نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان و عظمت بہت ہی بلند و بالا ہے۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں 26 انبیائے کرام کا ذکر ان کے ناموں کے ساتھ فرمایا اور جہاں پر بھی انبیاء سے خطاب ہوا ان کے ناموں کے ساتھ خطاب فرمایا جیسے (یٰمُوْسٰى، یٰۤاِبْرٰهِیْمُ) لیکن جب اپنے محبوب کو خطاب فرمایا تو نام کی بجائے پیارے القابات(یٰۤاَیُّهَاالْمُزَّمِّلُ،یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ) سے یاد فرمایا اور رہتی دنیا تک لوگوں کی تربیت کے لئے دربارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب بیان فرمائے اور ان کو حکم دیا کہ جب وہ دربارِ رسالت میں حاضر ہوں تو ان آداب کو ملحوظ خاطر رکھیں۔معزز قارئینِ کرام بارگاہِ رسالت کے ان آداب میں سے چند ملاحظہ کیجئے:

(1)آواز پست رکھنا:﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔ (پ26، الحجرات:2)اس آیت ِمبارکہ میں اللہ پاک نے مسلمانوں کو دربارِ رسالت کا ادب سکھایا ہے کہ جب تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو۔(صراط الجنان، 9/ 397)

(2) ادب سے پکارنا:﴿ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ (پ18،النور:63) اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایسے نہ پُکارو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو بلکہ تم تعظیم،تکریم، توقیر،نرم آواز اور عاجزی و انکساری کے ساتھ ان کو پکارو۔ (صراط الجنان،6/675ماخوذاً)

(3) راعنا نہ کہو:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا﴾ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو راعنانہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں۔ (پ1،البقرۃ: 104) نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وعظ کے دوران صحابۂ کرام عرض کرتے تھے ” رَاعِنَا “ تو یہودی گستاخانہ لحاظ سے یہ لفظ کہتے تھے۔ تو اللہ پاک نے حکم فرمایا کہ ”رَاعِنَا“ کے بجائے ” اُنْظُرْنَا “کہو تاکہ کسی قسم کی گستاخی کا شبہ نہ رہے۔(تفسیر کبیر،البقرۃ،تحت الآیۃ:104، 1/634)

(4) مغفرت کے لئے دربارِرسالت میں حاضری:﴿ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(پ5،النسآء:64)

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بندوں کو حکم ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں اگرچہ اللہ پاک ہر جگہ سنتا اور دیکھتا ہے مگر پھر بھی اس نے یہی حکم فرمایا کہ اگر میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو جاؤ۔ ( فتاویٰ رضویہ،15/654ماخوذاً)

(5) رسولُ اللہ سے آگے نہ بڑھو:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو۔ (پ 26،الحجرات:1)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یہ حکم سب کو عام ہے،یعنی کسی بات میں، کسی کام میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے ہونا منع ہے۔ اگر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہمراہ راستہ میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے، اگر ساتھ کھانا ہو تو پہلے شروع کر دینا نا جائز، اسی طرح اپنی عقل اور اپنی رائےکو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رائے سے مقدم کرنا حرام ہے۔ ( شانِ حبیب الرحمٰن،ص224)

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات میں بارگاہِ رسالت کے آداب کا ذکر ہے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دربارِ مصطفےٰ کی بار بار با ادب حاضری نصیب فرمائے۔ آمین 


انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ ہر شخص زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہے اور کامیابی کے چند لوازمات (Importants) ہوتے ہیں ان لوازمات میں سے ایک نہایت ہی اہم ”ادب“ ہے۔ ادب ہی سے انسان کامیابی کے منازل طے کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے:

با ادب با نصیب بے ادب بد نصیب

ادب ہر کسی کا یکساں (Equal) نہیں ہوتا بلکہ ہر کسی کے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ اگر اس کائنات میں نظر دوڑائی جائے تو جس کو جو مقام ملا وہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وسیلہ سے ملا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مقام و مرتبہ خود خالقِ کائنات نے بلند فرمایا۔ لہذا جب مقام و مرتبہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اعلیٰ و اولیٰ ہوا تومخلوق میں سب سے زیادہ ادب کے حقدار بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات مبارک ہوئی اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کےآداب خود اللہ پاک نے بیان فرمائے۔ چند آیات ملاحظہ فرمائیں :

(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو۔ (پ26، الحجرات:1)

(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔ (پ26،الحجرات:2)

(3) لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجَمۂ کنزُالایمان: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ (پ 18 ، النور:63 )

(4) وَ اِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰۤى اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْهَبُوْا حَتّٰى یَسْتَاْذِنُوْهُط ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب رسول کے پاس کسی ایسے کام میں حاضر ہوئے ہوں جس کے لیے جمع کیے گئے ہوں تو نہ جائیں جب تک اُن سے اجازت نہ لے لیں۔(پ18،النور:62 )

(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو ۔(پ1،البقرۃ:104)

آیات میں بیان کیے گئے آداب: (1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے۔ (صراط الجنان، 9/317) (2) جب تم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کرو تو آہستہ آواز میں کرو۔ (صراط الجنان، 9/319) (3) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پکارنے کو آپس میں ایسا معمولی نہ بنا لو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔ (صراط الجنان، 9/675) (4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام لے کر نہ پکارو بلکہ تعظیم، تکریم، توقیر ،نرم آواز کے ساتھ اور عاجزی و انکساری سے انہیں اس طرح کے الفاظ کے ساتھ پکارو: یا رسولَ الله، یا نبیَ اللہ یا حبیبَ الله، یا خاتمَ النبیین۔ (صراط الجنان، 6/675) (5) حضور علیہ الصلاۃ و السّلام کی بارگاہ میں” راعنا“ کے لفظ کی جگہ ”انظرنا “ کا لفظ استعمال کرو ۔ (صراط الجنان، 1/181)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں بھی اور وصالِ ظاہری کے بعد بھی آپ کی بارگاہ کا بے حد ادب و احترام کیا اور اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کے جو آداب انہیں تعلیم فرمائے انہیں دل و جان سے بجا لائے۔ اسی طرح ان کے بعد تشریف لانے والے دیگر بزرگانِ دین رحمۃُ اللہ علیہم اجمعین نے بھی دربارِ رسالت کے آداب کا خوب خیال رکھا اور دوسروں کو بھی وہ آداب بجا لانے کی تلقین کی۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی با ادب حاضری نصیب فرمائے ۔