قرآنِ پاک میں بارگاہِ نبوی
کے 5 آداب از بنتِ محمد اسماعیل مدنیہ، ڈرگ روڈ کراچی
الله کی سر تابقدم شان ہیں یہ ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں ایمان یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ
سید کائنات، صاحب
لولاک،آقائے نامدار،سرکار ابد قرار،محمد رسول ﷺکی ذات مقدسہ ہی اس کا ئنات میں وہ ہستی
ہے جو کائنات کے تکوینی اور نظامِ شریعہ
کا محور و مرکز ہے۔آپ علیہ السلام عالم تکوینی و عالم تشریعی دونوں میں دائرہ کے
اس مرکز کی طرح ہیں جس کے گرد پورا دائرہ گھومتا ہے۔اگر آپ نہ ہوتے تو یہ کائنات
بھی نہ ہوتی۔اس لیے آپ کی ناموس، آپ کی عزت، آپ کا ادب کا ئنات کی ہر شے سے بالا
تر و عزیز تر ہے۔دنیا میں سب سے بڑی متاع، متاعِ ایمان ہےاور ایمان کی متاع اور ایمان
کا سرمایہ آپ کی ذات ہے۔اللہ پاک فرماتا ہے، یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا
رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ
اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض
کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے درد ناک
عذاب ہے۔
شان
نزول:جب
حضور اقدس ﷺ صحابہ کرام کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں
عرض کرتے:راعنا یا رسول اللہ !یعنی
یا رسول الله! ہمارے حال کی رعایت فرمائیے۔یعنی کلام اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کی
رعایت دیجیے۔یہودکی لغت میں یہ کلمہ سوءِادب کے معنی رکھتا تھا، انہوں نے اس نیت
سے کہنا شروع کردیا۔جس کی ممانعت میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور راعناکہنے کی
ممانعت فرما دی اور معنی کا دوسرا لفظ انظرنا (حضور! ہم پر نظر رکھیں)کہنے کا حکم
ہوا۔
معلوم ہوا!
انبیا کی تعظیم وتوقیر اور ان کی جناب میں کلمات ادب عرض کرنا فرض ہے اور جس کلمہ
میں ترکِ ادب کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔کیونکہ یہی دربار نبوت کا
ادب ہے۔ایک اور مقام پر رب کریم ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا
لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ-(الانفال:24)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور سول کے بلانے پر حاضر ہو جب رسول تمہیں اس چیز کی
طرف بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔
بخاری شریف میں
حضرت سعید بن معلّی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں:میں مسجد میں نماز پڑھ
رہا تھا، مجھے حضور ﷺ نے پکارا، میں نےجواب نہ دیا، پھر میں حاضر خدمت ہوا اورعرض
کی:یا رسول اللہﷺ!میں نماز پڑھ رہا تھا،آپ نے فرمایا:کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا
کہ ”اللہ و رسول کے بلانے پر حاضر ہوجاؤ “ کیونکہ رسول کا بلانا اللہ ہی کا بلانا
ہے۔
سورۂ نور آیت نمبر63 میں
رب کریم بار گاہِ نبی کے ادب کے متعلق فرماتا ہے، ترجمہ:رسول
کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیساتم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ نداکرے
تو ادب و تکریم اور تو قیر و تعظیم کے ساتھ، آپ کے منظم القاب سے، نرم آواز کے
ساتھ،متو اضعانہ اور منکسرانہ لہجے میں یا نبی الله، یا رسول الله، یا حبیب الله
کہہ کر۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا
بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ
عَلِیْمٌ(۱) (الحجرات:1) ترجمہ
کنز الایمان:اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو
بےشک الله سنتا جانتا ہے۔ یعنی تمہیں لازم ہے کہ اصلاً تم سے تقدیم واقع نہ ہو،نہ قول
میں نہ فعل میں کہ تقدیم کرنا رسول ﷺ کے ادب و احترام کے خلاف ہے۔ بارگاہ رسالت میں
ادب ونیازمندی لازم ہے۔
اللہ پاک مزید
ارشاد فرماتا ہے۔ یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو! اپنی
آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے نبی کی آواز سے، اور ان کے حضوربات چلاکر
نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہیں تمہارے عمل اکا رت نہ ہو
جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔
یعنی جب
بارگاہ رسالت مآب میں عرض کرو تو آہستہ پست آواز میں عرض کرو کہ یہی دربار رسالت
کا ادب و احترام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور اقدسﷺ کا
اس قدر ادب واحترام کرتے تھے کہ حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ جب مسلمان
نہیں ہوئے تھے اور کفار مکہ کے نمائندہ بن کر میدان حدیبیہ میں گئے تھے تو وہاں سے
واپس آکر انہوں نے کفار مکہ کے مجمع میں علی الاعلان یہ کہا تھا کہ اے میری قوم! میں
نے با دشاہ روم، قیصر اور بادشاہ فارس کسری ٰ اوربادشاہ حبشہ سب کا دربار دیکھا ہے
مگر خدا کی قسم!میں نے کسی بادشاہ کے درباریوں کو بادشاہ کی اتنی تعظیم کرتے نہیں
دیکھا جتنی تعظیم محمد ﷺ کے اصحاب محمد ﷺ کی کرتے ہیں۔( سیرت مصطفی)
حضرت امام
مالک علیہ الرحمہ کے سامنے کسی نے کہہ دیاکہ مدینہ کی مٹی خراب ہے۔ یہ سن کرامام موصوف
نے یہ فتوی دیا کہ اس گستاخ کوتیس کوڑے لگائے جائیں اور اس کو قید میں ڈال دیا
جائے اوریہ بھی فرمایا کہ اس کو قتل کر دینے کی ضرورت ہے جو یہ کہے کہ مدینے کی مٹی
اچھی نہیں ہے۔(شفا،2/44)
مولانا روم
فرماتے ہیں:
بے ادب تنہا نہ خود را درشت بد بلکہ آتش درہمہ آفاق زد
بے ادبی کی برائی صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کی آگ ساتوں آفاق
کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔
دعا ہے رب
کریم صحیح معنوں میں ہمارے دلوں کو عشق مصطفٰے سے منور فرمائے۔