہے۔ جب کوئی شخص حاضر بارگاہ ہونے کا ارادہ کرے تو اسی دربار کا ادب اور حاضری کے آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ورنہ ادنیٰ سی گستاخی تمام اعمال کو اکارت کر سکتی ہے۔اس عظیم بارگاہ میں حاضری کے وقت نیت خالص زیارت اقدس کی کرنی چاہیے کیونکہ نیت پر ہی سارے اعمال کا دارو مدار ہے۔

چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ ہادی اعظم ﷺنے ارشاد فرمایا:ترجمہ:جس نے مدینہ آکر میری زیارت کی برائی سے باز رہتے ہوئے بہ نیت ثواب وہ میرے پڑوس میں ہوگا اور قیامت کے دن میں اس کی شفاعت کروں گا۔(شفا ء السقام،ص36) ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:جو قصداً اور عمداً میری زیارت کرے وہ قیامت کے دن میرے پڑوس میں ہوگا۔ ( مشکوۃ، حدیث:2755)


حضور نور مجسم ﷺ اللہ پاک کے آخری نبی ہیں جن کے لیے اللہ پاک نے یہ پوری کائنات تخلیق فرمائی۔ دنیاوی بادشاہ و حاکم آتا ہے تو اپنی بارگاہ کے آداب خود بناتا ہے، لیکن حضور کی ذات وہ ہے کہ جن کی بارگاہ کےآداب خود رب کریم ارشادفرماتا ہے تاکہ ان آداب کو بجالانے والا دنیا و آخرت کی کامیابی و سرخروئی حاصل کرسکے۔

فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) (الاعراف: 157) ترجمہ کنز الایمان: تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔

قرآنی آیات کی روشنی میں بارگاہ نبوی کے 5 آداب:بے شک اللہ پاک کی کتاب جو قیا مت تک کے لیے ہدایت اور نور ہے۔ہمیں بارگاہ نبوی کے آداب سکھاتی ہے۔

(1)پہلا ادب:بلانے پر فوراً حاضر ہو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ (الانفال:23)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔ یعنی کہ اے مسلمانو!سب سے پہلا ادب تو یہی ہے کہ جب بھی بلایا جائے تو فوراً حاضر ہوجاؤ اور تاخیر نہ کرو۔

(2)دوسرا ادب:حضور ﷺ کو ایک دوسرے کی طرح بالکل بھی نہ پکارو: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔یعنی کہ حضور ﷺکو عام لوگوں کی طرح نہ پکارو بلکہ بہتر سے بہترین القابات وخطابات سے پکارو مثلاً یارسول اللہ ﷺ!، یا نبی اللہ وغیرہ۔

(3) تیسرا ادب:حضور کی بارگاہ میں آواز اونچی نہ کرو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو۔ یعنی کہ ہمیشہ آقا کریم ﷺ کی بارگاہ میں آوازوں کو پست رکھا جائے اور آواز بلند نہ ہو کہ دنیا و آخرت کی بربادی و رسوائی کا سبب بن سکتی ہے۔

(4) چوتھا ادب:حجروں کے باہر سے نہ پکارو: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔ اس آیت قرآنی میں حضور ﷺ کو ان کےحجروں کے باہر سےپکارنے، آوازیں دینے کو منع کیا گیا ہے کہ حضور ﷺ کی ذات پاک کا ادب یہ ہے کہ آپ کے گھر سے باہر آنے کا انتظار کیا جائے۔

(5)پانچواں ادب:رسول اللہ ﷺکے گھر بے اجازت نہ جاؤ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ (الاحزاب:53) یہ حضور ﷺکی بارگار کا مقدس ترین ادب ہے کہ جب بھی حاضر ہونے کا اراده ہوتو سب اجازت لے کر حاضر ہو جاؤ۔

درس: مذکورہ بالا آیت کریمہ سے ہمیں یہ درس ملا کہ حضور سے محبت کی ایک علامت حضور کی بارگاہ کے آداب کو بجالا نابھی ہے۔بے شک ان آداب کو بجالانا ہی کامل محبت،دنیاو دین و آخر ت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔

حضور کی بارگاہ کے ادب کا واقعہ: جب اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کی بارگاہ عظیم کے یہ عظیم الشان آداب بیان فرمائے (لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْاپنی آوازیں اونچی نہ کرو) تو حضرت ابو بکر صدیق اور عمر فا روقِ اعظم اور دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اس قدر احتیاط فرمائی کہ اللہ کوان کی یہ ادا پسند آئی اور ان کے بارے میں یہ آیت قرآنی نازل ہوئی اور یہ عظیم مژدہ سُنایا گیا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ( الحجرات:3 )بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

پس صحابہ کرام کو بخشش اور بڑے عظیم ثو اب کی بشارت دی گئی ہے۔ اگر ہم بھی ان آداب کو بجالائیں تو بے شک ہمیں بھی اللہ پاک کی بارگاہ سےبے شمار اکرام و انعامات کا پروانہ مل سکتا ہے کیونکہ حضور ﷺ کی بارگاہ کا ادب در حقیقت اللہ پاک کی بارگاہ کا ادب ہے۔