انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ ہر شخص زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہے اور کامیابی کے چند لوازمات (Importants) ہوتے ہیں ان لوازمات میں سے ایک نہایت ہی اہم ”ادب“ ہے۔ ادب ہی سے انسان کامیابی کے منازل طے کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے:

با ادب با نصیب بے ادب بد نصیب

ادب ہر کسی کا یکساں (Equal) نہیں ہوتا بلکہ ہر کسی کے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ اگر اس کائنات میں نظر دوڑائی جائے تو جس کو جو مقام ملا وہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وسیلہ سے ملا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مقام و مرتبہ خود خالقِ کائنات نے بلند فرمایا۔ لہذا جب مقام و مرتبہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اعلیٰ و اولیٰ ہوا تومخلوق میں سب سے زیادہ ادب کے حقدار بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات مبارک ہوئی اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کےآداب خود اللہ پاک نے بیان فرمائے۔ چند آیات ملاحظہ فرمائیں :

(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو۔ (پ26، الحجرات:1)

(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔ (پ26،الحجرات:2)

(3) لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجَمۂ کنزُالایمان: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ (پ 18 ، النور:63 )

(4) وَ اِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰۤى اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْهَبُوْا حَتّٰى یَسْتَاْذِنُوْهُط ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب رسول کے پاس کسی ایسے کام میں حاضر ہوئے ہوں جس کے لیے جمع کیے گئے ہوں تو نہ جائیں جب تک اُن سے اجازت نہ لے لیں۔(پ18،النور:62 )

(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو ۔(پ1،البقرۃ:104)

آیات میں بیان کیے گئے آداب: (1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے۔ (صراط الجنان، 9/317) (2) جب تم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کرو تو آہستہ آواز میں کرو۔ (صراط الجنان، 9/319) (3) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پکارنے کو آپس میں ایسا معمولی نہ بنا لو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔ (صراط الجنان، 9/675) (4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام لے کر نہ پکارو بلکہ تعظیم، تکریم، توقیر ،نرم آواز کے ساتھ اور عاجزی و انکساری سے انہیں اس طرح کے الفاظ کے ساتھ پکارو: یا رسولَ الله، یا نبیَ اللہ یا حبیبَ الله، یا خاتمَ النبیین۔ (صراط الجنان، 6/675) (5) حضور علیہ الصلاۃ و السّلام کی بارگاہ میں” راعنا“ کے لفظ کی جگہ ”انظرنا “ کا لفظ استعمال کرو ۔ (صراط الجنان، 1/181)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں بھی اور وصالِ ظاہری کے بعد بھی آپ کی بارگاہ کا بے حد ادب و احترام کیا اور اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کے جو آداب انہیں تعلیم فرمائے انہیں دل و جان سے بجا لائے۔ اسی طرح ان کے بعد تشریف لانے والے دیگر بزرگانِ دین رحمۃُ اللہ علیہم اجمعین نے بھی دربارِ رسالت کے آداب کا خوب خیال رکھا اور دوسروں کو بھی وہ آداب بجا لانے کی تلقین کی۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی با ادب حاضری نصیب فرمائے ۔